سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جنت میں سب سے آخر میں وہ آدمی داخل ہو گا جو کبھی چلے گا، کبھی چہرے کے بل گرے گا اور کبھی آگ اسے جھلسا دے گی۔ جب👇
وہ آگ سے نکل آئے گا تو پلٹ کر اس کو دیکھے گا اور کہے گا : بڑی برکت والی ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ سے نجات دے دی۔ اللہ نے مجھے ایسی چیز عطا فرما دی جو اس نے اگلوں پچھلوں میں سے کسی کو عطا نہیں فرمائی۔
اسے بلندی پر ایک درخت دکھایا جائے گا تو وہ کہے گا : 👇
اے میرے رب مجھے اس درخت کے قریب کر دے تاکہ میں اس کے سائے میں دھوپ سے نجات حاصل کروں اور اس کے پانی سے پیاس بجھاؤں۔
اس پر اللہ عزوجل فرمائے گا : اے ابن آدم ! ہو سکتا ہے کہ میں تمہیں یہ درخت دے دوں تو تم مجھ سے اس کے سوا کچھ اور مانگو۔
وہ کہے گا : نہیں، اے میرے رب ! اور 👇
اللہ کے ساتھ عہد کرے گا کہ وہ اس سے اور کچھ نہ مانگے گا۔ اس کا پروردگار اس کے عذر کو قبول کر لے گا کیونکہ وہ ایسی چیز دیکھ رہا ہو گا جس پر وہ صبر کر ہی نہیں سکتا۔ تو اللہ تعالیٰ اسے اس (درخت) کے قریب کر دے گا اور وہ اس کے سائے میں دھوپ سے محفوظ ہو جائے گا اور 👇
اس کا پانی پیے گا۔
پھر اسے اوپر ایک اور درخت دکھایا جائے گا جو پہلے درخت سے زیادہ خوبصورت ہو گا تو وہ کہے گا : اے میرے رب ! مجھے اس درخت کے قریب کر دے تاکہ میں اس کے پانی سے سیراب ہوں اور اس کے سائے میں آرام کروں، میں تجھ سے اس کے سوا کچھ نہیں مانگوں گا۔
👇
اللہ تعالیٰ فرمائےگا : اے آدم کے بیٹے ! کیا تم نے مجھ سے وعدہ نہ کیا تھا کہ تم مجھ سے کچھ اور نہیں مانگو گے؟ اور فرمائے گا : مجھے لگتا ہے اگر میں تمہیں اس کے قریب کر دوں تو تم مجھ سے کچھ اور بھی مانگو گے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے وعدہ کرے گا کہ وہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں مانگے گا، 👇
اس کا رب تعالیٰ اس کا عذر قبول کر لے گا، کیونکہ وہ ایسی چیز دیکھ رہا ہو گا جس کے سامنے اس سے صبر نہیں ہو سکتا۔ اس پر اللہ اسے اس درخت کے قریب کر دے گا۔ وہ اس کے سائے کے نیچے آ جائے گا اور اس کے پانی سے پیاس بجھائے گا۔
اور پھر ایک درخت جنت کے دروازے کے پاس دکھایا جائے گا 👇
جو پہلے دونوں درختوں سے زیادہ خوبصورت ہو گا تو وہ عرض کرے گا : اے میرے رب ! مجھے اس درخت کے قریب کر دے تاکہ میں اس کے سائے سے فائدہ اٹھاؤں اور اس کے پانی سے پیاس بجھاؤں، میں تم سے اور کچھ نہیں مانگوں گا۔
اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اے آدم کے بیٹے ! 👇
کیا تم نے میرے ساتھ وعدہ نہیں کیا تھا کہ اور کچھ نہیں مانگو گے؟
وہ کہے گا : کیوں نہیں میرے رب ! (وعدہ کیا تھا) بس یہی، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں مانگوں گا۔
اس کا رب اس کا عذر قبول کر لے گا کیونکہ وہ ایسی چیز دیکھ رہا ہو گا جس پر وہ صبر کر ہی نہیں سکتا۔
👇
تو وہ اس شخص کو اس (درخت) کے قریب کر دے گا تو وہ اہل جنت کی آوازیں سنے گا۔
وہ کہے گا : اے میرے رب ! مجھے اس میں داخل کر دے،
اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اے آدم کے بیٹے ! وہ کیا چیز ہے جو تجھے راضی کر کے ہمارے درمیان سوالات کا سلسلہ ختم کر دے؟ کیا تم اس سے راضی ہو جاؤ گے کہ 👇
میں تمہیں ساری دنیا اور اس کے برابر اور دے دوں ؟
وہ کہے گا : اے میرے رب ! کیا تو میری ہنسی اڑاتا ہے جبکہ تو سارے جہانوں کا رب ہے۔
اس پر ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہنس پڑے اور کہا : کیا تم مجھ سے یہ نہیں پوچھو گے کہ میں کیوں ہنسا؟
سامعین نے پوچھا : آپ کیوں ہنسے؟
👇
کہا : اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے تھے، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا تھا :
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟
👇
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : رب العالمین کے ہنس پڑنے پر۔ جب اس (آدمی) نے کہا کہ تو سارے جہانوں کا رب ہے، میری ہنسی اڑاتا ہے؟
اللہ فرمائے گا : میں تیری ہنسی نہیں اڑاتا بلکہ میں جو چاہوں کر سکتا ہوں۔
(صحيح مسلم : ٤٦٣)
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
سوشل میڈیا کے توسط سے تاریخ کو جاننا ہی اہم نہیں بلکہ یہ جاننا بھی اہم ہے کہ ہمارے آس پاس کسی ایک تاریخی واقعہ کے بارے میں لوگوں کی یاداشت کیسی ہے، کون کسی ایک واقعہ پر کیا رائے رکھتا ہے۔ ایسی جانکاری سے آپ کو کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے اس کا سب سے زیادہ فائدہ یہ ہوتا ہے کہ 👇
آپ جب مختلف مکاتب فکر کو جانچ لیں کہ کوئی کسی ایک واقعہ پر کیسی رائے رکھتا ہے تو پھر آپ آئیندہ ایسا مواد لائیں جو مدلل ہو اور دوستوں کو درست حقائق سے قائل کرنے کا بھی باعث ہو۔ اس سلسلے میں ایسے تمام دوست جو جذباتی ہوتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ 👇
کسی کو گالی دینے سے سوشل میڈیا خاموش نہیں ہوگا بلکہ جذبات کی تسکین کا تقاضا ہے کہ ہر جذباتی دوست آئندہ محنت کرے اور ایسی تحاریر کا انتخاب کرے جو نہ صرف اس کے اپنے جذبات کی تسکین کا باعث بھی ہو اور دیگر کو دلیل سے قائل کرنے کا بھی باعث ہو 👇
*ارشاد فرمایا!کہ دنیا میں نقصان اور حادثات ہمارے یقین کو بنانے کے لیے آتے ہیں جیسے بچے کو کوئی کھلونا اتنا پسند آ جائے کہ وہ کھیل میں ماں کو بھول گیا تو ماں اس کھلونے کو ہی گم کر دیتی ہے پھر کھلونا نہ پا کر جب بچہ روتا ہے تو 👇
ماں کہتی ہے آ میرے لعل !میری گود میں اجا میری آنکھیں تیرے لئے ترس رہی ہے ایسے ہی بندہ کسی چیز میں پھنسا رہتا ہے کسی فانی شے(چیز) کو جان کا سہارا بنا لیتا ہے تو اس کو اللہ میاں ہٹا دیتے ہیں تاکہ یہ بے سہارا ہو کر میری طرف بھاگ آئے لہذا 👇
اگر کوئی حادثہ پیش آتا ہے اور یہ مسجد بھاگتا ہے سجدے میں سر رکھ دیتا ہے تو یہ حادثہ سبب ہو گیا اس کی حضوری کا، تضرع و گریہ،و مناجات کا پس اپنے بندوں کو اپنی ذات سے جوڑنے کے لیے یہ حادثات آتے ہیں جب ہم دنیاوی تعلقات میں پھنس کر اللہ میاں کو بھول جاتے ہیں تو یہ تعلقات چونکہ 👇
رہی بات تہذیب کی تو اقدار کے مجموعہ کو تہذیب کہتے ہیں۔ تہذیب تمدن سے الگ عنوان ہے گو تمدن میں کسی بھی علاقہ خطے کی تاریخ و تہذیب شامل ہوتی ہے لیکن یہ ان سب کا خلاصہ، نچوڑ، شخصیت و کردار کا مجسم عکس ہوتی ہے۔ جب تمدن مجسم عکس ہوتا ہے تو 👇
تہذیب حقیقت میں ایک جامع نظام، سسٹم ہوتا ہے۔ لیکن دنیا کا کوئی خطہ تہذیب کے تناظر میں نظام یا سسٹم کے تسلسل سے مجموعی طور پر واضح نہیں ہوتا ۔ تہذیب کے مضمون میں اقدار جامع سسٹم کے تحت خواہ دیکھائی نہ دیں لیکن اس کے باوجود یہ کلاسیکل(کلاس، طبقاتی) رنگ میں 👇
کسی قدر واضح ضرور ہوتی ہے۔ تہذیب میں ایسا تغیر کیونکر ہوتا ہے اس کی وجہ طاقت کی کشمکش یا طاقت کا خارج سے پہلے سے موجود داخلی یا مقامی قوت کی جگہ خود حامل حکم ہونا۔ اسی کو زندگی کہتے ہیں معاشرہ زندہ بھی اسی عمل سے رہتا ہے۔
کتاب ! سلطنت عثمانیہ سے اقتباس
ڈرامہ ارطغرل دیکھنے والوں کو اسکا بھی علم ھونا چاھئے۔
جب مصطفی کمال پاشا نے خلافت کا خاتمہ کیا تو آل عثمان كو راتوں رات گھریلو لباس ہی میں یورپ بھیج دیا گیا
شاہی خاندان ملکہ اور شہزادوں نے التجا کی کہ یورپ کیوں؟👇
ہمیں اردن، مصر یا شام کسى عرب علاقے ہی ميں بھیج دیا جائے لیکن صہیونی آقاؤں کی احکامات ت واضح تھیں،
اپنی آتش انتقام کو ٹھنڈا کرنا ان کو آخری درجے ذلیل کرنا مقصود تھا،
چناں چہ کسی کو یونان میں یہودیوں کے مسکن سالونیک اور کسی کو یورپ روانہ کیا گیا، اور 👇
آخری عثمانی بادشاہ سلطان وحید الدین اور ان کی اہلیہ کو راتوں رات فرانس بھیج دیا گیا
اور ان کی تمام جائیدادیں ضبط کرلی گئیں یہاں تک کہ گھریلو لباس میں خالی جیب اس حال میں انھیں رخصت کیا گیا کہ ایک پائی تک ان کے پاس نہ تھی،
سرکاری ملازمین کے احتجاج کو حکومت وقت نے جس طرح ہینڈل کیا اس پر آفرین کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے! پہلی حکومتیں ہر سال، نئے بجٹ میں، دس فی صد کے لگ بھگ تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کر دیتی تھیں؛ اگرچہ یہ اضافہ، افراط زر کے مقابلے میں ایسا ہی ہوتا تھا 👇
جیسے اونٹ کے منہ میں زیرہ! مگر ملازمین اور پنشنروں کی کچھ نہ کچھ اشک شوئی ہو جاتی تھی اور وہ خاموشی سے اگلے بجٹ کا انتظار شروع کر دیتے تھے۔ موجودہ حکومت نے ملک کی حالیہ تاریخ میں پہلی بار ملازمین اور پنشنروں کو بجٹ میں در خور اعتنا نہ جانا اور 👇
یہ بھی فرض کر لیا کہ یہ بے مثل ''حسن سلوک‘‘ ملازمین ہضم کر لیں گے کہ کیڑے مکوڑوں کی اہمیت ہی کیا ہے! اسے اہل اقتدار کی سادہ لوحی کہیے یا بے نیازی یا کوتاہ بینی! دوسری طرف گرانی کا گراف مسلسل اوپر جاتا رہا۔ یہاں تک کہ برداشت سے باہر ہو گیا۔ 👇