امبر کمرہ(Amber Room)
روس کا دنیا کا آٹھواں عجوبہ اور اسکی گمشدگی کی حیرت انگیز داستان
آئیے آپ کو دنیا کے آٹھواں عجوبے کا تعارف اور اس سے جڑی ایک داستان سنائیں جس کے بارے میں اکثر نے شاید نہ سنا ہو۔ کہانی طویل ہے تسلیّ سے وقت نکال کر پڑھئے گا
ٰImage Courtesy Wiki-Comm
1\13
امبر: درختوں سے نکلنے والی گوند جو جیو اشم / Fossil بن چکی ہو۔ یہ انتہائی کمیاب اور قیمتی تصور کی جاتی ہے۔ قدیم یورپ میں اس کو بلا اجازت زمین سے نکالنا موت کی سزا کا مرتکب بنتا تھا۔
1701 میں اس وقت کی جرمن ریاست پورشیا کا پہلا بادشاہ فریڈرک برلن محل کے ایک کمرے
13\2
کو اپنی بیگم صوفیہ کی خواہش پر امبر کے 450 کلو ٹکڑوں ، سونے اور شیشوں سے مزین کروانے کا حکم دیتا ہے۔
اس کا ڈیزائن مشہور جرمن سنگ تراش انڈراس نے تیار کیا ۔ اس کے لئے یورپ بھر سے امبر کے ماہر کاریگر منگوائے گئے ۔ یہ اپنے آپ میں ایک عجوبہ تھا
13\3
کہ کسی ایک جگہ پر اتنی بڑی تعدا د میں امبر کے ٹکڑے موجود ہوں۔
1716میں جب روس کے بادشاہ پیٹر دی گریٹ نے پورشیا کا دورہ کیا تو فریڈرک کے بیٹے نے جرمن روس کی دوستی کی بنیاد امبر روم کو تحفہ میں دے کر رکھی۔
جرمن اور روسی ماہرین نے ایک طویل عرصے کام کر کے پیٹرزبرگ محل
13\4
میں کمرہ تیا ر کیا جو پہلے سے کئی گنا بڑا اور چھ ٹن امبر سے تیار کیا گیا۔
اصل کہانی اب شروع ہوتی ہے۔ دوسری جنگ ِ عظیم 1941کے دوران جرمن کے روس پر قبضے کے دوران، ہٹلر کے حکم جرمن ماہرین کی ایک ٹیم نے اس کمرے سے امبر کے نوادرات اتار کر جرمنی بھیج دیئے
13\5
جن کو کونگبرگ قلعے میں سجا دیا گیا ۔ جب 1945 اتحادی افواج نے کونگبرگ پر حملہ کیا تو وہ آخری دن تھا جب امبر کمرے کو دیکھا گیا
ہٹلر نے حکم دیا کہ اس کمرے کو خالی کرکے امبر کے ٹکڑوں کو پیٹیوں میں بند کرکے کسی نہ معلوم مقام پر بھیج دیا جائے۔ اس حکم پر عمل ہوا یا نہیں
6\13
یہ تاریخ کی ایک گتھی ہے۔ شہر پراتنی شدید بمباری ہوئی کہ کونگبرگ قلعہ کھنڈر بن گیا اور بلاآخر 1960 میں روسیوں نے اس کو زمین بوس کر دیا گیا۔ مگر امبر کمرے کا کچھ نشان نہ ملا۔
1945سے ہی ماہرین اس تحقیق میں رہے کہ اس شاہکار کے ساتھ کیا ہوا۔ ہٹلر اور جرمن فوج نے تقریباً
13\7
چھ لاکھ نوادرات چرائے اور کسی بھی دستاویزی ثبوت کے بغیر انکو نامعلوم مقامات میں چھپا دیا گیا۔ جن میں سے کچھ مل سکے باقیوں کا کچھ پتا نہیں۔ اس سارے خزانے میں امبر روم کا وہی مقام ہے جو تاجِ برطانیہ میں کوہِ نور ہیرے کا۔
تحقیقاتی ٹیمیں بنائی گیئں جن کے مطابق:
13\8
ایک مفروضہ یہ تھا کہ دورانِ جنگ وہ کمرہ تباہ و برباد ہو گیا مگر تما م تر کوشیشوں کے بعد بھی کوئی سراغ ملبےسے نہ ملا۔
ایک مفروضہ یہ بھی تھا کہ جس جہاز میں اس کو منتقل کیا گیا وہ اتحادی فوجوں نے ڈبو دیا تھا۔ اس کے ملبے کو بھی گھنگال لیا گیا مگر کچھ نہ ملا۔
13\9
ایک مفرضہ یہ بھی ہے کہ مشرقی جرمنی کے دور 1960 میں روسی فوجیوں نے جب کونگبرگ قلعہ کے کھنڈرات کو زمین بوس کیا تو اس کاروائی میں امبر کی پیٹیاں بھی برباد ہوگئیں۔ اس کی تحقیق کرنے والے دو ایم افراد قتل ہوئے اور کہا جاتا ہے یہ کے جی بی کی کاروائی تھی تاکہ یہ راز ہی رہے۔
13\10
ایک اطالوی فوجی کے پوتے کے قبضے سے اس خزانے کا ایک صرف ٹکڑا ملا تھا ۔ فوجی کے بیان کے مطابق جس نے خود کو چشم دید گواہ کہا اور بیان دیا کہ امبر کی پیٹیاں قلعے کے پچیدا تہہ خانے میں رکھی گئ تھیں ۔ مگر ساری کھدائی کے با وجود کچھ نہ ملا۔
13\11
بہرحال 1979 میں روس نے اس کمرے کا ریپلیکا تیار کرنے کا عہد کیا اور پھر روسی اور جرمن ماہرین کی ایک ٹیم بنائی گی ۔ اس میں جرمنی نے معالی معاونت بھی کی۔ اس ٹین نے اطالوی فوجی سے ملے واحد ٹکڑے اور کوئی 1941 سے پہلی کھینچی گئی سو ایک تصویروں سے پورے کمرے کو دوبارہ
13\12
ڈیئزائن کیا اور 23 سال کی محنت کے بعد 2004 میں اس کو عوام کی نمائش کے لئے کھول دیا گیا۔
آج یہ روس میں ایک مقبول ترین ساحتی مقام ہے۔
لیکن اصل امبر روم کہا گیا یہ دوسری جنگِ عظیم کے اہم رازوں میں سے ایک راز ہی رہا جس پر سے کبھی شاید پردہ نہ اُٹھایا جا سکے۔
13\13
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
لاہور کا قلعہ نما ریلوے سٹیشن اور میاں سلطان ٹھیکیدار!
لاہور کا پُرشکوہ ریلوے سٹیشن جب تعمیر ہوا تو اپنی نظیر آپ تھا۔ اس کا ڈئیزائن ایک قرون وسطی کے قلعہ کی طرز پر رکھا گیا۔ 1857 کی جنگِ آزادی کے فورا ً بعد ہی اس کی تعمیر شروع کر دی گئ تھی۔
مگر باقاعدہ سنگِ بنیا د 1859 میں رکھا گیا اور 1860 میں پہلی ریل گاڑی امرتسر کو جاری کی گئی تھی۔
مگر آج ریلوے سٹیشن کا تعارف مقصود ِقلم نہیں۔ بات اس شخص کی کرنی ہے
جس نے اس کی تعمیر کو ممکن بنایا:میاں محمد سلطان مختصر تعارف اس لیئے کروایا تاکہ ذہن میں رہے کہ اس شخصیت کی اہمیت ومقام کیا رہا ہوگا جس کے زمہ انگریز حکومت نے اتنے اہم منصوبہ کی تعمیر لگائی۔ اتنی قلیل مدت میں اتنی شاندار عمارت کی تعمیر بلا شبہ ایک کارنامہ ہائے دیدنی تھا۔
Princess Bamba Sutherland
(29 Sep 1869 – 10 Mar 1957)
لاہور سے محبت کی ایک الگ داستان
ّ___________________________________
پرنسس بمبا سدرلینڈ ، سکھ شاہی خاندان جس نے پنجاب پر حکومت کی اس کی آخری نشانی اور شخصیت تھیں۔
مہاراجہ دلیپ سنگھ کی بیٹی اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پوتی برطانیہ میں اس وقت پیدا ہوئی جب انکے والد وہاں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ اکسفورڈ میں پڑھیں ، بعد میں امریکہ سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی اور ملکہ برطانیہ کا قرب بھی حاصل ہوا۔
۱۹۱۵ میں برطانیہ کی قدرے خوشحال زندگی چھوڑ کر لاہور آباد ہو گئیں۔
ڈاکٹر ڈیوس سدرلینڈ سے انکی شادی ہوئی جو کنگ ایڈورڈ کالج کے پرنسپل بھی رہے۔ لاہور کے علاقے ماڈل ٹاون میں-A104 بلاک میں ایک گھر خریدا ۔ وہاں سرخ گلابوں کا ایک وسیع باغ اپنے ہاتھ سے لگایا
چوبرجی باغ کی بانیہ اور اعلیٰ درجے کی شاعرہ بہ تخلص "مخفیؔ" اورنگ زبیب عالمگیر کی بیٹی، لاہور کے علاقے نواں کوٹ میں اس باغ میں مدفن ہیں جو خود اپنے ہاتھوں تعمیر کروایا۔
ایک دوسری رائے یہ بھی ملتی ہے کہ جب باپ نے بیٹی کو عمر قید کی سزا دی توان کی وفات دہلی کے اس قلعہ میں ہوئی جہاں وہ قید کی گیئں اور وہیں مدفن ہوئیں
مقبرے کا باغ جو اب نا پید ہے اور حوادثِ زمانہ ہو چکا خوبصورتی میں شالیمار سے دوسرے درجہ پر تھا اور لاکھوں کے خرچ پر بنایا گیا۔
مقبرہ باغ کے بیچ میں واقع تھا چار داخلی رستے تھے جن سے ہاتھی بھی گزر سکتے تھے۔ صدر دروازہ ، مقبرہ کی عمارت اور دو حفاظتی مینار اب بھی قائم ہیں اگرچہ اب عین آبادی کے بیچ و بیچ ہیں مگر حکومت ِ وقت سے توجہ اور مرمت کے طالب ہیں۔
چوبرجی اورشہزادی زیب النساء بیگم المتخلص بہ مخفی
حصہ ٴ اول
__________
میرا بچپن لاہور کے علاقے سمن آباد میں گزرا اور چوبرچی کے آگے سے گزرانا ایسا ہی تھا کہ محلے کی دکان کے آگے سے گزرنا، لیکن یہ خیال ہمیشہ ذہن میں رہا کہ یہ کیا عمارت ہے۔
Insets: Chauburji Lahore
اینٹ سیمنٹ کے ڈھیر میں ایک خوشنماء عمارت جیسےکسی زنگ آلودہ لوہے کے تاج میں جَڑے روشن نگینے کی ماند۔
چوبرجی، نام چار بُرج یا مینار کے حوالے سے ہے، اصل میں اس شاندار باغ کا صدر دروازہ تھا جس کو شہزادی زیب النساء بیگم المتخلص بہ مخفی دخترِ نیک اخترشاہ عالمگیر نے لاکھوں روپے
میں بنوایا تھا۔ اگرچہ کچھ حوالے اس کی تعمیر کے شاہ جہاں کی دخترِعزیز جہاں آرا بیگم یعنی بیگم زیب النساء کی پھوپھی کی طرف بھی جاتے ہیں مگر رائے بہادر کنہیا لال کی رائے میں اس کی بانیہ زیب النساء بیگم ہی ہیں اور زیبندہ بیگم دوراں اور زیب النساء دنوں ایک ہی نام ہیں۔
لاہور جہاں بادشاہوں کی اور ان کے فن تعمیر کی ثقافتی تاریخ کا الٰم بردار ہے وہیں اللہ نے اس شہرِ بے مثال کو بہت سے بلند پایا بزرگوں اور اولیاءاللہ سے بھی نوازہ اور یہ شہر انکے مدفن ہونےکا شرف بھی رکھتا ہے۔
Picture credit: Wasif Hassan
محترم @asadjaffery371 صاحب نے اس طرف توجہ دلائی کہ لاہور کے صوفیوں کا بھی کچھ تذکرہ ہونا چاہیے تو آئیے چند ایسے مزارات پر جواندرون لاہور کا تاریخی ورثہ ہیں، پر نظر ڈالتے ہیں۔
عبادت گزاری تو صرف اللہ کے لئے ہی ہے اور ہر ولی اپنی عبادت و ریاضت و زہد و علم و فضل کے حوالے سے ہی
ولی اللہ کا درجہ پاتا ہے اور اپنی کسی کرامت کے ظہور سے ایک خاص لقب سے عوام میں مشہور ہوتا ہے لیکن ایک ایسے بزرگ بھی ہیں جو کسی کرامت کی بجائے صرف اپنی شیریں زبانی کے حوالے سے سّید مِٹھا کہلائے۔۔۔ حضرت معین الدین رحمة اللہ ( پنجابی زبان میں مِٹھا،شیریں کو کہتے ہیں)۔
سوال کیا جاتا ہے لاہور میں ایسا کیا ہے ایک شہر ہی تو ہے، یہ محض ایک شہر نہیں ایک تہذیب کا بھی نام ہے
اندرون ِلاہور تہواروں کو منانے کےاپنے ہی طور طریق ہیں آپ کسی بھی فقہہ کو مانتے ہوں جتنے دل و جاں سے محرم کا احترام و اہتمام کیا جاتا ہے
Insets Muhala Muhammadi Inside Delhi Gate
اتنے ہی جوش و جذبے اور عقیدت و احترام سے ربیع اول کا جشن منایا جاتا ہے۔ آج عید میلادالنبی ﷺ ہے آئیے اندرون چلتے ہیں
یہ اندرون دہلی دروازہ ہے۔۔ محمدی محلہّ
بمشکل 6 سے 8 فٹ چوڑائی کی گلی ہے جس میں 20 سے 25 گھر ہونگے۔گلی ایک مسجد پر جا کر بند ہوجاتی ہے۔ ہر گھر کم و بیش 10 ایک فٹ
چوڑائی رکھتا ہے اور اسکے دو دروازے ایک ڈیوڑھی اور دوسرا بیٹھک کا گلی میں کھلتا ہے۔ اس جشن کے موقع پر ہر دروازہ وا ہے۔
ساری گلی کو تازہ شوخ رنگ و روغن کیا گیا ہے۔ شاید ہی کوئی کونا رہ گیا ہو جس کو سجایا نہیں گیا اور یہ ساری محنت محلے کی خواتین کی ہے۔گھروں کی اگر کوئی فصیل تھی