سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن کے مشیر رابرٹ کرین کا اسلام قبول کرنا
ایک دن امریکی صدر نکسن نے "اسلامی اصول و قواعد" کے بارے میں پڑھنا چاہا, لہذا اس نے سی آئی اے سے کہا کہ میرے لیے اس موضوع پر ایک تحقیقی مضمون تیار کرو..
انہوں نے ایک تحقیقی مضمون تیار کیا
لیکن وہ قدرے لمبا تھا. اس نے اپنے مشیر رابرٹ کرین سے کہا کہ اس مضمون کو پڑھیں اور اس کا خلاصہ کریں۔
رابرٹ نے اس مضمون کو پڑھا اور صدر کو اس کا خلاصہ کر کے دے دیا لیکن اس مضمون کے مندرجات نے رابرٹ کو اسلام کے متعلق مزید تحقیق پر مجبور کردیا
لہذا وہ اس موضوع
کے بارے میں مزید معلومات کے لیے اسلامی سیمینارز اور کانفرنسز میں شرکت کرنے لگے...
پھر وہ دن بھی آیا کہ رابرٹ نے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرلیا اور پوری ریاستہائے متحدہ امریکہ میں ان کے قبول اسلام کی خبریں پھیل گئیں.
انھوں نے قبول اسلام کے بعد اپنا اسلامی
نام "فاروق عبد الحق" رکھا.
وہ اسلام قبول کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
بطور قانون کا طالب علم ہونے کے, مجھے اسلام میں وہ تمام قوانین ملے جن کا میں نے مطالعہ کیا..
میں نے ہارورڈ یونیورسٹی میں 3 سال تک قانون کی تعلیم حاصل کی لیکن مجھے ان
کے قوانین میں ایک بار بھی لفظ "عدل" نہیں ملا, تاہم
مجھے یہ لفظ اسلام میں کثرت سے ملا ہے..
انہوں نے 1981 عیسوی میں اسلام قبول کیا اور اپنا نام سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نام پر "فاروق" رکھا جو کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عدل کے امام تھے..
وہ کہتے ہیں: ہم ایک دفعہ ایک قانونی مباحثہ کر رہے تھے. یہودی قانون کے ایک پروفیسر بھی ہمارے ساتھ تھے. اس کی گفتگو کی باری آئی تو اس نے بولنا شروع کیا اور اپنی گفتگو میں اسلام اور مسلمانوں پر طعن و تشنیع کرنے لگا.. جب اس کی دشنام طرازی حد سے بڑھنے لگی تو میں نے اسے
خاموش کرانے کی ٹھانی..
میں نے اس سے پوچھا: کیا آپ کو امریکی آئین میں وراثت کے قانون کا حجم معلوم ہے؟
اس نے کہا: ہاں, وہ آٹھ جلدوں سے زیادہ ہے..
میں نے کہا: اگر میں آپ کے پاس وراثت کا ایسا قانون لاؤں جو دس لائنوں سے زیادہ نہیں تو کیا آپ
یقین کریں گے کہ اسلام ایک سچا مذہب ہے؟
اس نے کہا: ایسا ممکن ہی نہیں کہ وراثت کا اتنا لمبا چوڑا قانون صرف دس لائنوں میں سما دیا جائے...
میں نے قرآن مجید سے وراثت کی آیتیں نکالیں اور اسے پیش کردیں..
کچھ دنوں بعد وہ میرے پاس آیا اور کہنے
لگا: ایک انسانی ذہن کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ تمام قریبی رشتے داروں کا اتنی وسعت سے احاطہ کرے کہ کسی کو بھی نہ چھوڑے اور پھر ان کے درمیان اتنے عدل سے وراثت تقسیم کرے کہ کسی ایک پر بھی ظلم نہ کرے...
پھر اس یہودی نے اسلام قبول کرلیا۔ !
ڈاکٹر رابرٹ کرین (فاروق)
ابھی حیات ہیں..ان کی عمر 91 سال کو پہنچ چکی ہے.. وہ اپنی وسعت و طاقت کے مطابق امریکہ میں اسلام کی شمعیں پھیلانے میں مگن ہیں...
اللہ ان کے چراغ سے لاکھوں چراغ روشن کرے
یاد رہے • انہوں نے عوامی قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، پھر بین
الاقوامی قانون میں پی ایچ ڈی کی..
• پھر وہ ہارورڈ سوسائٹی آف انٹرنیشنل لاء کے صدر بن گئے..
• بعد ازاں وہ امریکی صدر نکسن کے مشیر برائے امور خارجہ تعینات ہوئے..
• وہ امریکی قومی سلامتی کونسل کے ڈپٹی ڈائریکٹر بھی رہے..
• انہیں امریکہ میں سیاسی امور کا ماہر سمجھا جاتا ہے.
• وہ امریکہ میں مرکز تمدن وتجدید کے بانی ہیں.
• وہ چھ زندہ زبانوں میں روانی سے بولتے ہیں.
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
یورپ سمیت تقریبا تمام غیر مسلم ممالک میں خنزیر کا گوشت پہلی پسند ہے ان ملکوں میں بہت سے فارم ہیں جہاں اس جانور کی پرورش کی جاتی ہے اکیلے فرانس میں ہی 42 ہزار سے زیادہ فارم ہیں
خنزیر میں دوسرے تمام جانوروں کے مقابلے زیادہ
یہ واقعہ آج سے ساڑھے تین ہزار سال پہلے پیش آیا تھا، فرعون کے ڈوب کر مرنے کے بعد سمندر نے اس کی لاش کو اللہ کے حکم سے باہر پھینک دیا جبکہ باقی لشکر کا کوئی نام و نشان نہ ملا۔ مصریوں میں سے کسی شخص نے ساحل پر پڑی اس کی لاش پہچان کر اہل دربار کو بتایا۔ فرعون کی
لاش کو محل پہنچایا گیا، درباریوں نے مسالے لگا کر اسے پوری شان اور احترام سے تابوت میں رکھ کر محفوظ کر دیا۔ حنوط کرنے کے عمل کے دوران ان سے ایک غلطی ہو گئی تھی، فرعون کیوں کہ سمندر میں ڈوب کر مرا تھا اور مرنے کے بعد کچھ عرصہ تک پانی میں رہنے کی وجہ سے اس کے جسم پر
سمندری نمکیات کی ایک تہہ جمی رہ گئی تھی، مصریوں نے اس کی لاش پر نمکیات کی وہ تہہ اسی طرح رہنے دی اور اسے اسی طرح حنوط کر دیا۔
وقت گزرتا رہا، زمین و آسمان نے بہت سے انقلاب دیکھے جن کی گرد کے نیچے سب کچھ چھپ گیا،
حتیٰ کہ فرعونوں کی حنوط شدہ لاشیں
حضرت بہلول ؒ گزر رہے تھے، ایک بچے کو دیکھا… وہ کھڑا رو رہا تھا … دوسرے بچے اخروٹ سے کھیل رہے تھے… انہوں نے سمجھا اس کے پاس اخروٹ نہیں، اس لیے رو رہا ہے، میں اس کو لے کر دیتا ہوں ، انہوں نے کہا بیٹا !رو نہیں … میں تجھے اخروٹ لے کر دے
دیتا ہوں … تو بھی کھیل۔
اس بچے نے کہا: بہلول! کیاہم دنیا میں کھیلنے آئے ہیں؟
ان کو اس بات کی توقع نہیں تھی کہ بچہ ایسا جواب دے گا تو انہوں نے کہا اچھا، پھر کیا کرنے آئے ہیں؟
بچے نے کہا: الله تعالیٰ کی عبادت کرنے آئے ہیں …
انہوں نے کہا بچے! … ابھی تو تم بہت
چھوٹے ہو …تمہارے غم کی یہ چیز نہیں ہے، ابھی تو تمہارا اس منزل میں آنے میں بھی بہت وقت پڑا ہے …
تو اس نے کہا: ارے بہلول! مجھے دھوکہ نہ دے … میں نے اپنی ماں کو دیکھا ہے … وہ صبح جب آگ جلاتی ہے تو پہلے چھوٹی لکڑیوں سے جلاتی ہے اور پھر بعد میں بڑی
حضرت سلطان محمود غزنوی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس ایران کا بادشاہ اپنے سفیر کیساتھ ملاقات کے لۓ آیا ھوا تھا دن سارا سلطنت کے امور پر تبادلہ خیال میں گزر گیا رات کے کھانے کے بعد ایرانی بادشاہ اور سفیر کو مہمان خانے میں آرام کرنے کی غرض سے بھیج دیا گیا۔۔۔
سلطان محمود غزنوی رحمتہ اللہ علیہ خود بھی مہمان خانہ میں ھی ایک الگ خیمہ نما کمرے میں ٹھہرے تا کہ مہمان داری میں کوئی کمی نا رہ جاے۔۔۔
تقریباً نصف رات کے بعد سلطان نے اپنے خیمہ کے باھر کھڑے غلام کو آواز دی :
حسن۔۔۔
اس نے پانی کا لوٹا اور خرمچی اٹھائی اور
خیمہ میں داخل ھو گیا ۔۔۔
ایرانی بادشاہ بڑی حیرت سے اپنے خیمہ کے پردہ سے یہ منظر دیکھ رھا تھا اور ساتھ ھی ساتھ سلطان محمود غزنوی رحمتہ اللہ علیہ کے غلام حسن کا باھر آنے کا منتظر بھی تھا ۔۔۔
جیسے کوئی سوال اسکو بے چین کے ھوے تھا
جیسے ھی حسن سلطان کے خیمہ سے باھر
(حنانہ) وہ درخت جو عشق رسول ﷺ میں
اتنا رویا اتنا رویا کہ صحابہ بھی حیران رہ گئے۔۔۔
حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک ستون سے ٹیک لگا کر خطبہ دیتے تھے۔
پھر رسول اکرمﷺ کے لیے ایک صحابی نے لکڑی کا منبر بنا کر مسجد نبویﷺ میں رکھ دیا۔
پھر جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے
لئے منبر تیار ہوگیا تو
آپﷺ خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے اس پر رونق افروز ہوئے،
تو خشک درخت حنانہ کا بنا ہوا وہ ستون،
جس سے ٹیک لگا کر آپﷺ خطبہ ارشاد فرماتے تھے،
بلک بلک کر رونے لگا۔۔۔
آپ کی جدائی وہ برداشت نہ کرسکا
اسکی سسکیوں میں اتنی شدت تھی اتنا کرب تھا
اس کی گریہ میں
مجلس میں موجود تمام صحابہ کرامؓ آبدیدہ ہو گئے۔
اس کی فریاد اتنی غم ناک تھی کہ لگتا تھا
کہ شدتِ غم سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا۔
بعض روایات میں ہے کہ
“آپ کی جدائی کے غم میں “ حنانہ “
اس طرح رویا جیسے اونٹ کا بچہ اپنی ماں کے کھو جانے پر روتا ہے”
مانسہرہ کے چار غریب مستقل کا خواب آنکھوں میں سجائے ہزار ارمان لیے اسلام آباد پہنچے اینٹی نار کوٹکس کا انہوں نے ٹیسٹ دینا تھا.
شہر اقتدار کی سڑکوں پر ایک بگڑے رئیس زادے نے نشے کی حالت میں ان چاروں جوانوں کو کچل دیا ان کے خواب اسلام آباد کی سڑک پر ان کی
لاشوں کے ساتھ بکھر گئے.
یہ رئیس زادہ کشمالہ طارق کا بیٹا اذلان تھا یہ وہی بے غیرت ہے جو کچھ عرصہ پہلے اپنی ماں کی ایک بوڑھے ارب پتی کے ساتھ تیسری شادی پر خوب ناچا تھا.
آپ کے خیال میں ریاست مدینہ میں چار معصوموں کا قاتل چار خاندانوں کا
مستقبل تاریک کرنے والے اس درندے کے ساتھ کیا سلوک ہوا ہوگا ؟
جان لیجئے ارب پتی سوتیلے باپ کا بیٹا اور با اثر سیاست دان ماں کے اس لاڈلے کو گرفتار تک نہیں کیا گیا،اس نے گھر بیٹھے بیٹھے اپنے وکیلوں کے ذریعے مبلغ 50 ہزار کے عوض اپنی اور ڈرائیور کی عبوری