سقراط نے جو دنیا کا پہلا فلسفی شمار کیا جاتا ہے کوئی کتاب نہیں لکھی کیو نکہ وہ لکھنا نہیں جانتا تھا۔ سقراط انتہائی کم صورت تھا اس کے شاگرد نے اس کی مثال ایک ایسے مجسمے سے دی تھی۔ جو اوپر سے تو نہایت مضحکہ خیز ہوتا ہے لیکن اس کے اندر دیوتا کی
تصویر ہوتی ہے۔ سقراط کی ماں دایہ تھی جبکہ باپ مجسمہ ساز تھا۔سقراط کبھی پیسہ کمانے کے بارے میں سنجیدہ نہ تھا کیونکہ اس کی بیوی ہر وقت لڑتی رہتی تھی ۔سقراط نے اس کا کبھی برا نہیں مانا ۔
سقراط کا ایک خوشحال خاندان سے تعلق رکھنے والا شاگرد
کیٹو لکھتا ہے۔”ایک روز میں سقراط کے گھر گیا تو دیکھا کہ سقراط مکان کی دہلیز پر بیٹھا تھا اس کی بیوی اس کو برا بھلا کہہ رہی تھی سقراط کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی جب اسکی بیوی نے دیکھا کہ سقراط آگے سے کوئی جواب نہیں دیتا تو وہ غصہ سے مکان کے اندر گئی اور پانی بھرا ہوا
تسلا لا کر سارا پانی سقراط پر انڈیل دیا۔ سقراط نے ہنس کر مجھ سے کہا۔ کیٹو مجھے معلوم تھا بادل گرج رہے ہیں بارش ہوگی”
افلاطون اپنے استاد سقراط کے پاس آیا اور اس سے کہنے لگا آپ کا نوکربازار میں کھڑے ہو کر آپ کے بارے میں ہرزہ سرائی کر رہا تھا، سقراط نے مسکر ا کر پوچھا “وہ
کیا کہہ رہا تھا”افلاطون نے جذباتی لہجے میں جواب دیا “آپ کے بارے میں کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”سقراط نے ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش کروا دیا اور کہا“آپ یہ بات سنانے سے پہلے تین کی کسوٹی پر رکھو ، اس کا تجزیہ کر و اور اس کے بعد فیصلہ کرو کیا تمہیں یہ بات مجھے بتانی چاہیے”
افلاطون نے عرض کیا “یا استاد تین کی کسوٹی کیا ہے” سقراط نے کہا “کیا تمہیں یقین ہے تم مجھے جوبات بتانے لگے ہو وہ سو فیصد سچ ہے” افلاطون نے انکار میں سر ہلا دیا ، سقراط نے ہنس کر کہا “پھر یہ بات بتانے کا تمہیں اور مجھے کیا فائدہ ہوگا “افلاطون خاموشی کے ساتھ سقراط
کا چہرہ دیکھنے لگا۔سقراط نے کہا یہ پہلی کسوٹی تھی۔ ہم اب دوسری کسوٹی کی طرف آتے ہیں “مجھے تم جو بتانے لگے ہو کیا یہ اچھی بات ہے” افلاطون نے انکار میں سر ہلادیا “جی نہیں یہ بری بات ہے “سقراط نے مسکر ا کر کہا “کیا تم یہ سمجھتے ہوتمہیں اپنے استاد کو بری بات
بتانی چاہیے ” افلاطون نے انکار میں سر ہلادیا ۔ سقراط بولا “گویا یہ بات دوسری کسوٹی پر بھی پورا نہیں اترتی ” افلاطون خاموش رہا ۔ سقراط نے ذرا رک کر کہا ” اور آخری کسوٹی یہ بتاؤوہ بات جو تم مجھے بتانے لگے ہو یہ میرے لیے فائدہ مندہے “ افلاطون نے انکار میں سر ہلا دیا
اور عرض کیا “یا استاد یہ بات ہرگز ہرگز آپ کے لیے فائدہ مند نہیں” سقراط نے ہنس کر کہا “اگر یہ بات میرے لیے فائدہ مند نہیں پھر اس کے بتانے کی کیا ضرورت ہے” افلاطون پریشان ہو کر دائیں بائیں دیکھنےلگا۔
سقراط کی قوت برداشت کمال کی تھی شہر میں وہ واحد شخص
تھا جو ننگے پیر برف پر گھومتا رہتا تھا۔ سقراط نے نوجوانی میں میدان جنگ میں بہادری کا انعام حاصل کیا تھا۔سقراط کا زیادہ وقت ایتھنز کے باغات اور معبدوں کے دادان میں اپنے شاگردوں سے باتیں کرتے گزرتا ۔ آج سے ڈھائی ہزار سال پہلے کا عجیب و غریب فلسفی اپنی طرف سے
کوئی فلسفہ بیان نہیں کرتا تھا اس نے اپنے پیچھے کوئی کتاب تو کیا چار صفحوں کو کوئی چھوٹا سا مضمون بھی نہیں چھوڑا۔ وہ کچھ نہیں لکھتا تھا۔ اس کا اپنا کوئی فلسفہ نہیں تھا وہ لوگوں کو کچھ بتانے کی بجائے ان سے پوچھتا زیادہ تھا اس کے سوال ہی اس کا فلسفہ تھا ساری زندگی
ایک چادر میں گزاری۔کسی نے اس سے کہا کہ ڈیلفی کے معبد میں ایک آواز سنی گئی ہے کہ سقراط ایتھنز کا سب سے بڑا داناٰ آدمی ہے سقراط نے ہنس کر جواب دیا: “میں اس لئے داناٰ ہوں کہ مجھے اپنی بے علمی کا احساس ہے”۔
۰۰۰۰ کتاب فلسفہ حیات اور نظریات ۰۰۰۰۰ سے
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
مسلمانوں کو اب مساجد میں کچھ تبدیلیاں کرنی چاہئیں
مساجد کو صرف نماز پڑھنے کی جگہ ہی نہ بنائیں بلکہ اسلامی کمیونٹی سنٹر کی طرز پر
* وہاں غريبوں کے کھانے کا انتظام ہو۔
ڈپریشن میں الجھے لوگوں کی کائونسلنگ ہو
ان کے خاندانی جھگڑوں کو سلجھانے کا انتظام ہو
مدد مانگنے والوں کی تحقیق کے
بعداجتماعی و انفرادی طور پر مدد کی جا سکے۔
* اپنے گھروں کے فالتو سامان کو نادار افراد کیلئے عطیہ کرنے کی غرض سے مساجد کا ایک حصہ مخصوص ہو۔
* آپس میں رشتے ناطے کرنے کیلئے ضروری واقفیت کا موقع ملے۔
* نکاح کا بندوبست سادگی کیساتھ
مساجد میں کیےجانے کو ترجیح دی جائے۔
* قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کیلئے اجتماعی کوششوں کا آغاز مساجد سے ہو۔
کیونکہ...
صدقات و خیرات کرنے میں ہم مسلمانوں کا کوئی ثانی نہیں۔
* بڑی جامعہ مساجدسے ملحق مدارس میں دینی تعلیم کیساتھ دنیاوی تعلیم کا
بنی اسرائیل کا ایک قصاب اپنے پڑوسی کی کنیز پر عاشق ہوگیا۔ اتفاق سے ایک دن کنیز کو اس کے مالک نے دوسرے گاؤں کسی کام سے بھیجا۔ قصاب کو موقع مل گیا اور وہ بھی اس کنیز کے پیچھے ہولیا۔ جب وہ جنگل سے گزری تو اچانک قصاب نے سامنے آکر اسے پکڑ لیا اور اسے گناہ پر آمادہ کرنے لگا۔
جب اس کنیز نے دیکھا کہ اس قصاب کی نیت خراب ہے تو اس نے کہا:
''اے نوجوان تُو اس گناہ میں نہ پڑ حقیقت یہ ہے کہ جتنا تُو مجھ سے محبت کرتا ہے اس سے کہیں زیادہ میں تیری محبت میں گرفتار ہوں لیکن مجھے اپنے مالک حقیقی عزوجل کا خوف اس گناہ کے اِرتکاب سے روک رہا ہے'
اس نیک سیرت اور خوفِ خدا عزوجل رکھنے والی کنیز کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ تاثیر کا تیر بن کر اس قصاب کے دل میں پیوست ہوگئے اور اس نے کہا:
'' جب تُو اللّٰہ عزوجل سے اِس قدر ڈر رہی ہے تو مَیں اپنے پاک پروردگار عزوجل سے کیوں نہ ڈروں ؟ مَیں بھی تو اسی مالک عزوجل کا
ایک بادشاہ کے سامنے کسی عالم نے یہ مسئلہ بیان کیا کہ زانی کے عمل کا قرض اس کی اولاد یا اس کے اہل خانہ میں سے کسی نہ کسی کو چکانا پڑتا ہے اس بادشاہ نے سوچا کہ میں اس کا تجربہ کرتاہوں اس کی بیٹی حسن و جمال میں بے مثال تھی اس نے شہزادی کو بلا کر کہا کہ عام سادہ کپڑا پہن
کر اکیلی بازار میں جاؤ اپنے چہرے کو کھلا رکهو اور لوگ تمہارے ساتھ جو معاملہ کریں وہ ہوبہو آکر مجھے بتاؤ شہزای نے بازار کا چکر لگا یا مگر جو غیر محرم شخص اس کی طرف دیکهتا وہ شرم و حیا سے نگاہیں جھکا لیتا کسی مرد نے اس شہزادی کے حسن و جمال کی طرف
دھیان ہی نہیں دیا سارے شہر کا چکر لگا کر جب شہزادی اپنے محل میں داخل ہو نے لگی تو راہداری میں کسی ملازم نے محل کی خادمہ سمجھ کر روکا اور نازیبہ حرکت کی اور بھاگ گیا۔۔۔۔
شہزادی نے بادشاہ کو سارا قصہ سنایا تو بادشاہ روپڑا اور کہنے لگا کہ میں نے ساری زندگی غیر
آٸینے کا تاریخ
آئینے کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔زمانہ قدیم سے ہی انسان آئینے میں اپنے عکس کو دیکھ کر خوش ہوتا آیا ہے۔جب تک آئینہ ایجاد نہ ہواتھا تو انسان پانی میں اپنا عکس دیکھتاتھا ۔پھر ایک زمانے میں ایک خاص قسم کے سیاہ پتھر کو چمکاکر اس سے آئینہ بنالیا جاتا۔ غالباً 6000قبل مسیح
میں پالش کیا ہوا شیشہ آئینے کے طور پر استعمال ہونے لگا۔اسی آئینے سے کسی دور میں شیش محل بھی تعمیر ہوا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ اگر اس کے اندر ایک جگہ پر چراغ چلا دیا جائے توپورا محل روشن ہوجاتا تھا۔جنوب مغربی بولیویا میں واقع 58210 کلومیٹرپر پھیلا
ہوا دنیا کا سب سے بڑا نمک کا میدان ہے، جس کو ’’سالارڈی یونی‘‘ کہا جاتا ہے ۔اس کی حیران کن بات یہ ہے کہ جب اس پر پانی کی ہلکی سی تہ پھیل جاتی ہے تو یہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا قدرتی آئینہ بن جاتا ہے جو دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔یہ اس قدر بڑا آئینہ ہے کہ
اسکے ماں باپ نے بڑے لاڈ و پیار سے پرورش کی ، جوان ہوئی تو والدین کی رضا مندی کے بغیر کالج کی بس کے ڈرائیور سے خفیہ نکاح کر لیا ، باپ کو جب پتہ چلا تو بیٹی نے جواب دیا۔
"میرا نکاح ہو چکا ھے ، بہتر یہی ھے کہ آپ اپنے ہاتھوں مجھے رخصت کر دیں ورنہ میں خود ان کے
پاس چلی جاوں گی؟"
باپ نے کہا کہ اگر آپ کا یہ حتمی فیصلہ ھے تو آپ نے گھر سے جو کچھ لینا ھے لے لیں اور خود ہی اپنے شوہر کے پاس چلی جاؤ ، لیکن یہ یاد رکھنا ، اب آپ کا ہم سے اور ہمارا آپ سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ آپ ہمارے لیئے مر گئیں اور ہم آپ کیلئے
وہ خوشی خوشی
سامان پیک کرکے اپنے شوہر کے پاس چلی گئی۔ تقریبا آٹھ سال بعد اسکی ملاقات ایک قریبی عزیز سے ہوئی اور وہ اسے اپنے گھر لے آیا۔
خیر خیریت دریافت کرنے کے دوران اس نے زار و قطار رونا شروع کر دیا۔ وہ سمجھا کہ شاید گھر کے حالات صحیح نہیں ہوں گے۔