پاکستانی سیاست کی بھول بھلیوں کو نہ سمجھنے والے پڑھیں جن کو سمجھ آتی ہے وہ اگر نہ پڑھیں تو بھی خیر ہے زرا آذہان کو بیدار کریں ایک مجرم کو ملک سے فرار کرایا جاتا ہے اور وہ لندن میں چوری کے پیسوں پر عیش کیا ممکن ہے عام حالات میں ؟ پھر اسکی بیٹی کی ضمانت ہوتی ہے جو آج تک برقرار ہے۔
ضمانت پر رہائی اور پرزور طریقے سے سب کو چیلنج کیا یہ عام حالات ہیں اور ممکن ہے رشتہ دار عزیز اور بیوروکریسی کے بادشاہ بے نقاب ہوتے ہیں جرم پکڑے جاتے ہیں لیکن پھر رہائی حمزہ شہباز رہا پھر پی ڈی ایم وجود میں آتی ہے اور نئے ڈرامے کی ابتدا ہوتی ہے۔دوسری طرف FATF اور آئی ایم ایف کے۔
خوفناک تیر معاشی بد حالی کو صرف عمران خان کے سر تھوپا جانا کیا ہے عام حالات ہیں ؟ نہیں تیسرے ماڈل ٹاون کے مجرم آزاد عزیر بلوچ آہستہ آہستہ آزاد ہو رہا ہے ڈاکٹر عاصم شرجیل میمن کے کیس غائب کیا عام حالات ہیں ؟ نہیں پھر چینی والے ڈرامے میں سبسیڈی کا دیا جانا پیٹرول کا اچانک ۲۵ روپے
مہنگا کرنا اور ایک طوفان کا بپا ہونا عام حالات ہیں ؟ نہیں کیا کسی ملک کا وزیر اعظم اتنا کمزور ہوتا ہے کہ دو تین روز مرہ کی اشیاء کی قیمتیں کنٹرول نہ کرسکے کیاعام حالات ہیں ؟ نہیں پھر بائی الیکشنز اور کے پی کے میں ہارنا ڈسکہ کا ڈرامہ سینٹ کا ڈرامہ عام حالات ہیں ؟ نہیں سب سکرپٹڈ ہے
یہاں سچ بولنے پر پابندی ہے سچ گناہ کبیرہ ہے کہ سچ اگر بولا گیا تو طوفان آنے کا خوف طوفان جو بہت کچھ بہا لے جائیگا ( لیکن یہ لفاظی ہے ) طوفان یہیں چپکے سے آتے ہیں کسی کو کان وکان خبر نہیں ہوتی گزر جاتے ہیں لیکن عنان اقتدار والے بھی بحالت مجبوری چپ اور باقی بھی سمجھ لیں توٹھیک ورنہ
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
وزیر اعظم عمران خان کواب کوئی بات کرتے ہوئے احتیاط کی ضرورت اللہ کرے کوئی عقل والا مشیر ہی دستیاب ہو کہ خدارا نہ جنات کی نہ فرشتوں کی باتیں کریں انسانوں کی دنیا میں رہتے ہوئے انسانوں کی باتیں اور جو حقیقت کے قریب تر ہوں وہی اچھا اگر تلخ بھی ہو۔سوال پیدا ہوتا ہے جب اپ انتہای اونچے
اور ہائی مورال ٹارگٹس بنا لیتے ہیں پھر جب جب وہاں پہنچنا تو درکنار وہ راستہ تک بھول جاتے ہیں تو لوگ باتیں کریں گے اور شخصیت داغ دار ہوتی جاتی ہے کیا عمران خان نے یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دینے والوں کو پارٹی سے نکالا ؟ کیا ان سے کہا مجھے اپ اعتماد کا ووٹ نہ دیں کہ اپ گند ہیں؟ نہیں
یہ ممکن نہ تھا کہ پھر وہ آج وزیر اعظم ہی نہ رہتے اس لیے کہا جاتا ہے کہ لیڈر وہی کامیاب جن کے اعصاب مظبوط ہوتے ہیں جھوٹ بولنا مجبوری بعض اوقات سیاست میں لیکن عوامی جھوٹ سے پرہیز ضروری کہ اپ نے دیکھ لیا اپ کتنے مجبور ہیں جنہوں نے دھوکہ دیا وہ کچھ دن پہلے اپ کےساتھ نہیں آج اپکے ساتھ
عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما: من قرأ القرآن لم یُرَدّ إلی أرذل العمر( صحیح الترغیب للألبانی، رقم الحدیث: 1435 )یعنی جس نے قرآن کو پڑھا، وہ کبھی ناکارہ عمر تک نہیں پہنچے گا۔ جاری۔
*مطالعہ قرآن کی اہمیت
اِس حدیث میں قرآن پڑھنے سےمراد قرآن کا مطالعہ ہےجو آدمی قرآن کا گہرا مطالعہ کرے گااس کو قرآن سے مسلسل فکری غذا (intellectual food) ملتی رہے یہ فکری غذا آدمی کو مسلسل توانائی دیتی رہے گی اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ناکارہ عمر abject old age) تک نہیں پہنچے گا۔
اس کا ذہن مسلسل طورپر بیدار اور متحرک (active) رہے گاایسے آدمی کا جسم بوڑھا ہوگا، لیکن اس کا دماغ کبھی بوڑھا نہیں ہوسکے گاریسرچ کے ذریعے یہ معلوم ہوا ہےکہ انسان کےجسم اوردماغ میں ایک فرق ہے۔ خالص حیاتیاتی اعتبار سے جسم پر بڑھاپا آتا ہے، لیکن دماغ یا برین (brain)پر بڑھاپا نہیں آتا
ڈاکٹر کرسٹینا نورتھروپ نے انگلینڈ سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی نیویارک ٹائمز کے مطابق تین بیسٹ سیلرز کتابوں کی مصنفہ ہیں اُٹھ مختلف ٹی وی چینلز پر پروگرامز کرتی ہیں کرونا ویکسین کے بارے میں تفصیل سے بتاتی ہیں کہ کرونا ویکسین کسی طرح سے بھی ویکسین نہیں لگتی یہ ایک RAN ویکسین ہے۔جاری
اور ٹرانس انفیکشز جیسی چیز ہے یہ بنیادی طور پر ہمارا DNA تبدیل کردے گا اور سب سے سے بڑی برائی اسکی یہ ہے کہ اس میں زہریلی دھاتیں موجود ہیں جو ہمارے جسم کو ایک Antenna بنا دے گا جسمیں بندر اور سور کے DNA کا بھی استعمال ہوا ہے اسکی وجہ سے جسم میں CHIMER بن جائیگا جس میں۔ جاری
غیر انسانی DNA استعمال کیا گیا ہے مزید اس میں ایک ( ڈائی )جسکا نام لوئیس فرائس جوکہ MT ادارے نے خاص طور پر تیار کی ہے اور اسی کے زریعے ایک خاص قسم کی روشنی میں پتہ چل جائیگا کہ کون (Vaccinated) اور کون نہیں خطرناک بات یہ ہے کہ اس ویکسین میں (Nano Particles) استعمال ہوئے ہیں۔ جاری
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے جرمنی کے فلسفی نطشے فرانس کے برگساں کے فلسفے کا گہرا مطالعہ کیا۔اس کے علاوہ انہوں نے غزالی ابن سینا ابن عربی اور رومی کے حالات کا بھی مطالعہ کیا۔جب وہ یورپ سے واپس آئے تو انہوں نے ملت اسلامیہ کو خواب غفلت سے جگانے کا ذمہ لیا. #فلفسہ_خودی_اوراقبال
علامہ اقبال کہتے ہیں کہ عشق تمنا یا آرزو کے آخری درجے کا نام ہے۔یہ زندگی کا سرچشمہ ہے اور ایک تعمیر ی قوت ہے۔یہ مجاز کے راستوں کو عبور کرکے حقیقی شاہد سے جا ملتا ہے تو انسانی روح کو ہدایت اور دوامیت حاصل ہوجاتی ہے۔قرآن کا تصور عشق انسانی خودی سے عبارت ہے۔ #فلفسہ_خودی_اوراقبال
اقبال نے دنیابھر کےانسانوں کو مخاطب کیاہے لیکن انکی امیدیں مسلمان نوجوانوں سےوابستہ ہیں انہوں نےنوجوانوں میں احساسِ خودی کو بیدار کرنے کاذمہ اٹھایاہےاوراُنکوکو اپنے ماضی میں جھانکنے کی دعوت دی ہےاقبال دلوں کو ولولہ بخشتے روح کو اسلام کی محبت سےتڑپا دیتے ہیں۔ #فلفسہ_خودی_اوراقبال
احمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے دنیاوی اور روحانی پہلو کے ساتھ ساتھ بہت سے پہلو ہیں یہ بات ذہن میں رہے کہ اُن صلی اللہ وسلم کی کسی پہلو کے عظمت کا بیان تو درکنار اسکا ادراک شعور اور فہم بھی ہمارے لیے ناممکنات میں سے ہے #OurLivesForMuhammad جاری ہے۔
حضور پاک صلی اللہ وسلم کے مختلف پہلووں کے مقام کا پتہ کسی نبی کو ہی ہوسکتا ہے کہ ایک عام انسان بے بس ہے کہ کسی غیر نبی کیلیے یہ محال عقل ہے مثال کے طور پر کسی بھی انسان کا کسی فن میں کیا مقام ہے یہ تعین وہی شخص کرسکتا ہے جو اس فن میں اس سے بالاتر ہو آسان بات ہے۔ جاری
اپنے سے بلند تر مقام و رتبے والےشخص کے مقام کا تعین کرسکے تویہ بات ظاہر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بالاتر کوئی بنی بھی نہیں لہذا کسی نبی کیلیے بھی محال عقلی ہے کہ وہ محمد صلی اللہ وسلم کے اصل مقام کو سمجھ سکے کُجا عام انسان۔روحانی اعتبار سے حضور صلی اللہ وسلم کی ذات کا۔جاری
وہ اپنے ٹارگٹ تک بڑے لطیف اور غیر محسوس طریقے سے پہنچتا ھے۔ یوسف کو بادشاھی کا خواب دکھایا باپ کو بھی پتہ چل گیا ایک موجودہ نبی ھے تو دوسرا مستقبل کا نبی ھے مگر دونوں کو ھوا نہیں لگنے دی کہ یہ کیسے ھو گا۔ جاری۔
خواب خوشی کا تھا مگر باب غم کا چلا دیا
یوسف دو کلومیٹر دور کنوئیں میں پڑا ھے خوشبو نہیں آنے دیاگر خوشبو آ گئ تو باپ ھے رہ نہیں سکے گا جا کر نکلوا لے گا جبکہ بادشاھی کے لئے سفر اسی کنوئیں سے لکھا گیا تھا(سمجھا دونگا)بھی اخلاقی طور پہ بہت برا لگتا ھے کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو۔ جاری
*سمجھا دونگا* تو بھی اخلاقی طور پہ بہت برا لگتا ھے کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو بادشاہ بنانے کے لئے اسے کنوئیں میں ڈال کر درخت کے پیچھے سے جھانک جھانک کے دیکھ رھا ھے کہ قافلے والوں نے اٹھایا ھے یا نہیں لہذا سارا انتظام اپنے ھاتھ میں رکھا ھے۔ جاری