" علم برائے روزگار "
وسیم خان بی اے پاس تھا اور "آر بی آواری" کمپنی کا ڈسٹرکٹ سیلز مینیجر تھا
کمپنی زرعی ادویات کی فراہمی کے علاؤہ جدید زراعت پر کام بھی کرتی تھی
اچھی تنخواہ تھی
وہ اور اس کا خاندان مطمئن زندگی گزار رہے تھے
ان کی زندگی میں طوفان تب آیا جب کمپنی نے ساہیوال ریجن🔻
میں اچانک کام وائنڈ اپ کر دیا
وسیم کے ساتھ سینکڑوں لوگ بیٹھے بٹھائے بے روزگار ہو گئے
کمپنی نے خسارے کا بہانہ کر کے کسی بھی قسم کا مالی تعاون کرنے سے بھی انکار کر دیا
کچھ لوگ کمپنی کے خلاف عدالت چلے گئے
مگر سب بے سود رہا
وسیم کے پاس ایک رہائشی گھر کے علاؤہ دو مرلے کا ایک مکان 🔻
تھا۔ اس نے اس مکان میں سنوکر کلب کھول لیا۔ روزگار کا کچھ سلسلہ تو چل نکلا مگر آئے روز پولیس کے چھاپوں اور دھمکیوں سے تنگ آ کر اس نے وہ کاروبار بند کر دیا
حالانکہ اس نے کبھی جوا وغیر کھیلنے کی اجازت نہ دی تھی
پولیس مگر روز خرچہ مانگتی تھی
کچھ وقت ایسا گزرا کہ اسے دوستوں سے پیسے 🔻
مانگ کر گزارا کرنا پڑا
آخر تنگ آ کر اس نے کلب والا مکان بیچنے کا فیصلہ کیا
ساڑھے تین لاکھ کا مکان بکا
اس نے پچاس لاکھ سے قرضہ اتارا اور تین لاکھ سے بیوریجز کا کام شروع کر لیا
اس زمانے میں پیپسی سوا دو لیٹر پہلی بار متعارف ہوئی تھی
وسیم نے اسی سے بسم اللہ کی !
گدھا گاڑی پہ سامان🔻
رکھا خود سائیکل پہ بیٹھا اور بیچنا شروع کر دیا۔ ابتدا میں بہت دقت ہوئی
کچھ ماہ بعد ایک لوڈر گاڑی لے لی اور پھر آہستہ آہستہ محنت رنگ لانے لگی
اس وقت وسیم ایک رجسٹرڈ کمپنی کا مالک ہے۔ ریڈبل سے لے کر امپیریل لیدر تک کوئی پچاس بڑی کمپنیوں کا ڈسٹری بیوٹر ہے
قریبی پانچ چھ شہروں میں 🔻
بیوریجز کا وہی سب سے بڑا نام ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے نو حصے روزی تجارت میں رکھی ہے
دنیا کا ہر ملک کاروباری اور ماہر افراد کیلئے اپنے دروازے کھلے رکھتا ہے
انگریز نے جب برصغیر پہ قبضہ کیا تو اسے نوکروں کی فوج کی ضرورت تھی
اس کیلئے اس نے ایسا نصاب 🔻
ترتیب دیا کہ جس سے تعلیم کا مطلب ہی صرف نوکری کا حصول رہ گیا
لوگ پڑھتے ہی اس نیت سے تھے کہ کوئی نوکری مل جائے گی
آزادی کو بھی ستر سال گزر گئے
مگر ہمارا مزاج ویسے کا ویسے ہی ہے
اب بھی ہمیں تعلیم کے فوراً بعد نوکری چاہیے ہوتی ہے
کسی بھی شخص کیلئے دنیا اتنی ہی بڑی ہوتی ہے جتنی کہ🔻
اس کی سوچ۔ اور ہماری سوچ نوکری سے آگے جاتی ہی نہیں ؟
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نوکری بالکل نا کی جائے
اس سوچ کو مگر جان کا روگ نا بنایا جائے
اگر کوشش کے باوجود نوکری نہ ملے تو مایوس ہو جاؤ
خودکشی کر لو ؟
اور پھر سرکاری نوکری تو سب کا خواب ہے
کیونکہ سب کو پتا ہے سرکاری نوکری میں🔻
ٹکے کا کام نہیں کرنا پڑتا
پنشن اور دیگر سہولیات مفت میں مل جاتی ہیں
یہ قومی ہڈحرامی بھی ہمارا ایک بڑا مسلہ ہے
تعلیم کا اصل مقصد رضائے الٰہی کا حصول اور اپنی شناخت ہوتا ہے
علم برائے علم ہوتا ہے
علم برائے روزگار نہیں
پہلے اپنی سوچ بدلیں
حالات خود ہی بدل جائیں گے
ان شاءاللہ
#میرا

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with Roy Mukhtar Ahmad

Roy Mukhtar Ahmad Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @roymukhtar

8 Jan
2004 میں سوات میں طالبان داخل ہوئے اور 2007 تک پورے سوات پر قبضہ کر لیا
اپنی خود ساختہ شریعت نافذ کرنے کے بعد قتل و غارتگری کا وہ بازار گرم کیا الامان الحفیظ !
وحشی درندوں کے مسلح جتھے گلیوں میں گشت کرتے اور معمولی مزاحمت پر ذبح کر ڈالتے
خوف و ہراس پھیلانے کیلئے لاشیں ایک چوک ⬇️
میں لا کر ڈال دیتے اور اوپر پرچی لکھ کر رکھ دیتے کہ کوئی اسے دفنائے گا نہیں !
ان "اسلامی مجاہدین" کو جس گھر کی جو لڑکی پسند آ جاتی اسے نکاح کی دعوت دیتے
اور انکار پہ اجتماعی آبرو ریزی کر ڈالتے
2004 سے 2009 تک دس ہزار سے زیادہ لوگ بیہمانہ طریقے سے قتل کر دئیے گئے
اور ایک ہزار⬇️
سے زیادہ لڑکیوں کو جبری طور پر بیویاں بنا لیا گیا
2009 میں آپریشن راہ نجات شروع ہونے تک سوات کے لوگ نا جانے کتنی ہی کربلاؤں سے گزر چکے تھے
کوئی گھر ایسا نہ تھا جس میں لاش نہ آئی ہو
ہزاروں لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر ہجرت کر گئے
لگتا یوں تھا کہ کچھ دنوں تک طالبان اسلام آباد پہ قبضہ⬇️
Read 11 tweets
30 Dec 20
"ایہہ پُتر ہٹاں تے نہیں وکدے"
جغرافیائی اعتبار سے پاکستان ایک منفرد اور عجیب و غریب ملک ہے
اس کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں چاروں موسم ،صحرا،پہاڑ،جنگل ،دریا،میدان،سمندر اور سطع مرتفع سب موجود ہے
پاکستان کے زمینی بارڈرز کی کل لمبائی 7307 کلومیٹرز ہے
جبکہ 1000⬇️
کلومیٹر سمندری ساحل الگ ہے
ہمارا سب سے لمبا بارڈر انڈیا کے ساتھ جو کہ 3320 کلومیٹرز ہے
افغانستان کے ساتھ2670 ،چائنہ کے ساتھ 559 جبکہ ایران کے ساتھ 958 کلومیٹرز ہے
ان میں سے سوائے چائنہ بارڈر کے باقی تمام بارڈرز غیر محفوظ ہیں
سب سے خطرناک افغان بارڈر
دوسرے نمبر پہ انڈیا اور ⬇️
تیسرے نمبر پہ ایران ہے
پاکستانی فورسز کی کل تعداد کچھ یوں ہے
آرمی : 11 لاکھ
بحریہ : 40000
آئر فورس: 78000
پیرا ملٹری فورس: 4,82000
11 لاکھ آرمی میں سے آدھی یعنی ساڑھے پانچ لاکھ مکمل فعال ہے
جبکہ باقی آدھی چھاؤنیوں میں موجود ریزور فورس ہے
یاد رہے اس ساڑھے پانچ لاکھ میں سے تین ⬇️
Read 12 tweets
28 Dec 20
وہ پہلی گاہک تھی
سیاہ برقعے میں ملبوس وہ اکیلی ہی دکان میں داخل ہوئی
سیلز مین سے کچھ سوٹ دکھانے کو کہا
دو سوٹ منتخب کئے
اور ٹرائی روم میں چلی گئی
باہر آئی تو ایک سوٹ واپس کر دیا
سیلز مین نے کہا باجی آپ دو سوٹ لے کر گئی تھیں
اس نے کہا نہیں میں تو ایک ہی لے گئی ہوں
جھگڑا ہو گیا ⬇️
دائیں بائیں کے دکان دار اکٹھے ہو گئے
سیلز مین اپنی بات پہ قائم تھا
اور لڑکی اپنی بات پہ اڑی تھی
آخر ایک سینئر دکاندار نے ایک عورت کو بلا کر خاتون کی تلاشی لینے کو کہا
تلاشی میں بھی کچھ برآمد نہیں ہوا
سیلز مین بیچارا پریشان تھا
گیارہ ہزار کا سوٹ تھا
جو اس نے اپنے ہاتھوں سے دیا ⬇️
تھا۔ اب سوٹ بھی غائب تھا
اور سب اس کی بے عزتی بھی کر رہے تھے کہ اس نے ایک شریف لڑکی پر جھوٹا الزام لگایا
سب اسے سنا کر چلے گئے
لڑکی کو بھی روانہ کر دیا گیا
سیلز مین کو مگر کوئی بات کھٹک رہی تھی
اس کی نوکری جا سکتی تھی
مزید بے عزتی الگ سے ہوتی
اور وہی ہوا
دکان کے مالک نے شدید ⬇️
Read 6 tweets
27 Dec 20
ہمت مرداں مدد خدا :
یہ دو الگ الگ کہانیاں ہیں
ایک کہانی سعد کی ہے، دوسری سعید کی
یہ دونوں سگے بھائی ہیں
سعد بڑا ہے
یہ پڑھنے میں بہت تیز تھا
پہلی جماعت سے ماسٹرز تک امتیازی نمبروں سے پاس ہوتا رہا
یہ والدین اور اساتذہ دونوں کی آنکھوں کا تارا تھا
خاندان بھر میں اس کی قابلیت کی ⬇️
مثالیں دی جاتیں اور فخر کیا جاتا
سعد اپنے خاندان میں یو ای ٹی میں اسکالر شپ پہ داخلہ لینے والا پہلا لڑکا تھا
اس نے ٹیکسلا سے الیکٹریکل انجینیرنگ مکمل کی
یہاں بھی اس نے اپنا امتیاز برقرار رکھا
اس کے انجنئیر بننے پر بہت خوشیاں منائی گئیں
والدین خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے ⬇️
سعد نے گھر واپس آتے ہی نوکری کی تلاش شروع کر دی
مختلف کمپنیوں میں اپنی سی وی ڈراپ کی
کئی جگہ انٹرویوز دئیے
مگر قسمت کا کوئی عجیب سا چکر تھا
کہ اسے کہیں نوکری نہیں ملی
پانچ سال ہو گئے تھے
سعد گھر بیٹھا تھا
سینکڑوں درخواستیں پوسٹ کر چکا ہے
اب ڈپریشن کا مریض بنتا جا رہا ہے
صحت بھی⬇️
Read 12 tweets
25 Dec 20
بھٹو نے زرعی اصلاحات کے تحت انہیں بارہ ایکڑ زمین دی
وہ شہر چھوڑ کر زمینوں میں آباد ہو گئے
محنت کی،خوشحال ہو گئے
جس زمیندار کی زمین توڑی گئی تھی
اس نے نواز شریف دور میں بزور بازو زمین واپس مانگی
قبضہ چھڑانے کیلئے چوری کا جھوٹا پرچہ کروایا
چاروں باپ بیٹے ساہیوال جیل بھیج دئیے گئے⬇️
زمیندار کا نام شاہد نواز تھا
بے نظیر بھٹو کا کلاس فیلو رہا تھا اور اس سے شادی کا امیدوار بھی
بے نظیر اسے پسند کرتی تھی مگر پھر زرداری نے بازی جیت لی !
یہی ظالم زمین دار فرعون بنا ہوا تھا
قانونی طور پر زمین کی واپسی ناممکن تھی
اسی لئے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آیا
کچھ لوگ بیچ میں ⬇️
پڑے۔ بیٹوں کو ضمانت مل گئی
جج کو مگر ہدایت تھی کہ باپ کو ضمانت نہیں دینی
یہ محمد صادق تھا
اوکاڑہ کی تحصیل دیپالپور کا رہائشی
انہیں سکھ پور کے قریب زمین الاٹ ہوئی تھی جو تقریباً پچیس سال ان کے قبضے میں رہی
پھر شاہد نواز کی نیت خراب ہوئی
صادق بوڑھا آدمی تھا اور بیمار تھا
باپ کی ⬇️
Read 10 tweets
15 Dec 20
"یہ تیرے پراسرار بندے"

حکم عجیب تھا
مریدین حیرت میں مبتلا تھے مگر عمل کیے بغیر کوئی چارہ نہ تھا
پیر و مرشد کی تدفین کیلئے اخروٹ کی لکڑی کا تابوت بنوانا تھا
پیر صاحب ابھی حیات تھے اور
خود ہی حکم جاری فرما رہے تھے
مرشد کی محبت سے سرشار مریدین مرشد کی جدائی کے خیال سے ہی ⬇️
افسردہ کھڑے تھے
مرشد نے مریدین کو تذبذب کا شکار دیکھا تو ان کے پاس تشریف لائے
شفقت سے ان سے مخاطب ہوئے
اور فرمایا:
"اللہ کے پاس سے بلاوا آنے والا ہے
جانے کا وقت قریب ہے ۔میری تدفین دو بار ہو گی، ایک بار یہاں پیر سبز کے احاطے میں تو دوسری بار شہر سے باہر منتقل کیا جائے گا ⬇️
اسی لئے میں چاہتا ہوں کہ تم لوگ مجھے اخروٹ کے تابوت میں دفناؤ
اخروٹ کی لکڑی کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ جلدی خراب نہیں ہوتی نہ ہی اسے گھن لگتا ہے"
مریدین کا تجسس اگرچہ ختم ہو چکا تھا
مگر مرشد کی جدائی کے خیال نے آنکھیں اشکوں سے بھر دی تھیں
مرشد کے حکم کی تعمیل لازم تھی سو کر دی ⬇️
Read 8 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!