سارنگی

میرے اندر ایک کھلبلی سی مچ گئی۔
میں عمر کے اس حصے میں ہوں جہاں لطیف جذبات سرد پڑ جاتے ہیں ۔ آدمی کے اندر کا بیل تھک کر تھان پر بیٹھا جگالی کر رہا ہوتا ہے۔ اسے صرف ٹھوکروں سے نہیں اٹھا یا جا سکتا ، تابڑ توڑ ڈنڈے برسانے پڑتے ہیں۔

یہی کچھ میرا حال ہے۔

1
اس کی موت کی خبر مجھ پر تابڑ توڑ ڈنڈوں کی طرح برس رہی تھی

سر پر رکھا دھرتی بوجھ اتار کر پیچھے دیکھو تو سوائے تیز مٹی کے جھکڑوں کے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا مگر اس میں بھی کچھ چہرے ایسے ہیں جو ابھی دھندلائے نہیں۔کچھ کانوں میں رس گھولتی آوازیں ہیں انہیں میں ایک آواز اسکی ہے۔

2
میں شہر میں رہتا تھا زیادہ عرصہ وہیں پلا پڑھا۔ ہاں گرمیوں کی چھٹیوں میں گاوں دو تین مہینے ماں کے پاس گزار آتا۔ایسی ہی گرمیاں تھیں جب گاوں میں ہمسائیوں میں شادی تھی۔ ساری رات گیت گائے جاتے۔ خوشی کے گیت ۔ گانے والی تھک جاتیں تو سب بے سرا ہو جاتا۔
3
پھر دو تین روز بعد آوازیں تازہ دم اور سُر میں ہو جاتیں ۔ انہیں آوازوں کے ہجوم میں ایک آواز لمحہ بھر کو ابھرتی اور پھر کھو جاتی

ایسی کومل آواز جیسی ساون اور ساڑھ کے مہنوں میں آم کے پیڑوں سے سنائی دیتی ہے۔ اس خوشبو آواز کو بھانت بھانت کی آوازوں سے الگ کرنا آسان کام نہیں تھا
4
میں سماعت کی چھاننی سے ریت کے انبار چھان چھان کر ہلکان ہوجاتا تب کہیں جا کر درمیان یا آخر میں اس آواز کا ہلکا سا جھونکا مجھے کپکپا دیتا۔

وہ سارے گیت خوشی کے ہوتے مگر اسکی آواز میں ایک عجیب طرح کا حزن اور سوز تھا ۔ جیسے کوئی کوک پکار رہا ہو جیسے کہیں ہوک اٹھ رہی ہو۔
5
آواز کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ کسی سے پوچھتا بھی تو کیا۔میں گاوں میں ایک طرح سے اجنبی ہی تھا۔

ایک روزشادی والے گھر سے ایک لڑکی آئی اور ایک کوئل آواز میں گنگناتے ماں کو آواز دی۔ میرے پیرو ں تلے سے زمین کھسک گئی جیسے ایک توپ میرے اندر داغی گئی ہو۔
6
وہ آواز میرے سامنے پورا وجود لئے کھڑی تھی جس کی تلاش میں آوازوں کے جنگل میں آوارہ پھرتا رہتا تھا۔ لگتا تھا وہ بات کرنا چاہ رہی ہے مگر مجھے لگتا تھا بولا تو الفاظ کی بجائے کلیجہ باہر نکل آئے گا

ماں سے پوچھا تو پتا چلا اس لڑکی اور اس کے بھائی دونوں کی شادی ایک ساتھ ہو رہی ہے

7
مجھے وائلن بہت پسند ہے۔ لگتا تھا جیسے وائلن صرف وائلن سننے کے لئے مجھے سماعت عطا ہوئی تھی۔ میرا دکھ آواز کا ہی دکھ تھا اس لئے لگتا تھا صرف وائلن ہی سمجھ سکتا تھا سو دن رات وہی سنتا رہتا ۔

ایک روز گلی میں ایک فقیر دولو جو سارنگی بجا کر مانگا کرتا تھا گزرا۔

8
دولو نوجوان تھا مگر سارنگی جیسے مشکل ساز پر کمال مہارت رکھتا تھا۔

سارنگی کی آواز نے ایک عجیب سا مرہم میرے گھاو پر رکھا اور میں نے دولو کو اندر بلا لیا۔ سارنگی پہلے بھی سنی تھی مگر اس روز لگا پہلی بار سن رہا ہوں سہہ رہا ہوں۔ وہ صحن میں بیٹھا سارنگی بجانے لگا
9
اور میں انکھیں بند کئے یوں محسوس کر رہا تھا جیسے سارنگی کی آواز میرے آر پار گزر رہی ہے۔ اچانک وہ چادر اوڑھےصحن میں داخل ہوئی۔ یک نہ شد دو شد۔ میرا اندر باہر چھلنی ہوگیا

ماں پسار میں تھیں کچھ دیر وہ بھی پسار میں گم رہی پھر خلافِ توقع دالان کے کونے میں چادر میں اپنا آپ
10
گم کئے بیٹھ سارنگی سنتی رہی ۔

سارنگی سر گوشیاں کرتی، کبھی سسکتی اور کبھی رو کر پکارنے لگتی

میرے اندر کوئی فراقیہ چھٹیاں لکھنے لگا۔ سارنگی وہ چھٹیاں مکتوب الیہ تک پہنچاتی رہی۔

دریا کا دریا چڑھتا گیا اور ہر طرف جل تھل ہوگیا۔ آہستہ آہستہ روحوں پر چڑھے غلاف اترنے لگے

11
وہ کچھ دیر سنتی رہی پھر اسی کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ سارنگی روتی جاتی تھی۔اس سے پہلے کے ضبط کا دامن چھوٹ جاتا وہ بچے کچے آنسو سمٹیتی گھر سے چلی گئی۔ یہ میری اسکی پہلی اور آخر ی ملاقات تھی۔ اگلے روز وہ مایوں بیٹھ گئی۔ شادی کب شروع ہوئی اور کب ختم مجھے علم نہیں۔
12
جس روز شادی تھی میں گھر اکیلا تھا سارا دن ریکارڈ پلیئر پر سارنگی سنتا رہا۔

شہر واپس آیا تو پھر زندگی کے کچھ سال سارنگی نے ہر آواز پر قبضہ کر لیا۔ سارنگی اور میرا دکھ سانجھا تھا۔ زندگی بدلی اور پھر آوازوں کے جنگل میں سارنگی بھی کھو گئی۔

13
اور آج برسوں بعد خبر ملی کہ وہ مر گئی۔ یوں لگا جیسے سارنگی بجتے بجتے اس کے سارے تار ٹوٹ گئے ہوں۔

جو اسے رخصت کرنے گئی تھی وہ بھی رخصت ہو چکی۔ اس گھر اب کوئی اور رہتا تھا۔ بہت سے لوگ بچھڑ گئے۔ بہت کچھ اتھل پتھل ہو چکا تھا۔

14
دل کیا کسی سے پوچھوں اس نے زندگی کیسے گزاری۔ سارنگی سن کر وہ کیوں روتی تھی۔ سارے جہاں کو معلوم ہو جائے اسے سارنگی کیوں پسند تھی۔ گھر گھر اس بات کے تذکرے ہوں ۔ میری خاطر وہ اندر اندر کیسے کھل کر دنیا سے چلی گئی یہ خبر اخباروں میں چھپے۔
15
یہی سوچ مجھے گاوں لے گئ۔سوچا کسی کو تو معلوم ہوگا۔ کوئی تو خبر دے گا اسکی مجھے۔ مجھے پہلا خیال دولو کا آیا۔ اگلے روز اسے بلا بھیجا۔ سر کے بال کیا بھنوئیں بھی سفید ہو چکیں تھیں۔ اس کو دیکھ اپنے بڑھاپے کا شدید احساس ہوا۔

اب اسکے ہاتھ کانپتے تھے آواز بھی ساتھ نہ دیتی تھی۔
16
پھر وہ بولا:

"ہر دوسرے تیسرے مہینے میں اس طرف آتا تھا۔ جب بھی آتا سیدھا ان کے دروازے پر ضرور جاتا۔ قدموں کی آہٹ سے پتا چل جاتا دروازے کی دوسری طرف وہ بیٹھی ہے۔ آخری روز بھی اس نے سارنگی سننے کی فرمائش کی تھی۔ چوہدری نے بندہ بھی دوڑایا مگر میں کہیں اور نکلا ہوا تھا۔
17
دوسرے تیسرے روز واپس آیا تو سیدھا ان کے دروازے پر سارنگی بجانے لگا اندر سے آواز آئی " کہیں اور جا کے بجاو ۔۔۔ یہ مرگ والا گھر ہے"۔۔۔ میرے تو ہوش اڑ گئے۔ "

دولو کی تمھیں پتا ہے اس کو سارنگی کیوں پسند تھی۔۔۔۔

دولو نے کہا ہاں ۔۔۔ مگر جانے دیں اب ان باتوں کا کیا فائدہ۔

18
نفع نقصان چھوڑو یہ بتاو اسے سارنگی کیوں پسند تھی۔

میں نے اصرار کیا تو کہنے لگا نہ جی بہشتن نے منع کیا تھا۔

سارنگی ہر دکھی انسان کو پسند ہوتی ہے وہ بھی ایک دکھی روح تھی۔ اور سارنگی میری زبان تھی۔

تمھاری زبان؟ کیا کہہ رہے ہو۔

19
ٓپ کو یاد ہے جب انکی شادی تھی ۔ میں اتفاق سے نہیں آیا تھا۔ جانتا تھا آج آخری دن ہے اس کا۔

ہاں یاد ہے۔ پھر؟

بس جی اب کیا فائدہ۔ بچپن سے وہ سارنگی سنتی رہی میں سناتا رہا۔ اس کے دکھ سے میری سارنگی میں اور زیادہ اثر آ جاتا۔ نہ کبھی اس نے کچھ کہا نہ میں نے۔
20
بس یو نہی عمر گزار دی ہم دونوں نے ۔۔۔ اس نے سارنگی سنتے میں نے سارنگی سناتے۔

بس ایک بار اس نے کہا تھا:

"دولو! تم خوش قسمت ہو تمارے حصے کا رونا سارنگی رو دیتی ہے اور یہ سانگی مجھ سے بہتر ہے کہ اپنا احوال تو کہہ سکتی ہے"۔

دولو نے اور بھی بہت کچھ کہا۔
21
شاید اسے زندگی میں پہلی بار بولنے کا موقع ملا تھا۔ میں سنتا رہا مگر آوازوں کے جنگل میں دولو کی آواز گم ہوتی چلی گئی۔
اس دن کے بعد بس یہ ہوا جب بھی کوئی فقیر سارنگی بجاتا سنائی دیتا میں دروازے کی اوٹ میں کھڑا دیر تک سنتا رہتا ہوں۔

ماخوذ۔ منشایاد
@threadreaderapp

please compile.

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with Kashif Chaudhary

Kashif Chaudhary Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @kashifch

22 Feb
Inside the last matriarchy in Europe
وسعتِ قلب، توانا ہاتھ۔۔۔ یور پ کی آخری نسواں حکمرانی

انسانی تمدن اور تہذیب اپنے اندر اتنی متنوع ہے کہ خود انسانی عقل و مشاہدہ اسکا مکمل احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔

آئیے آپ کو ایک ایسے معاشرے اور تہذیب کا احوال بتاتے ہیں جسے یورپ کی
آخری نسواں حکمرانی Inside the last Matriarchy in Europe کہا جاتا ہے۔

بالٹک سمندر میں جزائر پر شتمل شمالی یورپ کا ایک ملک ایسٹونیہ کا ایک جزیرہ "کہنو" کہلاتا ہے۔ رقبہ تقریباً 16 مربع کلو میٹر اور آبادی 600 نفوس پر مشتعمل ہے۔ بیشتر نوجوان نسل شہروں کو ہجرت کر چکی ۔
اس جزیرے کے رہن سہن کی خاص با ت یہاں کی ادھیڑ عمر خواتین ہیں جو جزیرے پر عملاً اور کلّی حکمرانی کرتی ہیں۔

تمام مرد ماہی گیری سے وابستہ ہیں اور زیادہ تر سمندر میں ہوتے ہیں انکی غیر موجودگی میں جزیرے کا انتظام و نسق خواتین کے ہاتھوں میں ہے۔ کھیتی باڑی ہو کہ گلہ بانی،
Read 8 tweets
15 Feb
وہ چکلے پر بیٹھتی تھی وہ کیا اس ماں اور نانی بھی اسی پیشے سے متعلق رہیں۔ مردوں کے دل و جسم کے کھیل سے ہی روزی روٹی وابستہ تھی۔ پھر قدرت نے حسن بھی دل کھول کر دیا تھاسو ناز نخرہ تو پھر طبعیت کا جُز لازم ٹھہرا۔

مردوں کے دلوں کو کھیل بنا کر کھیلنے والی خود کسی کو دل دے بیٹھی
اور وہ بھی بھائی کے بچپن کے جگری دوست کو

وہ پہلوان تھا دن رات اکھاڑے میں کسرت کرنے والا خوبرو جوان، علاقے میں اس کی ڈھاک ایک رعب تھا وہ آج تک کشتی نہیں ہارا تھا۔دوست کو سگے بھائی سے عزیز رکھتا میری ماں کو اپنی ماں زیادہ عزت و احترام دیتا۔
کبھی گھر کی دہلیز پار کر کے اندر نہیں آیا۔

وہ اسے اپنے عشق کا اظہار برسوں پہلے کر چکی اور وہ بھی ایسا عزت والا تھا کہ صاف انکار کر دیا کہ دوست کی بہن ہو تو میری بھی بہن ٹھہری محبت کا سوچنا بھی نہیں۔ اتنا صاف کھرا جواب بھی د ل کی تسلی نہ کر سکا اور عشق کا بوٹا ہر گزرتے دن
Read 8 tweets
1 Feb
لاہور کا قلعہ نما ریلوے سٹیشن اور میاں سلطان ٹھیکیدار!

لاہور کا پُرشکوہ ریلوے سٹیشن جب تعمیر ہوا تو اپنی نظیر آپ تھا۔ اس کا ڈئیزائن ایک قرون وسطی کے قلعہ کی طرز پر رکھا گیا۔ 1857 کی جنگِ آزادی کے فورا ً بعد ہی اس کی تعمیر شروع کر دی گئ تھی۔
مگر باقاعدہ سنگِ بنیا د 1859 میں رکھا گیا اور 1860 میں پہلی ریل گاڑی امرتسر کو جاری کی گئی تھی۔

مگر آج ریلوے سٹیشن کا تعارف مقصود ِقلم نہیں۔ بات اس شخص کی کرنی ہے
جس نے اس کی تعمیر کو ممکن بنایا:میاں محمد سلطان مختصر تعارف اس لیئے کروایا تاکہ ذہن میں رہے کہ اس شخصیت کی اہمیت ومقام کیا رہا ہوگا جس کے زمہ انگریز حکومت نے اتنے اہم منصوبہ کی تعمیر لگائی۔ اتنی قلیل مدت میں اتنی شاندار عمارت کی تعمیر بلا شبہ ایک کارنامہ ہائے دیدنی تھا۔
Read 12 tweets
30 Jan
امبر کمرہ(Amber Room)
روس کا دنیا کا آٹھواں عجوبہ اور اسکی گمشدگی کی حیرت انگیز داستان

آئیے آپ کو دنیا کے آٹھواں عجوبے کا تعارف اور اس سے جڑی ایک داستان سنائیں جس کے بارے میں اکثر نے شاید نہ سنا ہو۔ کہانی طویل ہے تسلیّ سے وقت نکال کر پڑھئے گا

ٰImage Courtesy Wiki-Comm
1\13 ImageImage
امبر: درختوں سے نکلنے والی گوند جو جیو اشم / Fossil بن چکی ہو۔ یہ انتہائی کمیاب اور قیمتی تصور کی جاتی ہے۔ قدیم یورپ میں اس کو بلا اجازت زمین سے نکالنا موت کی سزا کا مرتکب بنتا تھا۔

1701 میں اس وقت کی جرمن ریاست پورشیا کا پہلا بادشاہ فریڈرک برلن محل کے ایک کمرے
13\2
کو اپنی بیگم صوفیہ کی خواہش پر امبر کے 450 کلو ٹکڑوں ، سونے اور شیشوں سے مزین کروانے کا حکم دیتا ہے۔

اس کا ڈیزائن مشہور جرمن سنگ تراش انڈراس نے تیار کیا ۔ اس کے لئے یورپ بھر سے امبر کے ماہر کاریگر منگوائے گئے ۔ یہ اپنے آپ میں ایک عجوبہ تھا
13\3
Read 13 tweets
29 Dec 20
Princess Bamba Sutherland
(29 Sep 1869 – 10 Mar 1957)
لاہور سے محبت کی ایک الگ داستان
ّ___________________________________

پرنسس بمبا سدرلینڈ ، سکھ شاہی خاندان جس نے پنجاب پر حکومت کی اس کی آخری نشانی اور شخصیت تھیں۔
مہاراجہ دلیپ سنگھ کی بیٹی اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پوتی برطانیہ میں اس وقت پیدا ہوئی جب انکے والد وہاں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ اکسفورڈ میں پڑھیں ، بعد میں امریکہ سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی اور ملکہ برطانیہ کا قرب بھی حاصل ہوا۔
۱۹۱۵ میں برطانیہ کی قدرے خوشحال زندگی چھوڑ کر لاہور آباد ہو گئیں۔
ڈاکٹر ڈیوس سدرلینڈ سے انکی شادی ہوئی جو کنگ ایڈورڈ کالج کے پرنسپل بھی رہے۔ لاہور کے علاقے ماڈل ٹاون میں-A104 بلاک میں ایک گھر خریدا ۔ وہاں سرخ گلابوں کا ایک وسیع باغ اپنے ہاتھ سے لگایا
Read 9 tweets
1 Dec 20
گزشتہ سے پیوست ۔ حصہ دوئم

مقبرہ زیب النسا٫ ۔ موضع نواں کوٹ ۔۔ لاہور
ََََّّ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چوبرجی باغ کی بانیہ اور اعلیٰ درجے کی شاعرہ بہ تخلص "مخفیؔ" اورنگ زبیب عالمگیر کی بیٹی، لاہور کے علاقے نواں کوٹ میں اس باغ میں مدفن ہیں جو خود اپنے ہاتھوں تعمیر کروایا۔
ایک دوسری رائے یہ بھی ملتی ہے کہ جب باپ نے بیٹی کو عمر قید کی سزا دی توان کی وفات دہلی کے اس قلعہ میں ہوئی جہاں وہ قید کی گیئں اور وہیں مدفن ہوئیں

مقبرے کا باغ جو اب نا پید ہے اور حوادثِ زمانہ ہو چکا خوبصورتی میں شالیمار سے دوسرے درجہ پر تھا اور لاکھوں کے خرچ پر بنایا گیا۔
مقبرہ باغ کے بیچ میں واقع تھا چار داخلی رستے تھے جن سے ہاتھی بھی گزر سکتے تھے۔ صدر دروازہ ، مقبرہ کی عمارت اور دو حفاظتی مینار اب بھی قائم ہیں اگرچہ اب عین آبادی کے بیچ و بیچ ہیں مگر حکومت ِ وقت سے توجہ اور مرمت کے طالب ہیں۔
Read 6 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!