کہا جاتا ہے کہ صرف پنجاب میں مزارات کی تعداد 598 ہے اور ان میں سے کم و بیش چونسٹھ درباروں کے گدی نشین، متولی اور پیر آج بھی براہ راست سیاسی نظام میں حصہ دار ہیں۔۔۔
جھنگ، پاکپتن، ساہیوال، وہاڑی، منڈی بہاو الدین، اوکاڑہ، حجرہ شاہ مقیم
سرگودھا،
ملتان، چشتیاں، خیرپور ٹامیوالا کے گدی نشین براہ راست انتخابات میں حصہ لیتے ہیں،
یہاں کےگدی نشین پہلی بار جنگ آزادی کے مجاہدین کو کچلنے کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی کے دست راست بنے اور ان گدی نشینوں نے انگریزوں کے حق میں فتویٰ دیا اور جنگ کو بغاوت قرار دیا
اور انعام کے طور پر++
جاگیریں پائیں۔
یہی وجہ تھی کہ ان گدی نشینوں کو انگریزوں نے نوآبادیاتی عہد کے پاور سٹرکچر میں شامل کیا اور کورٹ آف وارڈز کے ذریعے سے انھیں مستقل سیاسی طاقت دی گئی۔
کورٹ آف وارڈز سسٹم کے تحت جن گدی نشینوں
کو جاگیریں دی گئیں ان کی تفصیلات بھی ملاحظہ کیجئے:
1930ء میں شاہ پور کے++
غلام محمد شاہ، ریاض حسین شاہ کو 6423 ایکٹرز جاگیر، اٹک کے سردار شیر محمد خان کو 25185 ایکٹرز، جھنگ کے شاہ جیونا خاندان کے خضر حیات شاہ، مبارک علی،
عابد حسین کو 9564 ایکٹرز،
ملتان کے سید عامر حیدر شاہ، سید غلام اکبر شاہ، مخدوم پیر شاہ کو 11917 ایکٹرز، ملتان کے گردیزی سید جن میں++
سید محمد نواز شاہ، سید محمد باقر شاہ، جعفر شاہ کو 7165 ایکٹرز، جلال پور پیر والا کے سید غلام عباس، سید محمد
غوث کو 34144 ایکٹرز، گیلانی سید آف ملتان جس میں سید حامد شاہ اور فتح شاہ کے نام 11467 ایکڑ، دولتانہ خاندان کے اللہ یار خان آف لڈھن کو 21680 ایکڑ،
ڈیرہ غازی خان کے++
میاں شاہ نواز خان آف حاجی پور کو 726ایکٹرز، مظفر گڑھ کے ڈیرہ دین پناہ خاندان کے ملک اللہ بخش،
قادر بخش، احمد یار اور نور محمد کو 2641 ایکٹرز اور ستپور کے مخدوم شیخ محمد حسن کو 23500ایکٹرز جاگیر دی گئی۔
آج ان خانوادوں کے جانشین اور اولادیں صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر++
براجمان ہیں اور جمہوریت کے چمپئن ہیں۔
برطانوی استعمار نے جاگیریں دینے کے ساتھ ساتھ درباروں کے گدی نشین خاندانوں کو ذیلدار کے عہدوں پر بھی تعینات کیا۔
اس میں مظفر گڑھ سےدیوان محمد غوث، سید باندے شاہ، خان صاحب مخدوم محمد حسن، سید تراب علی شاہ، سید عامر
احمد شاہ، سید غلام سرور شاہ++
سید جند وڈا شاہ، میانوالی سے سید قائم حسین شاہ، غلام قاسم شاہ، شاہ پور سے پیر چن پیر، سید نجف شاہ، فیروز دین شاہ، پیر سلطان علی شاہ، علی حیدر شاہ، جھنگ سے محمد شاہ، اللہ یار شاہ، محمد غوث اور بہادر شاہ کو ذیلدار
کا عہدہ دیا گیا۔
ہندستان پر برطانوی تسلط کے 180 سال بعد 1937ء میں++
محدود جمہوری انتخابات کرائے تو یونینسٹ پارٹی میں شامل یہی جاگیردار، گدی نشین اور پیروں کو منتخب کرایا گیا،
1946ء کے انتخابات میں بھی یہی خاندان برسر اقتدار آئے۔
جنوبی پنجاب کے گیلانی،
قریشی، ڈیرہ غازی خان کے علاوہ وسطی پنجاب سے پیر نصیر الدین شاہ آف کمالیہ، شاہ جیونا آف جھنگ++
مخدوم سید علی رضا شاہ آف سندھلیانوالی، مخدوم ناصر حسین شاہ، پیر محی الدین لال بادشاہ آف مکہد شریف اٹک نمایاں تھے۔
یہی خاندان یونینسٹ پارٹی کو چھوڑ
کر آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور اپنے مفادات کو پاکستان کی حمایت سے جوڑ دیا۔
قیام پاکستان کے بعد ان گدی نشین پیروں نے قومی++
جمہوری اور مارشل لاء کی سیاست میں مستقل طور پر اپنا وجود قائم کر لیا۔
ایوب خان کے بنیادی جمہوریتوں کے
تصور سے لے کر ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ میں اسلامائزیشن کے تصور کو رائج کرنے اور جنرل پرویز مشرف کے روشن خیال تصورات کی حمایت میں یہ گدی نشین پیش پیش رہے۔
قومی و صوبائی سیاست میں++
نمائندہ درباروں کے یہ با اثر گدی نشین اور پیروں
کے حلقہ جات کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہاں شرح خواندگی تشویش ناک حد تک کم ہے۔
درباروں کے یہ مذہبی نمائندے اپنے مُریدوں سے نزرانے، منتیں، مرادیں لیتے ہیں اور محکمہ اوقاف پر ان کا ہمیشہ مکمل کنٹرول رہا ہے۔
گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی++
میں وزیر اوقاف
نے رپورٹ جمع کرائی کہ محکمہ کے زیر انتظام مزارات کی تعداد 544 ہے اور ان مزارات سے سالانہ آمدن ڈیڑھ ارب سے زائد ہوتی ہے،
یعنی سرکار کے کھاتے میں مُریدوں اور زائرین کے نذرانوں سے بس اتنی رقم جمع ہوتی ہے۔
مزارات سے منسلک زرعی جاگیروں پر ملی بھگت
سے مقامی افراد قابض++
ہیں اور ان جاگیروں کا رقبہ سینکڑوں ایکڑز ہے۔
متعدد مزارات کی گدی نشینی دراصل اب جانشینی میں تبدیل ہو چکی ہے اور انھی گدی نشینوں یا متولیوں کے تحت ہی سالانہ عرُس کی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے!
یا جہالت تیرا ہی آسرا !!!!
آج کے دور میں میں تقریباً ہر گاوں میں 1 علیحدہ دربار ہے.
جہالت عروج پے ہے.
تقریباً بر دربار کے نام لے کچھ زمین ہے.
جب کہ مسجد کا انتظام چلانے کے لیے چندہ اکٹھاکیا جاتا ہے.
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
گزشتہ ساڑھے پانچ صدیوں میں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قبر مبارک تک نہیں جا سکا ہے۔
وہ حجرہ شریف جس میں آپ اور آپ کے دو اصحاب کی قبریں ہیں، اس کے گرد ایک چار دیواری ہے، اس چار دیواری سے متصل ایک اور دیوار ہے جو پانچ دیواروں پر مشتمل ہے۔
یہ پانچ کونوں والی دیوار حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے بنوائی تھی۔ اور اس کے پانچ کونے رکھنے کا مقصد اسے خانہ کعبہ کی مشابہت سے بچانا تھا۔
اس پنج دیواری کے گرد ایک اور پانچ دیواروں والی فصیل ہے۔ اس پانچ کونوں والی فصیل پر ایک بڑا سا پردہ یا
غلاف ڈالا گیا ہے۔ یہ سب دیواریں بغیر دروازے کے ہیں،
لہذا کسی کے ان دیواروں کے اندر جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
روضہ رسولؐ کی اندر سے زیارت کرنے والے بھی اس پانچ کونوں والی دیوار پر پڑے پردے تک ہی جا پاتے ہیں۔
روضہ رسولؐ پر سلام عرض کرنے والے عام زائرین جب سنہری جالیوں کے
ایک دفعہ موسی علیہ السلام نے اللہ رب العزت سے عرض کیا ۔
اے میرے مالک جنت میں میرے ساتھ کون ھوگا ۔
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا فلاں قصاب آپ کے ساتھ جنت میں ھوگا۔
موسی علیہ السلام ایک لمحے کے لیے حیران ھوگئے ۔
اور پھر اس قصاب کو ڈھونڈنے نکل گئے ۔
آخر کار وہ قصاب اسے مل گیا ۔
موسی علیہ السلام نے اس قصاب سے کہا میں آج آپ کے ساتھ بطور مہمان رہنا چاہتا ہوں۔
قصاب بھی راضی ھوا۔
قصاب نے جب گوشت ختم کیا تو ایک ٹکڑا ایک کپڑے میں لپیٹا اور گھر کے لیے نکل گیا۔
اور موسی علیہ السلام اسکے ساتھ چلے گئے۔
قصاب جب گھر پہنچے تو وہ گوشت اچھی طرح پکایا۔
اور اسکے بعد روٹی پکائی اور دوسرے کمرے میں گیا جہاں ایک بوڑھی عورت لیٹی تھی اسے سہارا دیا بٹھایا اور پھر یہ کھانا اسے کھلایا
ایسا عظیم شخص جس نے 1994ء میں کنگ فیصل ایوارڈ کو یہ کہتے ہوئے ٹھکرایا کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے لکھا ہے لہذا مجھ پر میرے دین کو خراب نہ کریں.
ایک ایسا عظیم شخص جس نے فرانس کی نیشنیلٹی کو یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دی کہ مجھے اپنی
مٹی اور اپنے وطن سے محبت ہے.
ایک ایسا عظیم شخص جس کے ہاتھ پر 40000 غیر مسلموں نے کلمہ طیبہ پڑھا.
ایک ایسا عظیم شخص جو 22 زبانوں کا ماہر تھا اور 84 سال کی عمر میں آخری زبان تھائی سیکھ لی تھی.
ایک ایسا عظیم شخص جس نے مختلف
زبانوں میں 450 کتابیں اور 937 علمی مقالے لکھے.
ایک ایسا عظیم شخص جو اس قدر علمی مقام رکھنے کے باوجود اپنے برتن اور کپڑے خود دھوتے تھے.
ایک ایسا عظیم شخص جسے 1985 میں پاکستان نے اعلی ترین شہری اعزاز ہلال امتیاز سے نواز تو اعزاز کے ساتھ
علامہ اقبال یورپ کے دورے پر تھے-
ایک روز شام کے وقت ایک پارک میں بچوں کو کھیلتے دیکھ لطف اندوز ہورہے تھے-
اچانک ان کی نگاہ پارک کے کونے میں بیٹھے ایک ایسے بچے پر پڑی جو پڑھائی کر رہا تھا-
علامہ اقبال کو حیرت ہوئی-
کیونکہ وہ بچوں کی فطرت (child psychology) سے
بخوبی واقف تھے، اس لئے بچے کو پڑھتا دیکھ انہیں ذرا تعجب ہوا-
انہیں عجیب لگا کہ ایک بچہ اس ماحول میں پڑھ بھی سکتا ہے-
انہیں یہ بچہ کچھ extra ordinary لگا-
وہ اٹھ کر اس بچے کے پاس گئے،
اور اس سے بولے،
"
کیا آپ کو کھیلنا پسند نہیں؟"
بچے کے جواب نے انہیں حیران کردیا-
" ہم دنیا میں مٹھی بھر ہیں، اگر میں کھیلنے میں وقت ضائع کروں گا تو میری قوم مٹ جائے گی،
مجھے اپنی قوم کو بچانا ہے-"
علامہ: "آپ کس قوم سے ہو"؟
بچہ: " میں یہو...*.دی ہوں"-
شیخ ابن النر غب یمنی کی عادت تھی کہ ہمیشہ اپنے وطن سے سفر کرکے اول حج ادا کرتے اور پھر زیارت روضہ رسول ﷺ کیلئے حاضر ہوتے تھے۔ دربار کی حاضری کے وقت والہانہ اشعار قصیدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ ﷺ کے صاحبین حضرت صدیق اکبر اور فاروق اعظم کی شان
میں لکھ کر روضہ اقدس کے سامنے پڑھا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ وہ حسب عادت قصیدہ پڑھ کر فارغ ہوئے تو ایک رافضی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ آج میری دعوت قبول کیجئے۔ حضرت شیخ نے تواضع کی بناء پر اتباع سنت کی نیت سے دعوت قبول کر لی آپ کو اس کا
حال معلوم نہ تھا کہ وہ رافضی ہے اور حضرت صدیق اکبر اور فاروق اعظم کی مدح کرنے سے ناراض ہے،
آپ حسب وعدہ اس کے مکان پر تشریف لے گئے مکان میں داخل ہوتے ہی اس نے اپنے دو حبشی غلاموں کو، جن کو پہلے سے سمجھا رکھا تھا، اشارہ کیا، وہ دونوں اس اللہ
سعودی عرب میں کھجوروں اور چشموں کا ایک ایسا نادر و نایاب گاؤں موجود ہے جو اپنے دامن میں دو ہزار سال کی تاریخ رکھتا ہے۔ سعودی عرب میں مدینہ منورہ کے علاقے ‘یبنع النخل’ میں 2 ہزار سال پرانا ایک ایسا تاریخی گاؤں موجود ہے جو پانی کے کنوؤں، چشموں اور کھجوروں
کے لیے مشہور ہے۔ اس گاؤں میں میٹھے پانی کے 99 چشمے ہیں۔یہاں پر اسلام کے ابتدائی دور اور اس سے قبل کے دور کی کئی کہانیاں، واقعات، آثار اور باقیات دیکھنے کو ملتی ہیں جو اپنے ناظرین کو ہزاروں سال پیچھے لے جاتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ 1400 سال قبل تک شام سے
حجاز کی طرف آنے والے تجارتی قافلے اسی علاقے سے گزرتے تھے اور ظہور اسلام کے بعد یہ علاقہ تجارتی اور حجاج کرام کے قافلوں کی گزرگاہ بن گیا۔
اس گاؤں کے تاریخی پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے سعودی فوٹو گرافر اور