لاہور کا قلعہ نما ریلوے سٹیشن اور میاں سلطان ٹھیکیدار!

لاہور کا پُرشکوہ ریلوے سٹیشن جب تعمیر ہوا تو اپنی نظیر آپ تھا۔ اس کا ڈئیزائن ایک قرون وسطی کے قلعہ کی طرز پر رکھا گیا۔ 1857 کی جنگِ آزادی کے فورا ً بعد ہی اس کی تعمیر شروع کر دی گئ تھی۔
مگر باقاعدہ سنگِ بنیا د 1859 میں رکھا گیا اور 1860 میں پہلی ریل گاڑی امرتسر کو جاری کی گئی تھی۔

مگر آج ریلوے سٹیشن کا تعارف مقصود ِقلم نہیں۔ بات اس شخص کی کرنی ہے
جس نے اس کی تعمیر کو ممکن بنایا:میاں محمد سلطان مختصر تعارف اس لیئے کروایا تاکہ ذہن میں رہے کہ اس شخصیت کی اہمیت ومقام کیا رہا ہوگا جس کے زمہ انگریز حکومت نے اتنے اہم منصوبہ کی تعمیر لگائی۔ اتنی قلیل مدت میں اتنی شاندار عمارت کی تعمیر بلا شبہ ایک کارنامہ ہائے دیدنی تھا۔
عہدِ سکھی میں اندرون دہلی دروازے کا ایک عامیانہ رہائشی ۔ کہا جاتا ہے کشمیر سے لاہور آیا۔ سکھ دور میں پہلوانی بھی کیا کرتا تھا ۔ سکھ عہداران سے تعلقات استوار کئے اور ایک چھوٹا ٹھیکیدار بن گیا۔ انگریز حکومت کے آتے ہی کسی نہ کسی طرح پھر حکومتی عہداروں کی قربت پاتا ہے۔
اورلاہور کی اہم انگریز دور کی عمارات کی تعمیر کے لئے ٹھیکیدار مقرر ہوجاتا ہے۔ بس پھر کیا تھا قسمت کا ستارہ دن بدن اوج پر تھا

تھوڑے ہی عرصے میں لاہور کے امرا میں شمار ہونے لگا۔ بے شمار جائیدایں حویلیاں بنائیں، ذاتی رہائش کی حویلی میاں سلطان آج بھی اندروں دہلی لاہور میں موجود ہے
لاہور کا مشہور لُنڈا بازار اور اس سے ملحقہ سرائے سلطان جو اب نا پید پے کا بانی اور ذاتی ملکیت میں تھا۔

سرائے میں رہنے والوں اور خاص کر انگریز افسروں کے لئے الگ کوٹھیاں بنوائیں اور امرا ٴ اور انگریز افسروں کے لئے لاہور کا پہلا باقاعدہ کسبی خانہ بھی سرائے کے قریب قائم کروایا
جب 1876 میں پرنس آف ویلز ایڈورڈ نے لاہور کا دورہ کیا تو میاں سلطان اس کے متنظمین کی اول صف میں تھا۔

لُنڈا بازار کو خاص تیار کروایا گیا اور بے پناہ تعریف اور تحسین کا مستحق ٹھہرا۔ اس دور کے لاکھوں کا مالک ہوا یعنی آج کا ارب کھرب پتی کہئے اور " محمد سلطا ن" کا خطاب پایا۔ لاہور کا
سلطان کہلایا۔ غریبوں نے بھی اس کی دولت سے فیض پایا اور کوئی سائل کبھی خالی ہاتھ نہ آیا۔ لُنڈے بازار کو قائم اور آباد کرنے کے لئے براہِ فیاضی اپنی زندگی میں دکانداروں کو کرایہ بھی معاف رہا۔ کئی مساجد بنوائیں ۔مگر ایک خرابی اس عروج میں تھی مغلیہ دور کی چھوٹی اینٹ کی ہوس تھی
اس اینٹ کو حاصل کرنے کے لئے کئی اہم نادر اعمارتیں خرید کر گرا دیں ۔ لاہور کے دروازے گرائے۔

عہدِ شاہان سلف کی یادگاریں زمیں بوس کر دیں، مغلیہ دور کی مساجد کا تو کوئی حساب نہیں تھا کتنی شہید کیں اور کتنی چھوڑیں۔ صرف ایک اینٹ کی طمع میں جو انگریزوں کو خوش کرنے کے لئے مختلف
عمارتوں میں استعمال کیں گیئں۔

پھر قدرت کی گرفت آئی۔ صحت بھی گئی دولت بھی گئی۔

لاکھوں کا قرض چڑھا جو تمام جائیدادیں مہاراجہ جموں کو رہن رکھ کر ادا کیا گیا اور خود کے لئے پانچ سو روپے ماہوار مقرر کروا لیا۔ بے اولاد تھا سو تمام جائیداد کا وارث وہ سراج الدین معالج پایا.
جس نے آخری دنوں میں علاج کیا۔ میانی صاحب میں دفن کر دیا گیا۔ آج نام و نشان بھی نہیں کوئی نام لیوا بھی نہیں۔

سچ ہے رب کی لاٹھی بڑی بے آواز ہے ۔

زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے۔

دریں بستاں بے گلہا شگفتند
مگر آخر زیدہ رخ نہفتند
plz compile: @threadreaderapp

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with Kashif Chaudhary

Kashif Chaudhary Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @kashifch

30 Jan
امبر کمرہ(Amber Room)
روس کا دنیا کا آٹھواں عجوبہ اور اسکی گمشدگی کی حیرت انگیز داستان

آئیے آپ کو دنیا کے آٹھواں عجوبے کا تعارف اور اس سے جڑی ایک داستان سنائیں جس کے بارے میں اکثر نے شاید نہ سنا ہو۔ کہانی طویل ہے تسلیّ سے وقت نکال کر پڑھئے گا

ٰImage Courtesy Wiki-Comm
1\13 ImageImage
امبر: درختوں سے نکلنے والی گوند جو جیو اشم / Fossil بن چکی ہو۔ یہ انتہائی کمیاب اور قیمتی تصور کی جاتی ہے۔ قدیم یورپ میں اس کو بلا اجازت زمین سے نکالنا موت کی سزا کا مرتکب بنتا تھا۔

1701 میں اس وقت کی جرمن ریاست پورشیا کا پہلا بادشاہ فریڈرک برلن محل کے ایک کمرے
13\2
کو اپنی بیگم صوفیہ کی خواہش پر امبر کے 450 کلو ٹکڑوں ، سونے اور شیشوں سے مزین کروانے کا حکم دیتا ہے۔

اس کا ڈیزائن مشہور جرمن سنگ تراش انڈراس نے تیار کیا ۔ اس کے لئے یورپ بھر سے امبر کے ماہر کاریگر منگوائے گئے ۔ یہ اپنے آپ میں ایک عجوبہ تھا
13\3
Read 13 tweets
29 Dec 20
Princess Bamba Sutherland
(29 Sep 1869 – 10 Mar 1957)
لاہور سے محبت کی ایک الگ داستان
ّ___________________________________

پرنسس بمبا سدرلینڈ ، سکھ شاہی خاندان جس نے پنجاب پر حکومت کی اس کی آخری نشانی اور شخصیت تھیں۔
مہاراجہ دلیپ سنگھ کی بیٹی اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پوتی برطانیہ میں اس وقت پیدا ہوئی جب انکے والد وہاں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ اکسفورڈ میں پڑھیں ، بعد میں امریکہ سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی اور ملکہ برطانیہ کا قرب بھی حاصل ہوا۔
۱۹۱۵ میں برطانیہ کی قدرے خوشحال زندگی چھوڑ کر لاہور آباد ہو گئیں۔
ڈاکٹر ڈیوس سدرلینڈ سے انکی شادی ہوئی جو کنگ ایڈورڈ کالج کے پرنسپل بھی رہے۔ لاہور کے علاقے ماڈل ٹاون میں-A104 بلاک میں ایک گھر خریدا ۔ وہاں سرخ گلابوں کا ایک وسیع باغ اپنے ہاتھ سے لگایا
Read 9 tweets
1 Dec 20
گزشتہ سے پیوست ۔ حصہ دوئم

مقبرہ زیب النسا٫ ۔ موضع نواں کوٹ ۔۔ لاہور
ََََّّ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چوبرجی باغ کی بانیہ اور اعلیٰ درجے کی شاعرہ بہ تخلص "مخفیؔ" اورنگ زبیب عالمگیر کی بیٹی، لاہور کے علاقے نواں کوٹ میں اس باغ میں مدفن ہیں جو خود اپنے ہاتھوں تعمیر کروایا۔
ایک دوسری رائے یہ بھی ملتی ہے کہ جب باپ نے بیٹی کو عمر قید کی سزا دی توان کی وفات دہلی کے اس قلعہ میں ہوئی جہاں وہ قید کی گیئں اور وہیں مدفن ہوئیں

مقبرے کا باغ جو اب نا پید ہے اور حوادثِ زمانہ ہو چکا خوبصورتی میں شالیمار سے دوسرے درجہ پر تھا اور لاکھوں کے خرچ پر بنایا گیا۔
مقبرہ باغ کے بیچ میں واقع تھا چار داخلی رستے تھے جن سے ہاتھی بھی گزر سکتے تھے۔ صدر دروازہ ، مقبرہ کی عمارت اور دو حفاظتی مینار اب بھی قائم ہیں اگرچہ اب عین آبادی کے بیچ و بیچ ہیں مگر حکومت ِ وقت سے توجہ اور مرمت کے طالب ہیں۔
Read 6 tweets
14 Nov 20
چوبرجی اورشہزادی زیب النساء بیگم المتخلص بہ مخفی
حصہ ٴ اول
__________
میرا بچپن لاہور کے علاقے سمن آباد میں گزرا اور چوبرچی کے آگے سے گزرانا ایسا ہی تھا کہ محلے کی دکان کے آگے سے گزرنا، لیکن یہ خیال ہمیشہ ذہن میں رہا کہ یہ کیا عمارت ہے۔

Insets: Chauburji Lahore
اینٹ سیمنٹ کے ڈھیر میں ایک خوشنماء عمارت جیسےکسی زنگ آلودہ لوہے کے تاج میں جَڑے روشن نگینے کی ماند۔

چوبرجی، نام چار بُرج یا مینار کے حوالے سے ہے، اصل میں اس شاندار باغ کا صدر دروازہ تھا جس کو شہزادی زیب النساء بیگم المتخلص بہ مخفی دخترِ نیک اخترشاہ عالمگیر نے لاکھوں روپے
میں بنوایا تھا۔ اگرچہ کچھ حوالے اس کی تعمیر کے شاہ جہاں کی دخترِعزیز جہاں آرا بیگم یعنی بیگم زیب النساء کی پھوپھی کی طرف بھی جاتے ہیں مگر رائے بہادر کنہیا لال کی رائے میں اس کی بانیہ زیب النساء بیگم ہی ہیں اور زیبندہ بیگم دوراں اور زیب النساء دنوں ایک ہی نام ہیں۔
Read 6 tweets
6 Nov 20
سیّد مِٹھا۔۔۔حضرت معین الدین رحمة اللہ

لاہور جہاں بادشاہوں کی اور ان کے فن تعمیر کی ثقافتی تاریخ کا الٰم بردار ہے وہیں اللہ نے اس شہرِ بے مثال کو بہت سے بلند پایا بزرگوں اور اولیاءاللہ سے بھی نوازہ اور یہ شہر انکے مدفن ہونےکا شرف بھی رکھتا ہے۔

Picture credit: Wasif Hassan
محترم @asadjaffery371 صاحب نے اس طرف توجہ دلائی کہ لاہور کے صوفیوں کا بھی کچھ تذکرہ ہونا چاہیے تو آئیے چند ایسے مزارات پر جواندرون لاہور کا تاریخی ورثہ ہیں، پر نظر ڈالتے ہیں۔

عبادت گزاری تو صرف اللہ کے لئے ہی ہے اور ہر ولی اپنی عبادت و ریاضت و زہد و علم و فضل کے حوالے سے ہی
ولی اللہ کا درجہ پاتا ہے اور اپنی کسی کرامت کے ظہور سے ایک خاص لقب سے عوام میں مشہور ہوتا ہے لیکن ایک ایسے بزرگ بھی ہیں جو کسی کرامت کی بجائے صرف اپنی شیریں زبانی کے حوالے سے سّید مِٹھا کہلائے۔۔۔ حضرت معین الدین رحمة اللہ ( پنجابی زبان میں مِٹھا،شیریں کو کہتے ہیں)۔
Read 7 tweets
30 Oct 20
سوال کیا جاتا ہے لاہور میں ایسا کیا ہے ایک شہر ہی تو ہے، یہ محض ایک شہر نہیں ایک تہذیب کا بھی نام ہے

اندرون ِلاہور تہواروں کو منانے کےاپنے ہی طور طریق ہیں آپ کسی بھی فقہہ کو مانتے ہوں جتنے دل و جاں سے محرم کا احترام و اہتمام کیا جاتا ہے
Insets Muhala Muhammadi Inside Delhi Gate
اتنے ہی جوش و جذبے اور عقیدت و احترام سے ربیع اول کا جشن منایا جاتا ہے۔ آج عید میلادالنبی ﷺ ہے آئیے اندرون چلتے ہیں

یہ اندرون دہلی دروازہ ہے۔۔ محمدی محلہّ
بمشکل 6 سے 8 فٹ چوڑائی کی گلی ہے جس میں 20 سے 25 گھر ہونگے۔گلی ایک مسجد پر جا کر بند ہوجاتی ہے۔ ہر گھر کم و بیش 10 ایک فٹ
چوڑائی رکھتا ہے اور اسکے دو دروازے ایک ڈیوڑھی اور دوسرا بیٹھک کا گلی میں کھلتا ہے۔ اس جشن کے موقع پر ہر دروازہ وا ہے۔

ساری گلی کو تازہ شوخ رنگ و روغن کیا گیا ہے۔ شاید ہی کوئی کونا رہ گیا ہو جس کو سجایا نہیں گیا اور یہ ساری محنت محلے کی خواتین کی ہے۔گھروں کی اگر کوئی فصیل تھی
Read 8 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!