بھیڑیا کی چند ایسی صفات جو یقینا آپ کے
لیے حیران کن ہوں گی اور ایسی صفات جو جانوروں میں تو کیا انسانوں میں بھی نایاب ہوتی جارہی ہیں
بھیڑیا ترکی کا قومی جانور ہے
اور ترک لوگ بھیڑئیے سے بہت پیار کرتے ہیں اور اپنے بچوں کوبھیڑیا سے تشبیہ دے کر باہمت بناتے ہیں
ترکی میں بھیڑئیے کو ابن البار کہا جاتا ہے یعنی نیک بیٹا کیونکہ بھیڑئے کے والدین جب بوڑھے ہو جاتے ہیں تو بچہ ان کے لیے شکار کرتا ہے اور ان کا پورا خیال رکھتا ہے بھیڑیا اپنی آزادی پر کبھی بھی سمجھوتا نہیں کرتا
بھیڑیا واحد جانور جو کسی کا غلام نہیں بنتا
جب کہ شیر سمیت ہر جانور کو غلام بنایا جا سکتا ہے اور اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے کہ بھیڑیا واحد جانور ہے جو جنات کو بھی قتل کر سکتا ہے بھیڑیاکی تیز آنکھوں میں جنات کو دیکھنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے اور اگر اسے کوئی جن نظر آ جائے تو
وہ فورا اس پر حملہ کر کے اسے موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے-
بھیڑیا کبھی مردار نہیں کھاتا
اور یہی جنگل کے بادشاہ کا طریقہ ہے اور نہیں بھیڑیا مہرم موئنث پر جھاکنتا ہے یعنی باقی جانوروں سے بالکل مختلف آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ اگرچہ جانور ہے اس کے باوجود
بھیڑیا اپنی ماں اور بہن کو شہوت کی نگاہ سے دیکھتا تک نہیں بھیڑیا اپنی شریک حیات کا اتنا وفادار ہوتا ہے کہ اس کے علاوہ کسی اور موئنث سے تعلق قائم نہیں کرتا اسی طرح موئنث بھی بھیڑیا کے ساتھ وفاداری کرتی ہےبھیڑیا اپنی اولاد کو پہچانتا ہے کیونکہ ان کی ماں اور باپ ایک ہی ہوتے ہیں
جوڑے میں سے اگر کوئی مر جائے تو دوسرا مرنے والی جگہ پر کم از کم تین ماہ افسوس کرتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھیڑیا ایک آنکھ سے سوتا ہے اور جب بھیڑیا ایک آنکھ کی نیند پوری کر لیتا ہے تو پھر دوسری آنکھ کی نیند پوری کرتا ہے زخمی بھیڑیا اپنے ریوڑ سے چھپ کر رہتا ہے ورنہ
دوسرے بھیڑیئے اسے مار کر کھا جاتے ہیں اگر بھیڑئے ریوڑ کسی انسان پر حملہ آور ہو جائے اور انسان ان میں سے کسی بھیڑیا کو ایسا زخمی کر دے کہ اس کا خون نکال دے تو باقی بھیڑئے انسان کو چھوڑ کر اسے کھا جاتے ہیں۔
بھیڑئےکی بہترین صفات میں بہادری وفاداری خودداری اور والدین سے حسن سلوک مشہور ہیں۔
بھیڑئیے جب ایک جگہ سے دوسری جگہ جا رہے ہوتے ہیں تو وہ یوں گروپ میں چلتے ہیں کہ سب سے آگے چلنے والے بوڑھے اور بیمار بھیڑئے ہوتے دوسرے نمبر پر پانچ منتخب طاقتورجو بوڑھے
بیماربھیڑیوں کے ساتھ سب سے پہلے تعاون کرنے والے ہوتے ہیں ان کے پیچھے طاقتور دشمن کے حملے کا دفاع کرنے والے چاک و چوبندبھیڑئے ہوتے ہیں درمیان میں باقی عام بھیڑئیے ہوتے ہیں سب کے آخر میں بھیڑیوں کا قائد ہوتا ہے۔ جوسب کی نگرانی کر رہا ہوتا ہے کہ کواپنی ڈیوٹی سے غافل تو نہیں۔
اور ہر طرف سے دشمن کا خیال رکھتا ہے اس کو عربی میں الف کہتے ہیں۔ کہ اکیلا ہزار کے برابر ہے۔
ایک سبق جو ہمارے لئے باعث عبرت ہے
بھیڑئیے بھی اپنا بہترین خیر خاہ قائد منتخب کرتے ہیں ترک اور منگول زمانہ قدیم سے ہی بھیڑئیے کی اوصاف کے قائل رہے ہیں
اور جنگل کا بادشاہ شیر کے بجائے بھیڑئے ہی کو مانتے ہے یہ ترک و منگول کا قومی جانور بھی ہے رتک قبائل کے جنگجوؤں کی بہادری اور جانبازی کو بھی بھیڑئے سے تشبیہ دی جاتی تھی ارتغرل الغازی سے منسوب ایک انگوٹھی جو آج بھی ترکی کے عجائب گھر میں محفوظ ہے اس پربھیڑئے کا تصویر اس کا ثبوت ھے
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
خسارہ یا فایدہ
انسان کے ہونے اور نہ ہونے کے درمیان فقط ایک موھوم ساعت ھے اور اس ساعت کا شمار کایناتی وقت کی ادنی اکای سے بھی نھیں کیا جاسکتا۔ جب حیات و ممات کا مامعلہ ھو تو عجز کے سواہ انسان کے پاس کوی چارہ نھیں رہ جاتا۔لیکن بدنصیب ھیں وہ لوگ جو عجز کی لطافت سے اشنا نھیں ھوسکتے
۔ نادان ھیں وہ جو اپنے قدموں سے زمین کا سینہ کوٹتے ھیں اور اپنی زبان سے کوڑے کا کام لیتے ھیں، صرف ایک بار وہ سر اٹھاکر اسمان کو دیکھ لیں تو شاید انھیں اپنی بے وقعتی کا اندازہ ھوسکے گا۔ زرا دیکھیے تو،
بیکراں کاینات میں لاکھوں، کروڑوں اوارہ کھکشاییں اور ان میں موجود ایک درمیانے درجے کی کھکشاں میں موجود ایک معمولی ستارے کے گرد چکراتی ھماری زمین۔ جس کی حقیقت بقول ایاین اسٹایین کے ساحل کی ریت پر موجود ذروں میں سے ایک ذرے سے زیادہ نھیں۔
انسان اس سیارہ پر پائے جانے والے دوسرے جانداروں سے بہت مختلف ہے۔ اس کا ڈی این اے (DNA)اور جینس (Genes)کی تعداد اس سیّارۂ زمین پر پائے جانے والے دوسرے تمام جانداروں سے بہت مختلف ہے۔
انسان کو زمین پر رہنے کے لیے بہت ہی نرم و گداز بستر کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ زمین کے اصل باشندے یعنی جانوروں کو اس طرح کے نرم بستروں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ اس چیز کی علامت ہے کہ انسان کے اصل سیّارہ پر سونے اور آرام کرنے کی جگہ انتہائی نرم و نازک تھی جو اس کے جسم کی نازکی کے مطابق
تھی ۔انسان زمین کے سارے دوسرے رہنے والوں سے بالکل الگ ہے لہذا یہ یہاں پر کسی بھی جانور بندر یا چمپینزی وغیرہ کی ارتقائی شکل نہیں ہے بلکہ کسی اور سیّارہ سے اسے زمین پر کسی نے پھینک دیا ہے ۔انسان کو جس اصل سیّارہ پر خلق کیا گیا تھا وہاں زمین جیسا ماحول نہیں تھا ۔
یہ سائنسدان، محقق، مصنف ، امریکہ کے نامور ماہرِ ماحولیات Environmentalist اور ایکولوجسٹ Ecologistڈاکٹر ایلیس سِلور Ellis Silverہیں ۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ کرۂ ارض یعنی زمین انسان کا آبائی سیارہ نہیں ہے، انسان اس سیارے یعنی زمین کا اصل رہائشی نہیں ہے
بلکہ انسان اس زمین کے لیے ایلین یا مسافر ہے ۔ انسان زمین پر ارتقاء پذیر نہیں ہوا بلکہ اسے کہیں اور تخلیق کیا گیا اور کسی وجہ سے انسان اپنے اصل مسکن سے اس زمین پر آگیا ہے۔
واضح رہے کہ یہ الفاظ کسی مذہبی عالم کے نہیں بلکہ ایک سائنس دان کے ہیں ۔
ڈاکٹر ایلس سلور پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حامل ماحولیات کے ماہر ہیں۔
اپنی کتاب Humans are not from earth میں ڈاکٹر ایلس سلور نے لکھا ہے کہ انسان نشوونما کے اعتبار سے زمین کی اعلٰی ترین مخلوق ہے لیکن یہ مکمل طور پر زمین کے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتا۔ جیسا کہ دوسرے جانور ہیں۔