علامہ اقبال یورپ کے دورے پر تھے-
ایک روز شام کے وقت ایک پارک میں بچوں کو کھیلتے دیکھ لطف اندوز ہورہے تھے-
اچانک ان کی نگاہ پارک کے کونے میں بیٹھے ایک ایسے بچے پر پڑی جو پڑھائی کر رہا تھا-
علامہ اقبال کو حیرت ہوئی-
کیونکہ وہ بچوں کی فطرت (child psychology) سے
بخوبی واقف تھے، اس لئے بچے کو پڑھتا دیکھ انہیں ذرا تعجب ہوا-
انہیں عجیب لگا کہ ایک بچہ اس ماحول میں پڑھ بھی سکتا ہے-
انہیں یہ بچہ کچھ extra ordinary لگا-
وہ اٹھ کر اس بچے کے پاس گئے،
اور اس سے بولے،
"
کیا آپ کو کھیلنا پسند نہیں؟"
بچے کے جواب نے انہیں حیران کردیا-
" ہم دنیا میں مٹھی بھر ہیں، اگر میں کھیلنے میں وقت ضائع کروں گا تو میری قوم مٹ جائے گی،
مجھے اپنی قوم کو بچانا ہے-"
علامہ: "آپ کس قوم سے ہو"؟
بچہ: " میں یہو...*.دی ہوں"-
" میں یہو...*دی ہوں "
یہ الفاظ اور یہ عزم،
علامہ اقبال کے ہوش فاختہ ہوگئے-
ان کاذہن کسی اور ہی دنیا میں چلا گیا-
اور آنکھوں سے بے ساختہ آنسو بہنے لگے-
وہ یونان، اسپین، مصر، ایران کی فتح کی کہانیوں سے لیکر ان کو گنوا دینے تک کی
وجوہات کا سفر کرنے لگے-
شاید دل چیخ رہا ہوگا کہ،
ہائے میری قوم،
ہائے ہمارے بچے،
میں تم میں شاہین ڈھونڈ رہا ہوں،
لیکن عقاب تو یہودی گھروں میں پل رہے ہیں-
حقیقت خرافات میں کھو گئی،
یہ امت روایات میں کھو
گئ
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
کہا جاتا ہے کہ صرف پنجاب میں مزارات کی تعداد 598 ہے اور ان میں سے کم و بیش چونسٹھ درباروں کے گدی نشین، متولی اور پیر آج بھی براہ راست سیاسی نظام میں حصہ دار ہیں۔۔۔
جھنگ، پاکپتن، ساہیوال، وہاڑی، منڈی بہاو الدین، اوکاڑہ، حجرہ شاہ مقیم
سرگودھا،
ملتان، چشتیاں، خیرپور ٹامیوالا کے گدی نشین براہ راست انتخابات میں حصہ لیتے ہیں،
یہاں کےگدی نشین پہلی بار جنگ آزادی کے مجاہدین کو کچلنے کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی کے دست راست بنے اور ان گدی نشینوں نے انگریزوں کے حق میں فتویٰ دیا اور جنگ کو بغاوت قرار دیا
اور انعام کے طور پر++
جاگیریں پائیں۔
یہی وجہ تھی کہ ان گدی نشینوں کو انگریزوں نے نوآبادیاتی عہد کے پاور سٹرکچر میں شامل کیا اور کورٹ آف وارڈز کے ذریعے سے انھیں مستقل سیاسی طاقت دی گئی۔
کورٹ آف وارڈز سسٹم کے تحت جن گدی نشینوں
ایسا عظیم شخص جس نے 1994ء میں کنگ فیصل ایوارڈ کو یہ کہتے ہوئے ٹھکرایا کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے لکھا ہے لہذا مجھ پر میرے دین کو خراب نہ کریں.
ایک ایسا عظیم شخص جس نے فرانس کی نیشنیلٹی کو یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دی کہ مجھے اپنی
مٹی اور اپنے وطن سے محبت ہے.
ایک ایسا عظیم شخص جس کے ہاتھ پر 40000 غیر مسلموں نے کلمہ طیبہ پڑھا.
ایک ایسا عظیم شخص جو 22 زبانوں کا ماہر تھا اور 84 سال کی عمر میں آخری زبان تھائی سیکھ لی تھی.
ایک ایسا عظیم شخص جس نے مختلف
زبانوں میں 450 کتابیں اور 937 علمی مقالے لکھے.
ایک ایسا عظیم شخص جو اس قدر علمی مقام رکھنے کے باوجود اپنے برتن اور کپڑے خود دھوتے تھے.
ایک ایسا عظیم شخص جسے 1985 میں پاکستان نے اعلی ترین شہری اعزاز ہلال امتیاز سے نواز تو اعزاز کے ساتھ
شیخ ابن النر غب یمنی کی عادت تھی کہ ہمیشہ اپنے وطن سے سفر کرکے اول حج ادا کرتے اور پھر زیارت روضہ رسول ﷺ کیلئے حاضر ہوتے تھے۔ دربار کی حاضری کے وقت والہانہ اشعار قصیدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ ﷺ کے صاحبین حضرت صدیق اکبر اور فاروق اعظم کی شان
میں لکھ کر روضہ اقدس کے سامنے پڑھا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ وہ حسب عادت قصیدہ پڑھ کر فارغ ہوئے تو ایک رافضی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ آج میری دعوت قبول کیجئے۔ حضرت شیخ نے تواضع کی بناء پر اتباع سنت کی نیت سے دعوت قبول کر لی آپ کو اس کا
حال معلوم نہ تھا کہ وہ رافضی ہے اور حضرت صدیق اکبر اور فاروق اعظم کی مدح کرنے سے ناراض ہے،
آپ حسب وعدہ اس کے مکان پر تشریف لے گئے مکان میں داخل ہوتے ہی اس نے اپنے دو حبشی غلاموں کو، جن کو پہلے سے سمجھا رکھا تھا، اشارہ کیا، وہ دونوں اس اللہ
سعودی عرب میں کھجوروں اور چشموں کا ایک ایسا نادر و نایاب گاؤں موجود ہے جو اپنے دامن میں دو ہزار سال کی تاریخ رکھتا ہے۔ سعودی عرب میں مدینہ منورہ کے علاقے ‘یبنع النخل’ میں 2 ہزار سال پرانا ایک ایسا تاریخی گاؤں موجود ہے جو پانی کے کنوؤں، چشموں اور کھجوروں
کے لیے مشہور ہے۔ اس گاؤں میں میٹھے پانی کے 99 چشمے ہیں۔یہاں پر اسلام کے ابتدائی دور اور اس سے قبل کے دور کی کئی کہانیاں، واقعات، آثار اور باقیات دیکھنے کو ملتی ہیں جو اپنے ناظرین کو ہزاروں سال پیچھے لے جاتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ 1400 سال قبل تک شام سے
حجاز کی طرف آنے والے تجارتی قافلے اسی علاقے سے گزرتے تھے اور ظہور اسلام کے بعد یہ علاقہ تجارتی اور حجاج کرام کے قافلوں کی گزرگاہ بن گیا۔
اس گاؤں کے تاریخی پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے سعودی فوٹو گرافر اور
135 ملین سال قبل ڈائنوسار کو زمین کا حکمران تصور کیا جاتا تھا جس کی وجہ ان کا خوفناک اور ہیبت ناک دکھائی دینا تھا- شاید آپ اس بات سے واقف نہ ہوں کہ لاکھوں یا کروڑوں سال پہلے ہمارے سیارے پر ڈائنوسار سے بھی
کئی زیادہ خطرناک اور خوفناک جانور بھی پائے جاتے تھے جو آج بھی اگر موجود ہوتے تو یقیناً دنیا کا نقشہ کچھ اور ہی ہوتا- ایسے ہی چند زمانہ قدیم سے تعلق رکھنے والے چند خوفناک اور خطرناک جانوروں کا ذکر ہے ہمارے آج کے اس آرٹیکل میں-
Dakosaurus
لاکھوں سال پرانے اس خوفناک جانور کا
ڈھانچہ سب سے پہلے جرمنی میں دریافت کیا گیا- یہ ایک خوفناک سمندری جانور تھا جس کے دانت انتہائی بڑے تھے- ماہرین کے مطابق اس جانور کی لمبائی 4.5 میٹر تک ہوا کرتی تھی- ابتدا میں اس جانور کا تعلق ڈائنوسار سے بتایا گیا تاہم بعد میں ماہرین نے اس
ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ ﺻﺪﯾﻖ ﺭﺿﯽ ﷲ ﻋﻨﮧُ اور ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽ ﷲ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ ﺻﺪﯾﻖ رضی اللہ عنہما
حضرت علی رضی اللہ عنہما کو دیکھ کر مسکرانے لگے
حضرت علی رضی اللہ عنہما نے پوچھا آپ کیوں مسکرا رہے ہیں