کتاب ! سلطنت عثمانیہ سے اقتباس
ڈرامہ ارطغرل دیکھنے والوں کو اسکا بھی علم ھونا چاھئے۔
جب مصطفی کمال پاشا نے خلافت کا خاتمہ کیا تو آل عثمان كو راتوں رات گھریلو لباس ہی میں یورپ بھیج دیا گیا
شاہی خاندان ملکہ اور شہزادوں نے التجا کی کہ یورپ کیوں؟👇
ہمیں اردن، مصر یا شام کسى عرب علاقے ہی ميں بھیج دیا جائے لیکن صہیونی آقاؤں کی احکامات ت واضح تھیں،
اپنی آتش انتقام کو ٹھنڈا کرنا ان کو آخری درجے ذلیل کرنا مقصود تھا،
چناں چہ کسی کو یونان میں یہودیوں کے مسکن سالونیک اور کسی کو یورپ روانہ کیا گیا، اور 👇
آخری عثمانی بادشاہ سلطان وحید الدین اور ان کی اہلیہ کو راتوں رات فرانس بھیج دیا گیا
اور ان کی تمام جائیدادیں ضبط کرلی گئیں یہاں تک کہ گھریلو لباس میں خالی جیب اس حال میں انھیں رخصت کیا گیا کہ ایک پائی تک ان کے پاس نہ تھی،
کہا جاتا ہے کہ 👇
سلطان وحید الدین کے شہزادے منھ چھپا کر پیرس کی گلیوں میں کاسۂ گدائی لیے پھرتے تھے کہ کوئی انھیں پہچان نہ پائے،
پھر جب سلطان کی وفات ہوئی تو کلیسا ان کی میت کو کسی کے حوالے کرنے پر آمادہ نہ ہوا کیونکہ دکانداروں کا قرض ان پر چڑھا ہوا تھا،
بالآخر 👇
مسلمانوں نے چندہ کرکے سلطان کا قرض ادا کیا اور ان کی میت کو شام روانہ کیا اور وہاں وہ سپرد خاک ہوئے۔
بیس سال بعد جنھوں نے سب سے پہلے ان کے بارے میں دریافت کیا اور ان کی خبرگیری کی وہ تركى كے پہلے منتخب وزیر اعظم عدنان مندریس تھے،
شاہی خاندان کی تلاش کے لیے وہ فرانس گئے اور 👇
وہاں جاکر ان کے احوال وکوائف انھوں نے معلوم کیے، پیرس کے سفر ميں وہ کہتے تھے کہ مجھے
میرے آباء کا پتہ بتاؤ مجھے میری ماؤں سے ملاؤ، بالآخر وہ پیرس کے ایک چھوٹے سے گاؤں پہنچ کر ایک کارخانے میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ
سلطان عبد الحمید کی زوجہ پچاسی سالہ ملکہ شفیقہ اور 👇
ان کی بیٹی ساٹھ سالہ شہزادی عائشہ ایک کارخانے میں نہایت معمولی اجرت پر برتن مانجھ رہی ہیں،
یہ دیکھ کر مندریس اپنے آنسو روک نہ سکے اور زار وقطار رو پڑے، پھر ان کا ہاتھ چوم کر کہنے لگے: مجھے معاف کیجیے مجھے معاف کیجیے! شہزادی عائشہ نے پوچھا :آپ کون ہیں؟
👇
کہا: میں ترک وزیر اعظم عدنان مندریس ہوں،اتنا سننا تھا کہ وہ بول اٹھیں: اب تک کہاں تھے؟ اور خوشی کے مارے بے ہوش ہوکر گر پڑیں،
عدنان مندریس جب انقرہ واپس گئے تو انہوں نے کمال اتا ترک کے دوست اور اس وقت کے ترکی کے صدر جلال بیار سے کہا کہ 👇
ميں آل عثمان کے لیے معافی نامہ جاری کرنا چاہتا ہوں، اور اپنی ماؤں کو واپس لانا چاہتا ہوں، بیار نے شروع میں تو اعتراض کیا،
مگر مندریس کے مسلسل اصرار پر صرف عورتوں کو واپس لانے کی اجازت دی، پھر عدنان مندریس خود فرانس گئے اور ملکہ شفیقہ اور شہزادی عائشہ 👇
دونوں کو فرانس سے ترکی لے آئے،
مگر شہزادوں کے لیے معافی نامہ جاری کرکے ان کو اپنے وطن عزیز ترکی لانے کا سہرا مرحوم اربکان کے سر جاتا ہے جب وہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز تھے۔
پھر جب مندریس پر جھوٹا مقدمہ چلا کر ان کو تختہ دار پر لٹکایا گیا تو منجملہ الزامات کے ساتھ ساتھ 👇
دو الزام یہ بھی تھے کہ
1۔ انہوں نے 30 سال بعد ترکی میں عربی زبان میں اذان دینے کی اجازت دی جسے کمال اتا ترک اور اسکے ساتھیوں نے ترکی میں بند کر دیا تھا۔
2۔ انھوں نے حکومت کے خزانے سے چوری کرکے سلطان کی اہلیہ اور بیٹی پر خرچ کیا ہے، اس لیے کہ 👇
وہ ہر عید کے موقع پر ملکہ اور شہزادی سے ملاقات کے لیے جاتے، ان کے ہاتھ چومتے، اور اپنی جیب خاص اور اپنے ذاتی صرفے سے ۱۰ ہزار لیرہ سالانہ شہزادی عائشه اور ملکہ شفیقہ کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔
جب ۱۷ ستمبر ۱۹٦١ کو عدنان مندریس اور ان کے 4 ساتھیوں کو ملٹری کورٹ نے شہید کیا تو 👇
دوسرے ہی دن دونوں (ملکہ اور شہزادی) کی بھی بحالت سجود وفات ہوئی۔
یہ سلوک ہے ھمارے نام نہاد سیکولرزم کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ، نہ کوئی مروت نہ شرافت، نہ صلہ رحمی، نہ قرابت داری، نہ اخلاق کا پاس نہ قدروں کا لحاظ!
👇
یہ جو قومیت اور وطنیت کا راگ الاپتے رھے اور نعرےلگا لگا کر جن کی زبانیں نہیں رکھتی تھیں ان کا مقصد بجز اس کے اور کیا تھا کہ اسلامی اخوت سے لوگوں کا رشتہ کاٹ دیا جائے اور اس مقدس رشتے کے تانے بانے کو بکھیر کر اس کو ایسے جاہلی رشتوں میں تبدیل کیا جائے جن میں احترام ذات مفقود ہے👇
اور حرمتوں اور انسانی رشتوں کا کوئی پاس ولحاظ نہیں
روئے زمین پر موجود شیطان کے چیلوں سے کبھی بے خبر نہ رہنااور ہاں یہ قصے بچوں کو سلانے کے نہیں بلکہ سوتوں کو جگانے اور جواں مردوں کو کمربستہ کرنے کے لیے ہیں
اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جنت میں سب سے آخر میں وہ آدمی داخل ہو گا جو کبھی چلے گا، کبھی چہرے کے بل گرے گا اور کبھی آگ اسے جھلسا دے گی۔ جب👇
وہ آگ سے نکل آئے گا تو پلٹ کر اس کو دیکھے گا اور کہے گا : بڑی برکت والی ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ سے نجات دے دی۔ اللہ نے مجھے ایسی چیز عطا فرما دی جو اس نے اگلوں پچھلوں میں سے کسی کو عطا نہیں فرمائی۔
اسے بلندی پر ایک درخت دکھایا جائے گا تو وہ کہے گا : 👇
اے میرے رب مجھے اس درخت کے قریب کر دے تاکہ میں اس کے سائے میں دھوپ سے نجات حاصل کروں اور اس کے پانی سے پیاس بجھاؤں۔
اس پر اللہ عزوجل فرمائے گا : اے ابن آدم ! ہو سکتا ہے کہ میں تمہیں یہ درخت دے دوں تو تم مجھ سے اس کے سوا کچھ اور مانگو۔
وہ کہے گا : نہیں، اے میرے رب ! اور 👇
سوشل میڈیا کے توسط سے تاریخ کو جاننا ہی اہم نہیں بلکہ یہ جاننا بھی اہم ہے کہ ہمارے آس پاس کسی ایک تاریخی واقعہ کے بارے میں لوگوں کی یاداشت کیسی ہے، کون کسی ایک واقعہ پر کیا رائے رکھتا ہے۔ ایسی جانکاری سے آپ کو کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے اس کا سب سے زیادہ فائدہ یہ ہوتا ہے کہ 👇
آپ جب مختلف مکاتب فکر کو جانچ لیں کہ کوئی کسی ایک واقعہ پر کیسی رائے رکھتا ہے تو پھر آپ آئیندہ ایسا مواد لائیں جو مدلل ہو اور دوستوں کو درست حقائق سے قائل کرنے کا بھی باعث ہو۔ اس سلسلے میں ایسے تمام دوست جو جذباتی ہوتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ 👇
کسی کو گالی دینے سے سوشل میڈیا خاموش نہیں ہوگا بلکہ جذبات کی تسکین کا تقاضا ہے کہ ہر جذباتی دوست آئندہ محنت کرے اور ایسی تحاریر کا انتخاب کرے جو نہ صرف اس کے اپنے جذبات کی تسکین کا باعث بھی ہو اور دیگر کو دلیل سے قائل کرنے کا بھی باعث ہو 👇
*ارشاد فرمایا!کہ دنیا میں نقصان اور حادثات ہمارے یقین کو بنانے کے لیے آتے ہیں جیسے بچے کو کوئی کھلونا اتنا پسند آ جائے کہ وہ کھیل میں ماں کو بھول گیا تو ماں اس کھلونے کو ہی گم کر دیتی ہے پھر کھلونا نہ پا کر جب بچہ روتا ہے تو 👇
ماں کہتی ہے آ میرے لعل !میری گود میں اجا میری آنکھیں تیرے لئے ترس رہی ہے ایسے ہی بندہ کسی چیز میں پھنسا رہتا ہے کسی فانی شے(چیز) کو جان کا سہارا بنا لیتا ہے تو اس کو اللہ میاں ہٹا دیتے ہیں تاکہ یہ بے سہارا ہو کر میری طرف بھاگ آئے لہذا 👇
اگر کوئی حادثہ پیش آتا ہے اور یہ مسجد بھاگتا ہے سجدے میں سر رکھ دیتا ہے تو یہ حادثہ سبب ہو گیا اس کی حضوری کا، تضرع و گریہ،و مناجات کا پس اپنے بندوں کو اپنی ذات سے جوڑنے کے لیے یہ حادثات آتے ہیں جب ہم دنیاوی تعلقات میں پھنس کر اللہ میاں کو بھول جاتے ہیں تو یہ تعلقات چونکہ 👇
رہی بات تہذیب کی تو اقدار کے مجموعہ کو تہذیب کہتے ہیں۔ تہذیب تمدن سے الگ عنوان ہے گو تمدن میں کسی بھی علاقہ خطے کی تاریخ و تہذیب شامل ہوتی ہے لیکن یہ ان سب کا خلاصہ، نچوڑ، شخصیت و کردار کا مجسم عکس ہوتی ہے۔ جب تمدن مجسم عکس ہوتا ہے تو 👇
تہذیب حقیقت میں ایک جامع نظام، سسٹم ہوتا ہے۔ لیکن دنیا کا کوئی خطہ تہذیب کے تناظر میں نظام یا سسٹم کے تسلسل سے مجموعی طور پر واضح نہیں ہوتا ۔ تہذیب کے مضمون میں اقدار جامع سسٹم کے تحت خواہ دیکھائی نہ دیں لیکن اس کے باوجود یہ کلاسیکل(کلاس، طبقاتی) رنگ میں 👇
کسی قدر واضح ضرور ہوتی ہے۔ تہذیب میں ایسا تغیر کیونکر ہوتا ہے اس کی وجہ طاقت کی کشمکش یا طاقت کا خارج سے پہلے سے موجود داخلی یا مقامی قوت کی جگہ خود حامل حکم ہونا۔ اسی کو زندگی کہتے ہیں معاشرہ زندہ بھی اسی عمل سے رہتا ہے۔
سرکاری ملازمین کے احتجاج کو حکومت وقت نے جس طرح ہینڈل کیا اس پر آفرین کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے! پہلی حکومتیں ہر سال، نئے بجٹ میں، دس فی صد کے لگ بھگ تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کر دیتی تھیں؛ اگرچہ یہ اضافہ، افراط زر کے مقابلے میں ایسا ہی ہوتا تھا 👇
جیسے اونٹ کے منہ میں زیرہ! مگر ملازمین اور پنشنروں کی کچھ نہ کچھ اشک شوئی ہو جاتی تھی اور وہ خاموشی سے اگلے بجٹ کا انتظار شروع کر دیتے تھے۔ موجودہ حکومت نے ملک کی حالیہ تاریخ میں پہلی بار ملازمین اور پنشنروں کو بجٹ میں در خور اعتنا نہ جانا اور 👇
یہ بھی فرض کر لیا کہ یہ بے مثل ''حسن سلوک‘‘ ملازمین ہضم کر لیں گے کہ کیڑے مکوڑوں کی اہمیت ہی کیا ہے! اسے اہل اقتدار کی سادہ لوحی کہیے یا بے نیازی یا کوتاہ بینی! دوسری طرف گرانی کا گراف مسلسل اوپر جاتا رہا۔ یہاں تک کہ برداشت سے باہر ہو گیا۔ 👇