انگریزوں کے وفادار توخیر برصغیرکی اکثر بڑی مسلمان شخصیات تھیں۔قومی شاعر علامہ اقبال توسرِ فہرست تھے۔جب 22جنوری1901کو ملکہ وکٹوریہ کاانتقال ہوا۔اتفاق سے اس دن عیدالفطرتھی۔ملکہ
وکٹوریہ کی وفات پر سرمحمداقبال نےایک سودس اشعارپرمشتمعل ایک پرسوز مرثیہ لکھا۔اوراسکاانگریزی میں۔۔+1/5
کےلئیےمسلمانوں نےبادشاہی مسجد کو موزوں و مناسب جگہ سمجھا۔تاج پوشی کےحوالے سےاقبال نے جونظم کہی اس کےدو اشعار دیکھیے۔۔
ہمائے اوجِ سعادت ہے اشکار اپناکہ۔تاج پوش ہوا آج تاجدار اپنا
اسی سے عہد وفا ہندیوں نے باندھا ہے
اسی کی خاک قدم پہ ہے دل نثار اپنا
اسی طرح برطانوی راج کی
+4/5
مدح سرائی کرتےہوئےاقبال اپنےایک مکتوب میں لکھتےہیں۔
"ہندوستان کےمسلمان شاید اسلامی ممالک کی حالت کا صحیح طور پراندازہ نہیں لگا سکتےکیونکہ حکومت برطانیہ کے سبب جوامن اورآزادی اس ملک کےلوگوں کوحاصل ہے وہ اور ممالک کو ابھی حاصل نہیں۔
(کلیات مکاتب اقبال جلد ا صفحہ 168)
5/5
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
معروف ادیب و محقق پروفیسر شمس الاسلام اپنی کتاب" Muslims Against Partition"
میں لکھتےہیں کہ علماء کی ایک بڑی تعداد نے قیام پاکستان کی مخالفت کی لیکن جناح اور شاعر محمداقبال انہیں مجنون ملا قسم کےلقب دینے میں کامیاب رہے۔ مولانا حسین احمد مدنی جیسے جیدعلماء نےاسلامی تعلیمات+1/5
کی بنیادپرجمہوریت اور سیکولرزم کاذکر کرتےہوئےمتحدہ قومیت اور“ایک قوم کا نظریہ”پیش کیا،لیکن انہیں اقبال، جناح اورلیگ کے دیگر ارکان تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔
مولانامدنی کی جمیعتِ العلماء تقسیم ہندکی سختی سےمخالفت کرتی رہی۔آل انڈیا مومن کانفرنس شمال مشرقی ہندکی ایک زبردست.. +2/5
تنظیم تھی۔یہ پسماندہ مسلمانوں کی نمائندگی کر تی تھی اور اس کےممبران کی تعدادتقریباًساڑھے 4 کروڑ تھی۔ان میں زیادہ ترکاریگر، مستری جیسےمحنت کش طبقےکے لوگ تھے۔1943میں اس نےایک قراردادمنظور کی جس کےمطابق، “ہندوستانی مسلمانوں کی حب الوطنی اورقومی حمیت کبھی گوارا نہیں کرےگی کہ+3/5
یہاں احمدیوں کا دفاع نہیں کر رہی اورمجھےویسےبھی میری فیملی کی طرف سےاس موضوع پر بات کرنےسے منع کیا گیاہے۔مگر اتنا ضرور کہوں گی کہ یک طرفہ موقف سن کر آپ کسی درست نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے تصویر کے دونوں رُخ دیکھنے چاہئیں۔۔قومی اسمبلی میں بھی مرزا صاحب کے اسی بیان پر بحث ہوئی+1/7
اس پر مرزا ناصر احمد صاحب نے جو جوابی موقف دیا وہ بھی آپ کو دیکھنا چاہئے۔(آپ یہ اس لنک پر دیکھ سکتے ہیں۔
(۷) اٹارنی جنرل کی مشکل ’’ کفر کم تر از کفر‘‘۔ احمدیہ مسئلہ قومی اسمبلی میں (مجیب الرحمن، ایڈوکیٹ)+2/7 alisl.am/u5400)
باقی رہی مرزا صاحب کی گالیوں کی بات تو اس وقت کے تاریخی حالات دیکھیں تو انھیں مسلمانوں کی تمام جماعتوں بلخصوص جماعت احرار کی طرف سے شدید تنقید کے ساتھ بدزبانی۔اور گالم گلوچ کاسامناتھاجس کاردعمل انھوں نے بھی دیا۔ساتھ ہی اگر ھم آج تک کےحالات کاجائزہ لیں تو جس قدرگالم گلوچ۔۔+3/7
برٹرینڈ رسل نے کہا۔۔۔۔
"رائے کو طاقت سے نہ دبائیے ورنہ آپ کی رائے اور اظہار کو دبا دیا جائے گا۔اگر آپ اپنے اظہار کی عزت چاہتے ہیں تو دوسروں کی آرا کو عزت و احترام دیں، تبھی آپ کی بات سنی جائے گی۔"
"کسی بھی چیز کے بارے میں مکمل طور پر یقینی رویہ مت اپنائیے۔"+1/5
"کسی سے بھی اختلاف ہو تو اسےزور زبردستی کرنے کے بجائےدلیل سے ختم کیجیے، کیونکہ زور زبردستی سے حاصل کی گئی فتح غیر حقیقی اورفریبی ہوتی ہے۔"
"دوسروں کی بالادستی قبول نہ کیجیے کیونکہ اس دنیا میں ان سے مساوی اور لوگ بھی بالادست ہوتے ہیں۔+2/5
"لطف کو حاصل کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ اچھی کتابیں پڑھیں، فلسفہ پڑھیں، شاعری پڑھیں اور موسیقی سنیں."
"اگر تعلیم ہمیں سیکھنے کی آزادی مہیا نہیں کرتی کہ کیا سیکھنا ہے اور کیا نہیں، ساتھ ہی ہمارے اظہار رائے پر قدغن لگاتی ہے تو ایسی تعلیم ہمارے کسی کام کی نہیں۔ "+3/5
قرب قیامت کہ خانصاب کےچاہنےوالےعاصمہ جہانگیرکی انسانی حقوق کےلئیےجدوجہد
پرسوالات اٹھارہےہیں۔ میری تو
خیراتنی حثیت اورقابلیت نہیں کہ عاصمہ جہانگیرکی عمر بھرکی جدوجہدپرکچھ بات کرسکوں۔البتہ استادِمحترم وجاہت مسعود صاحب کےایک کالم سے کچھ اقتباسات شئیرکرنےکی جسارت کرناچاہوں گی۔+1/12
"عمران خان کی جوالامکھی جوانی اس ملک میں نہیں گزری۔ انہیں کیامعلوم کہ عاصمہ جہانگیر کون ہیں؟عاصمہ جہانگیر 1952ءمیں پیداہوئیں۔اسی برس عمران خان پیداہوئےتھے۔او بصحرا رفت و ما در کوچہ ہا رسوا شدیم۔ جون 1971ءمیں عمران خان نے پہلاٹیسٹ کھیلا۔اسی برس اٹھارہ برس کی عاصمہ جہانگیر۔+2/12
سپریم کورٹ جاپہنچی تھیں۔ ’عاصمہ جیلانی بنام وفاق پاکستان‘کےفیصلےمیں عدالت عظمیٰ نےیحییٰ خان کوغاصب قراردیاتھااوربھٹوحکومت کو مارشل لااٹھانےکاحکم دیاتھا۔
عمران خان فرماتےہیں ’میں کرکٹر تھا،کسی عوامی عہدے پہ نہیں تھا‘۔عاصمہ جہانگیر بھی کبھی عوامی عہدے پر نہیں رہیں۔+3/12
سیدسبط حسن کی کتاب "پاکستان میں تہذیب کاارتقاء"سےسندھ میں محمدبن قاسم کے"کارناموں"پر ایک مختصراقتباس شئیرکیا..کمنٹس سےاندازہ ہوا کہ تاریخی شعورکی کمی کےباعث اورکچھ نسیم حجازی کےناولز اورمطالعہ پاکستان کی خودساختہ تاریخ پڑھ کراکثریت یاتوتاریخ اور فکشن کےفرق سےاگاہ نہیں،.+1/20
یاپھر تاریخ کودلیل اورعقل کے بجائےمحض جذبات کی روشنی میں دیکھتےہیں جسکا لازمی نتیجہ تعصب اوردلی خواہشات پرمبنی واقعات کی صورت میں نکلتاہے۔ایک بارپھرغیرجانب داری سے تاریخ کاجائزہ لیتےہیں کہ کیا واقعی محمدبن قاسم ایک مسلمان عورت کی پکارپرسندھ آئےتھے یا ان کےمقاصدکچھ اورتھے۔+2/20
تاریخی شواہدکا جائزہ لیں تو معلوم ہوتاہے کہ عربوں کا ارادہ ابتداء ہی سے سندھ فتح کرنےکا تھا۔جب عربوں نےشام و عراق اورایران کو فتح کیا،توسندھ کی فتح بھی ان کےمنصوبہ میں شامل تھی۔ وادئ سندھ بھی وادئ نیل و فرات کی طرح دولت سےمالامال تھی اگرتاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگاکہ.+3/20
آخری چنددن دسمبرکے
ہر برس ہی گِراں گزرتےہیں
خواہشوں کےنگارخانے سے
کیسےکیسے گُماں گزرتے ہیں
رفتگاں کے بکھرے سایوں کی
ایک محفل سی دل میں سجتی ہے
فون کی ڈائری کے صفحوں سے
کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے
جن سے مربوط بےنوا گھنٹی
اب فقط میرےدل میں بجتی ہے
کس قدر پیارے پیارے ناموں پر+1/4
رینگتی بدنُما لکیریں سی
میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں
دوریاں دائرےبناتی ہیں
نام جوکٹ گئے ہیں اُن کےحرف
ایسےکاغذ پہ پھیل جاتے ہیں
حادثے کےمقام پر جیسے
خون کے سوکھے نشانوں پر
چاک سے لائینیں لگاتے ہیں
پھر دسمبر کےآخری دن ہیں
ہر برس کی طرح سے اب کے بھی
ڈائری ایک سوال کرتی ہے
+2/4
کیا خبر اس برس کے آخر تک
میرے ان بے چراغ صفحوں سے
کتنے ہی نام کٹ گئے ہونگے
کتنے نمبر بکھر کے رستوں میں
گردِ ماضی سے اٹ گئے ہونگے
خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں
کتنے طوفان سِمٹ گئے ہونگے
ہر دسمبر میں سوچتا ہوں میں
اک دن اس طرح بھی ہونا ہے
رنگ کو روشنی میں کھونا ہے+3/4