آٸینے کا تاریخ
آئینے کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔زمانہ قدیم سے ہی انسان آئینے میں اپنے عکس کو دیکھ کر خوش ہوتا آیا ہے۔جب تک آئینہ ایجاد نہ ہواتھا تو انسان پانی میں اپنا عکس دیکھتاتھا ۔پھر ایک زمانے میں ایک خاص قسم کے سیاہ پتھر کو چمکاکر اس سے آئینہ بنالیا جاتا۔ غالباً 6000قبل مسیح
میں پالش کیا ہوا شیشہ آئینے کے طور پر استعمال ہونے لگا۔اسی آئینے سے کسی دور میں شیش محل بھی تعمیر ہوا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ اگر اس کے اندر ایک جگہ پر چراغ چلا دیا جائے توپورا محل روشن ہوجاتا تھا۔جنوب مغربی بولیویا میں واقع 58210 کلومیٹرپر پھیلا
ہوا دنیا کا سب سے بڑا نمک کا میدان ہے، جس کو ’’سالارڈی یونی‘‘ کہا جاتا ہے ۔اس کی حیران کن بات یہ ہے کہ جب اس پر پانی کی ہلکی سی تہ پھیل جاتی ہے تو یہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا قدرتی آئینہ بن جاتا ہے جو دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔یہ اس قدر بڑا آئینہ ہے کہ
اسے خلا سے بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔آئینہ ہماری روزمرہ زندگی میں بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے ۔انسان گھر میں ہو، آفس میں ہو یا سفرمیں ،ایک بار اپنا چہرہ آئینے میں ضرور دیکھنا چاہتا ہے ۔اسی طرح حساس نوعیت کے حامل مقامات پر بھی آئینہ لگا ہوتا ہے۔آپ نے بھی لفٹ میں
چڑھتے ہوئے آئینہ دیکھا ہوگا اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر وہاں آئینہ نہ لگا ہو تو انسان سارا وقت لفٹ کے خراب ہونے یا رسی ٹوٹ جانے جیسے اندیشوں میں مبتلا رہے گا،لیکن جب وہ لفٹ میں آئینہ دیکھتا ہے تو اپنے آپ کو دیکھنا اور اپنے بارے میں سوچنا شروع کرلیتا ہے اور یوں پریشان کن
خیالات سے محفوظ رہتا ہے۔
▪️چمک میں انعکاس ہوتا ہے
ہر وہ چیز جس میں چمک ہو تو اس میں انعکاس (Reflection) بھی ضرور ہوگا۔ہر انسان جب اپنے آپ کو منعکس ہوتا ہوا دیکھتا ہے تو وہ اپنے چہرے اور لباس کی خرابی کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہے اورجو بھی انسان یہ نہیں کرسکتا تو کوئی
دوسرافرد اس کے لیے یہ خدمت انجام دیتا ہے مثلاً بچے کواگر آپ دیکھیں تو اس کا چہرہ ماں صاف کرتی ہے ۔آئینہ اپنے دیکھنے والوں کو ہمیشہ حقیقت بتاتا ہے۔کسی کے چہرے پر اگر کوئی داغ ہے تو اس میں آئینے کا
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
اسکے ماں باپ نے بڑے لاڈ و پیار سے پرورش کی ، جوان ہوئی تو والدین کی رضا مندی کے بغیر کالج کی بس کے ڈرائیور سے خفیہ نکاح کر لیا ، باپ کو جب پتہ چلا تو بیٹی نے جواب دیا۔
"میرا نکاح ہو چکا ھے ، بہتر یہی ھے کہ آپ اپنے ہاتھوں مجھے رخصت کر دیں ورنہ میں خود ان کے
پاس چلی جاوں گی؟"
باپ نے کہا کہ اگر آپ کا یہ حتمی فیصلہ ھے تو آپ نے گھر سے جو کچھ لینا ھے لے لیں اور خود ہی اپنے شوہر کے پاس چلی جاؤ ، لیکن یہ یاد رکھنا ، اب آپ کا ہم سے اور ہمارا آپ سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ آپ ہمارے لیئے مر گئیں اور ہم آپ کیلئے
وہ خوشی خوشی
سامان پیک کرکے اپنے شوہر کے پاس چلی گئی۔ تقریبا آٹھ سال بعد اسکی ملاقات ایک قریبی عزیز سے ہوئی اور وہ اسے اپنے گھر لے آیا۔
خیر خیریت دریافت کرنے کے دوران اس نے زار و قطار رونا شروع کر دیا۔ وہ سمجھا کہ شاید گھر کے حالات صحیح نہیں ہوں گے۔
حضرتِ سلیمان علیہ السلام کے دور میں ایک شخص نے ایک خوبصورت پرندہ خریدا، وہ جب چہچہاتا تو نہایت دل فریب اور خوش مزاج آواز سے وہ شخص بہت مسرور ہوتا گویا اس پرندے کی آواز بہت ہی سریلی اور پیاری تھی۔ ایک دن اچانک اس پنجرے کے پاس اسی کے جیسا ایک اور
پرندہ آیا اور اپنی زبان میں کچھ باتیں کیں اور چلاگیا۔ پنجرے میں موجود پرندہ بالکل خاموش ہوگیا گویا ایسا ہوگیا جیسے وہ گونگا پرندہ ہے۔ اسکے مالک نے دو تین دن انتظار کیا مگر پرندہ بالکل خاموش۔۔۔
وہ شخص حضرت سلیمان علیہ السلام کی بارگاہ میں اس پرندے کو پنجرے سمیت
لایا اور شکایت کہ یہ بہت مہنگا پرندہ خریدا تھا، اسکی آواز مجھے مسرور کرتی تھی مگر اب نجانے کیا ہوا کہ بولتا ہی نہیں! حضرت سلیمان علیہ السلام (جو جانور، چرند، پرند، سب کی بولیاں جانتے تھے) نے اس پرندے سے پوچھا کیا وجہ ہے جو تم خاموش ہوگئے ہو؟
وہ پرندہ عرض گزار
مہمان کے لیے ڈنڈا
کہتے ہیں کہ کسی دُور اُفتادہ دیہات میں ایک معزز مہمان آیا۔ بڑی آؤ بھگت ہوئی۔ گاؤں کا گاؤں اُس کے سامنے بچھا جا رہا تھا۔ کھانے کا وقت آیا تو انواع و اقسام کی نعمتیں اُس کے سامنے دسترخوان پر لا کر چُن دی گئیں۔ ساتھ ہی ایک بڑی سی سینی میں ایک لمبا سا اور موٹا سا
ڈنڈا بھی لا کر رکھ دیا گیا۔ مہمان نعمتیں دیکھ کر تو خوش ہوا مگر ڈنڈا دیکھ کر ڈر گیا۔ سہمے ہوئے لہجے میں پوچھا: ’’آپ لوگ یہ ڈنڈا کس لیے لائے ہیں؟‘‘۔
میزبانوں نے کہا: ’’بس یہ ہماری روایت ہے۔ بزرگوں کے زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ مہمان آتا ہے تو اُس کے آگے کھانے کے ساتھ ساتھ
ڈنڈا بھی رکھ دیتے ہیں‘‘۔
مہمان کی تسلی نہ ہوئی۔ اُسے خوف ہوا کہ کہیں یہ تمام ضیافت کھانے کے بعد ڈنڈے سے ضیافت نہ کی جاتی ہو۔ اُس نے پھر تفتیش کی:
’’پھر بھی، اس کا کچھ تو مقصد ہوگا۔ کچھ تو استعمال ہوگا۔ آخر صرف مہمان کے آگے ہی ڈنڈا کیوں رکھا جاتا ہے؟‘‘۔
اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ ایک دن میں نیکر پہن کر سپارہ پڑھنے مسجد چلا گیا.
مولوی صاحب غصے میں آ گئے. بولے. ارے نالائق تم مسجد میں نیکر پہن کر کیوں آ گئے؟. بے وقوف ایسے مسجد میں آؤ گے تو جہنم میں جاؤ گے۔
میں نے گھر آ کر ماں جی کو بتایا تو ماں بولی پتر مولوی صاحب
غصے میں ہوں گے جو انہوں نے ایسا کہہ دیا ورنہ بیٹا جہنم میں جانے کے لئے تو بڑی سخت محنت کی ضرورت ھوتی ھے۔
جہنم حاصل کرنے کے لئے پتھر دل ہونا پڑتا ھے۔
جہنم لینے کے لئے دوسروں کا حق مارنا پڑتا ھے. قاتل اور ڈاکو بننا پڑتا ھے، فساد پھیلانا پڑتا ھے، مخلوقِ خدا کو اذیت دینی
پڑتی ھے، نہتے انسانوں پر آگ اور بارود کی بارش کرنا پڑتی ھے.
محبت سے نفرت کرنا پڑتی ھے۔ اس کے لئے ماؤں کی گودیں اجاڑنی پڑتی ہیں. رب العالمین اور رحمت العالمین سے تعلقات توڑنے پڑتے ہیں، تب کہیں جا کر جہنم ملتی ہے۔
تُو تو اتنا کاہل ھے کہ پانی بھی خود نہیں
کرپٹو کرنسی دراصل ایسی کرنسی ہوتی ہے جس کا جسمانی طور پر کوئی وجود نہیں ہوتا بلکہ وہ صرف ڈیجیٹل طور پر یعنی ڈیوائسز میں بیلنس کی طرح موجود ہوتی ہے اور اسے آپ لین دین کیلئے استعمال کر سکتے ہیں
کرپٹو کرنسی Mine کرنے کے چار طریقے ہیں
سب سے پہلا طریقہ Cloud Mining کہلاتا
ہے جس میں آپ کسی بھی کمپنی کو Rent دے کر کرپٹو مائننگ کراتے ہیں اور دوسرا طریقہ CPU Mining کہلاتا ہے جس میں کمپیوٹر کی طرز پر مدر بورڈ اور پروسیسرز کی مدد سے آپ Mining کرتے ہیں اور تیسرا طریقہ GPU Mining کہلاتا ہے جس میں آپ گرافک کارڈز سے Mining کرتے ہیں
اور چوتھا Aisc Mining ہے یہ ایسی ڈیوائسز ہیں جنہیں صرف Mining کیلئے ترتیب دیا ہے
ان میں سب سے زیادہ جی پی یو مائننگ کا طریقہ استعمال ہوتا ہے اور سی پی یو مائننگ کرنے سے پیسے کم ملتے ہیں اور اس پر اخراجات بہت زیادہ ہیں ہیں اور یہ چاروں طریقے ہیں بڑے
ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ نے عالمہ عورت سے ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮ ﻟﯽ، شادی کے بعد اس لڑکی ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻋﺎﻟﻤﮧ ﮬﻮﮞ اور ﮨﻢ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﺴﺮ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ -
ﻭﮦ ﺁﺩﻣﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﮬﻮﺍ ﮐﮧ چلو اچھا ہو بیگم کی برکت سے زندگی