ستونِ حَنَّانه سے مراد کھجور کا وہ خشک تَنا ہے جس سے مسجدِ نبوی شریف علیٰ صاحبھا الصّٰلٰوۃ والسَّلام میں سرکارِ مدینہ صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے_ جب لکڑی کا منبر اطہر بنایا گیا اور حضور صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے منبر شریف کو
قدم بوسی سے مشرف فرما کر خطبہ ارشاد فرمایا: تو کجھور کے تنے سے رونے کی آواز آنے لگی، وہ سرکارِ مدینہ صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے فِراق (یعنی جدائی) میں رو رہا تھا تو رحمتِ عالَم صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم شفقت فرماتے ہوئے مبارک منبر سے اترے اور اس کو سینے
سے لگا لیا تو وہ سسکیاں بھرنے لگا اور پھر آہستہ آہستہ خاموش ہو گیا_ اسی رونے کی وجہ سے اُس تَنے کا نام #حَنَّانه پڑ گیا_ سرکارِ نامدار صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام علیھمُ الرِضوان سے ارشاد فرمایا: اگر میں اس کو خاموش نہ کرواتا تو یہ قیامت تک روتا رہتا_
پھر مدینے کے تاجدار صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا: اگر تو چاہے تو تجھے اس جگہ لگا دوں جہاں تو پہلے تھا تا کہ تو پہلے کی طرح (ترو تازہ) ہو جائے اور اگر تو چاہے تو تجھے جنّت میں لگا دوں تا کہ جنّتی تیرا پھل کھاتے رہیں! اُس نے جنّت کو اِختیار کیا تو سرکارِ مدینہ
صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر اسے منبر کے نیچے دفنا دیا گیا_
حضرت سیدنا حسن بصری علیه رحمتہ اللّٰه القَوی جب یہ واقعہ بیان فرماتے تو روتے اور ارشاد فرماتے: اے اللّٰه عزوجل کے بندو! جب ایک درخت کا بے جان تَنا فِراقِ مصطفےٰ میں رو سکتا ہے تو تمہیں فراقِ
رسول میں رونے کا زیاہ حق ہے_
آج بھی مسجدِ نبوی شریف علٰی صاحبھا الصَّلوٰۃ والسَّلام میں اس جگہ پر جہاں یہ ستونِ حنانہ تھا، پلر (pillar) بنا ہوا ہے جس پر اُسْطُوَانَتُہ الْحَنَّانَه لکھا ہوا ہے، عاشقانِ رسول اس مقام پر نوافل وغیرہ ادا کرتے ہیں_
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
قارون بہت بڑا عبادت گزار تھا اس نے چالیس سال تک پہاڑ کی غار میں رہ کر عبادت کی اور بنی اسرائیل کی قوم میں عبادت کے اعتبار سے سبقت لے گیا، ابلیس نے اس کو گمراہ کرنے کے لیے مختلف شیاطین روانہ کیے مگر کوئی بھی اس کو گمراہ نہ کر سکا حتی کہ خود ابلیس اس کے مقابلہ کے
لیے آیا اور اس کی عبادت گاہ کے قریب آکر پہاڑ کے ایک جانب عبادت کرنے لگ گیا اور اتنی عبادت کی کہ، قارون پر سبقت لے گیا قارون تھک جاتا تھا مگر ابلیس نہیں تھکتا تھا قارون روزے کا ناغہ کر لیتا تھا مگر ابلیس روزانہ بلا ناغہ روزہ رکھتا تھا ...!
اس طرح قارون کے دل میں اس کی عقیدت پیدا
ہوگئی اور اس نے اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے شیطان نے ایک دن قارون سے کہا کہ :
" ہم اس عبادت پر قناعت کر کے بیٹھ گئے ہیں ہمیں لوگوں کے دکھ، سکھ میں شریک ہونا چاہیے، مخلوق خدا سے تعلق توڑنا نہیں چاہیے ہم نہ تو ان کے جنازوں میں شریک ہوتے ہیں اور نہ ہی جماعت میں اور
کچھ لوگ حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ کے پاس ایک نامزد گورنر کی شکایت لیکر حاضر ھوئے ۔امیر المومنین نے دریافت کیا کیوں ائے ھو۔ لوگوں نے بتایا نامزد گورنر کی 4 شکایات لیکر آئے ھیں ۔حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا کیا شکایات ھیں ۔ایک نے گنوانا شروع کردیا ۔
امیر المومنین ۔1- پہلے وہ فجر کے بعد بیٹھکر دین سکھاتے تھے اور دیر تک مسجد میں رھتے تھے ۔اب فجر پڑھا کر چلے جاتے ہیں ۔ 2- پہلے وہ ناغہ نھی کرتے تھے ۔اب ناغہ کرتے ھیں ۔ 3- پہلے وہ رات کو بھی ملتے تھے اب صرف دن میں ملتے ھیں ۔
4- اچانک انکو کیا ھوجاتا ھے کہ بھت آہ بکا اور رونا شروع کردیتے ہیں اور دیر تک چپ نھی ھوتے ۔یہ ھمیں مسجد میں اچھا نھی لگتا ۔ بس امیر المومنین ۔۔ گورنر کا نام سعید بن عامر تھا ۔انکو بلوایا گیا ۔اور امیر المومنین نے شکایات انکے سامنے رکھکر جواب مانگا ۔ گورنر کچھ دیر خاموش
شیر شاہ سوری
کچھ مسلم حکمران تاریخ کے آسمان پر ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے‘ شیر شاہ سوری ان میں سے ایک ہے۔ شیر شاہ ایک نڈر‘ عالی طرف اور مردم شناس مسلم بادشاہ تھا‘ رعایا پروری‘ عدل و انصاف‘ مساوات اور حسنِ سلوک کی جس نے شاندار مثالیں قائم کیں اور ایسے عظیم
کارنامے انجام دیے جنہیں یاد کر کے آج بھی رشک آتا ہے۔ شیر شاہ سوری نے رعایا کی سہولت کے لیے بہت سے رفاہی کام کروائے ۔ سولہویں صدی میں جب شیر شاہ سوری نے ہندوستان میں اپنی حکومت قائم کی تو اس کی ترجیحات میں 2500 کلومیٹر طویل قدیم سڑک جی ٹی روڈ کی
تعمیرِ نو تھی جو کابل سے کلکتہ تک پھیلی ہوئی تھی تاکہ سرکاری پیغام رسانی اور تجارت کو مؤثر اور تیز تر بنایا جائے۔ اس سڑک کے بارے میں روایت ہے کہ اس کا پہلے نام جرنیلی سڑک تھا جو انگریزوں کے دورِ حکمرانی میں بدل کر جی ٹی روڈ یعنی گرینڈ ٹرنک روڈ رکھا
صحرا میں بھٹکا ہوا مسافر پیاس سے مرنے کے قریب تھا جب دور اسے ایک کمرے کا ہیولا سا نظر آیا وہ اسے نظر کا دھوکا سمجھ رہا تھا. چونکہ سمت تو وہ کھو چکا تھا اس لئے اس دھوکے کی طرف نڈھال بڑھنے لگا وہ کمرہ دھوکا نہ تھا بلکہ اس میں ایک ہینڈ پمپ لگا ہوا تھا
مسافر نے
جلدی جلدی ہینڈ پمپ چلانا شروع کیا لیکن عرصے سے استعمال نہ ہوا ہینڈ پمپ پانی اٹھانے سے قاصر تھا وہ مایوس ہو کر بیٹھ گی اچانک ایک کونے میں اسے ایک بوتل نظر آئی پانی سے بھری ہوئی بہت اچھے سے بند یہ بوتل اس نے اٹھائی اور بیتاب ہو کر پینے کو ہی تھا کہ بوتل کے
نیچے ایک پرچہ نظر آیا کھول کر دیکھا تو اس پر لکھا تھا یہ پانی پمپ میں ڈال کر اسے چلائیں اور برائے مہربانی استعمال کے بعد اسے واپس بھر کر یہاں رکھ دیں مسافر ایک امتحان سے دوچار ہوگیا. ایک طرف شدت پیاس تھی دوسری طرف خطرہ تھا پتہ نہیں پمپ کام کرے یا نہیں؟
ڈاکٹر یحییٰ کوشک ہفتہ پہلے وفات پاگئے ہیں
ڈاکٹر یحییٰ کوشک وہ پہلا شخص تھا جس کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ زمزم کے کنواں کو صاف کرنے کی غرض سے کنویں کے اندر پانی میں داخل ہوا تھا اور یہ 1979 کی بات ہے جب ملک خالد رحمہ اللہ زندہ تھے اور اس نے کنواں کی تاریخی
توسیع کی تھی اور چاہ زمزم کو صاف کیا تھا.
اس صفائی سے پہلے لوگ خود جاکر کنویں سے پانی نکالتے تھے جس کے وجہ سے کنواں کے اندر کافی سارے سامان اور گندگی وغیرہ گر جاتے تھے اور اس وجہ سے چشمے سے پانی نکلنا کافی کم ہوا تھا.
ڈاکٹر یحییٰ کوشک مرحوم جب کنواں
میں داخل ہوئے تو اس نے سارے گندگیوں کو باہر نکالا اور کنواں سے بہت سارے چیزوں کو ہٹایا جو پانی روکنے کا سبب بن رہے تھے، جس کے وجہ سے زمزم کے چشمے سے پانی کا اخراج بہت زیادہ ہوا اس کے بعد سے سعودی حکومت خود ہی کنواں سے پانی نکالتے ہیں اور پھر وافر مقدار