ایک آدمی سڑک پہ جا رہا تھا ، پیچھے سے آواز آئی، رْک جا ورنہ مارا جائیگاوہ آدمی رْک گیا دیکھتے ہی دیکھتے اس کی آنکھوں کے سامنے ہی ایک آئل ٹینکر اچانک الٹا اور اس میں آگ بھڑک اْٹھی- وہ آدمی بال بال بچ گیا۔
ا گلے ہی وہی آدمی اگلے روز باغ کی سیر کر رہا تھا کہ آواز آئی رْک جا ،
👇
ورنہ مارا جائیگا- وہ آدمی اً فور جہاں تھا وہیں رْک گیا-عین سامنے ایک درخت کڑکڑاتا ہوا اس کے چند قدموں کے فاصلے پرگرا اور وہ آدمی صاف بچ گیا اس کے جسم سے پسینہ پانی بن کر بہنے لگا اس نے خداکا شکرادا کیا۔ وہی آدمی اگلے روز پچاس روپے کی دہی لینے دودھ کی دکان پہ جارہا تھا کہ
👇
آواز آئی رْک ، ورنہ مر جائے گا- وہ رْک گیا- اسی وقت سامنے والے کھمبے سے ایک تار ٹوٹ کر گری ایک بھینس پر گری اس نے تڑپ تڑپ کر جان دیدی ، اور وہ پھرآدمی صاف بچ گیا۔
چند دنوں وہی آدمی موٹر سائیکل پر اپنے دفتر سے گھرجانے کے لئے نکلا ابھی کچھ دورہی گیا ہوگا و ہی آوازگونجی
👇
رْک جا ورنہ مارا جائیگا اس نے فوراً بریک لگائی گھبرا کر وہی موٹر سائیکل کھڑا کر ابھی فٹ پاتھ پر چڑھا ہی تھا نہ جانے کہاں سے ایک بے قابو بس موٹر سائیکل کو روندتی ہوئی سامنے آتی جیپ سے جا ٹکرائی اب وہ شخص وہیں سر پکڑ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔اور بولا:’’ اے میرے مددگار، تو
👇
اس وقت کہاں تھا جب میں پی ٹی آئی کو ووٹ دے رہا تھا۔
وہی نادیدہ آواز پھر آئی۔ آوازیں میں نے تب بھی بہت دی تھیں ، لیکن تیرے ڈی جے نے بیک گراؤنڈ میْوزک بہت اْونچا کر رکھا تھا اور
تم " عمران خان دے جلسے اچ ، اج میرا نچنے نوں جی کردا " نامی گانے پر ٹھمکے مار رہے تھے۔
"ہن گھن مزے تبدیلی دے"
☺️
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
وطن سے الفت ہے جرم اپنا یہ جرم تا زندگی کریں گے
ہے کس کی گردن پہ خونِ ناحق یہ فیصلہ لوگ ہی کریں گے
وطن پرستوں کو کہہ رہے ہو وطن کا دشمن ڈرو خدا سے
جو آج ہم سے خطا ہوئی ہے ، یہی خطا کل سبھی کریں گے
#MushahidullahKhan
وظیفہ خواروں سے کیا شکایت ہزار دیں شاہ کو دعائیں
مدار جن کا ہے نوکری پر وہ لوگ تو نوکری کریں گے
لئے جو پھرتے ہیں تمغہء فن ، رہے ہیں جو ہم خیالِ رہزن
ہماری آزادیوں کے دشمن ہماری کیا رہبری کریں گے
#MushahidullahKhan
نہ خوفِ زنداں نہ دار کا غم یہ بات دہرارہے ہیں پھر ہم
کہ آخری فیصلہ وہ ہوگا جو دس کروڑ آدمی کریں گے
ستم گروں کے ستم کے آگے نہ سر جھکا ہے نہ جھک سکے گا
شعارِ صادق پہ ہم ہیں نازاں جو کہہ رہے ہیں وہی کریں گے
کیا آپ جانتے ہیں مشاہد اللہ خان کون ہے؟ نہیں آپ میں سے سب لوگ نہیں جانتے، زیادہ تر صرف یہی جانتے ہیں کہ وہ سینیٹر ہیں ، مسلم لیگ (ن) کا لیڈر ہے، سابق وزیر ہے، ٹی وی پر جو چند لوگ بہت خوبصورت گفتگو کرتے ہیں مشاہد اللہ ان میں سرفہرست ہے۔ سیاستدان ہونے کے باوجود اس کا شعری ذوق
بہت اعلیٰ ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ باتیں سب لوگ جانتے ہیں لیکن اس مشاہد اللہ کو صرف وہ لوگ جانتے ہیں جو جمہوریت کے ساتھ اس کے عشق اور اس عشق کے لئے دی گئی اس کی قربانیوں سے واقف ہیں، آئیں میں آج آپ کو اس ضدی شخص کے بارے میں کچھ باتیں بتاتا ہوں۔
بارہ اکتوبر1999ء پاکستان کی مارشل لائوں
کی تاریخ کا ایک اور سیاہ دن تھا، جب پرویز مشرف نے وزیر اعظم نواز شریف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹا اور خود حکمران بن بیٹھا۔ اس وقت پورا پاکستان ایک سکتے کے عالم میں تھا۔ ان بدقسمت سیاسی جماعتوں نے اپنے کارندوں کے ذریعے ایک جمہوری حکومت کے خاتمے کی خوشی میں مٹھائی بانٹی جنہیں
سکندرِاعظم دنیا فتح کرنے کے لیے جگہ جگہ پھر رہا تھا ۔ اس نے ایک بہت بڑے ملک پر چڑھائی کا ارادہ کیا۔ وہاں کا بادشاہ سکندر کی فوج سے بڑا لشکر رکھتا تھا۔ مگراس نے جنگ کے بجاے صلح کے لئے پیش قدمی کی۔ سکندر نے اس کا بھاری لشکر دیکھ کر کہا :”
اگر توصلح کے لیے آیا ہے تو اتنی بڑی فوج لانے کی کیا ضرورت تھی ۔ معلوم ہوتا یے، تیرے دل میں دغا یے”۔ بادشاہ ے کہا: “سکندر! دغا کم زورں کا شیوا یے ۔ مقدر والے کبھی دغا نہیں کرتے۔ اپنی فوج ساتھ لانے کا مقصد یہ جتانا یے کہ کسی خوف کی بنا پر اطاعت
نہیں کر ریے، بلکہ اس لیے کر رہے ہیں کہ فی زمانہ تیرا اقبال بلند ہے”۔ سکندر نے صلح کا ہاتھ بڑھا دیا۔ بادشاہ نے سکندر کے اعزاز میں ایک پر تکلف دعوت کا انتظام کیا، پھر اسے ایک وسیع و عریغ خیمے میں لایا گیا اور بیش بہا لعل و جواہر قیمتی برتن میں بھر کر اس
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہماری نئی نئی شادی ہوئی تھی۔
بیوی پہلی بار کھانا بنانے باورچی خانہ میں گئی ہوئی تھیں اور کھانا بنا رہی تھیں۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ روٹنی بیلنے والا چکلا بالکل بھی آواز نہیں کر رہا ہے۔ مگر یہ کیسے ممکن ہے؟ اس کی تینوں ٹانگیں سلیب پر ٹکتی ہی
نہیں تھیں۔ اس کی ایک ٹانگ چھوٹی ہونے کی وجہ سے کھٹ پٹ ہوتی رہتی تھی۔
صورتِ حال دیکھنے کے لیے جیسے ہی میں کچن میں پہنچا تو دیکھا کہ میری بیوی بڑے آرام سے روٹی بیل رہی تھی اور چکلے کی تینوں ٹانگیں الگ پڑی ہوئی تھیں۔
میں نے اس سے پوچھا، یہ تم نے کیا کیا؟
وہ بولی، کچھ نہیں۔ یہ کچھ زیادہ ہی کھٹ پٹ کر رہا تھا تو میں نے اس کی ساری ٹانگیں توڑ دیں۔ میرا یہی سٹائل ہے۔
بس اس روز اس کا وہ سٹائل دیکھ کر مجھے بھی کبھی کھٹ پٹ کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ جو تین توڑ سکتی ہے اس کے لیے دو توڑنا کیا مشکل ہے۔
اسکندر مرزا چوتھے گورنر جنرل پاکستان اور پہلے صدر پاکستان میر جعفر کے پڑپوتے تھے۔
ہمیشہ اقتدار کے خواب کی تعبیر کے لیے پہلے مارشل لاء کی راہ ہموار کی اور اپنی پارٹی کی مخالفت کر دی۔
27 اکتوبر 1958ء کو جنرل ایوب خان کا شکار ہوئے اور ملک میں پہلا مارشل لاء نافذ ہو گیا۔
👇
ان کے پردادا میر جعفر نے نواب سراج الدولہ سے غداری کر کے انگزیزوں کی جیت کا راستہ ہموار کیا تھا (اس لیے جب ایوب خان کے ہاتھوں اقتدار لٹا کر برطانیہ میں جلا وطن ہوئے تو برطانیہ میں جس ہوٹل میں قیام کیا اس ہوٹل کا کرایہ ملکہ برطانیہ نے ادا کیا)۔
👇
پاکستانی فوجی افسر اور سیاست دان تھے۔
کہتے ہیں کہ برطانیہ کی ایک بہت ہی برے ہوٹل میں اپنے زندگی کے آخری ایام ایسے گزارے کہ ان کو اپنے گزر بسر کے لیےاس ہوٹل میں ویٹر کی نوکری کرنا پڑی، اور اسی ہوٹل میں وفات ہوئی، کوئی ان کی لاش لینے نہ آیا، جب پاکستان سے رابطے کیے گئے تو جواب
👇
ملک معراج خالد مرحوم نگران وزیراعظم بنے تو انہوں نے قوم کو سادگی سکھانے کے لیے اپنے لیے ہر قسم کا سرکاری پروٹوکول منع کردیا ۔ ایک دن وہ مال روڈ سے گذر رہے تھے کہ دیکھا کہ پولیس نے ہرطرف ٹریفک جام کررکھی ہے۔ آدھا گھنٹہ انتظار کے بعد انہوں نے گاڑی کے قریب گذرتے ایک پولیس
کانسٹیبل سے پوچھا
" بھإئی ۔ پچھلے آدھے گھنٹے سے ٹریفک کیوں بند ہے ؟ ۔
کانسٹیبل نے انہیں پہچانے بغیر کہا " جناب گورنر پنجاب خواجہ رحیم گذر رہے ہیں"
ملک معراج خالد نے موبإئیل پر خواجہ رحیم سے رابطہ کیا اور کہا کہ " آپ کے پروٹوکول میں میں بھی پھنسا ہوا ہوں۔ "
خواجہ رحیم نے قہقہہ لگایا اور کہا " ملک صاحب ۔ معذرت۔ لیکن اب تو میرے گذرنے کے بعد ہی ٹریفک کھلے گی اور میرے گذرنے میں ابھی 1 گھنٹہ باقی ہے"
چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ خواجہ رحیم کا قافلہ