وہ حکمران جس کو ساری دنیا کے حکمران سلطان العالم کہتے تھے۔
یہ ہیں عثمانی سلطنت کا دسویں سلطان سب سے عظیم حکمران سلیمان القانونی رحمہ اللہ۔ سلیمان نے 48 سال حکومت کی۔ انھی کے دور میں خلافت عثمانیہ سپرپاور بن گئی۔ انھوں نے ہی سنت کو دوبارہ زندہ کیا۔ بدعات کا قلع قمع کیا۔
باغیوں اور سازشیوں سے ریاست کو پاک کیا۔
تمام مسلم اور غیر مسلم مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ خلافت عثمانیہ کا سنہری دور اس وقت تھا جب سلیمان القانونی خلیفہ تھے۔
انہوں نے مملکت کے لیے قانون سازی کا جو خصوصی اہتمام کیا اس کی بنا پر
ترک انہیں سلیمان قانونی کے لقب سے یاد کرتے ہیں جبکہ مغرب ان کی عظمت کا اس قدر معترف ہے کہ مغربی مصنفین انہیں سلیمان ذیشان یا سلیمان عالیشان اور سلیمان اعظم کہہ کر پکارتے ہیں۔ ان کی حکومت میں سرزمین حجاز، ترکی،مصر، الجزائر، عراق، کردستان، یمن، شام، بیت
المقدس،خلیج فارس اور بحیرہ روم کے ساحلی علاقے، یونان اور مشرقی و مغربی ہنگری شامل تھے۔
انہوں نے ہی جہاد کو عروج پر پہنچایا۔ ان کی زندگی کا سب سے اہم معرکہ "موھاکس" ہے، جس پر پورے یورپ میں ماتم کیا گیا تھا۔
امت مسلمہ کا یہ عظیم قائد جن کی
فوج کا ساری دنیا احترام کرتی تھی، اور ان کی فوج کی حر کت سے صلیبی حکمرانوں پر لرزہ طاری ہوتا تھا، اور ان کی حکومتیں ہل جاتی تھیں۔ ان کے عہد میں مسلم افواج یورپ کے قلب میں پہنچ گئی تھیں۔ دو بار ان کی فوج فینا کے فصیلوں سے ٹکرائی۔ ان کے زمانے میں خلافت
عثمانیہ تین براعظموں تک پھیل گئی، ایشیا، یورپ اور افریقہ۔
سلیمان عالی شان کے دور میں خلافت عثمانیہ بلا شرکت غیر دنیا کی واحد سپر پاور بن گئی جس کے بارے میں کسی کو اختلاف بھی نہیں۔ انھی کی فوج دنیا میں نمبر 1 تھی۔ انھی کا اسلحہ سب سے جدید اور خوفناک ہوا
کر تا تھا۔ سمندروں، ساحلوں، بندر گاہوں اور آبی گزرگاہوں پر انہی کی فوج کا راج تھا۔
جرمن مورخ "ہالمر" کہتا ہے کہ یہ سلطان ہمارے لیے صلاح الدین ایوبی سے بھی بڑا خطرہ تھے۔ انگریز تاریخ دان " ہارورڈ " کہتا ہے کہ ان کی موت کا دن ہی صلیبی دنیا کے لیے عید کا دن ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلم نوجوانوں کو اپنے اس ہیرو کی سیرت کا علم نہیں۔ وہ صرف مغربی ڈراموں اور فلموں کے ذریعے ان کا نام سنتے ہیں، جن میں ان کی سیرت کو بگاڑ دیا گیا ہے۔
سلطان سلیمان القانونی خادم الحرمین الشریفین اسلامی تاریخ کا ایسا نام ہے جس پر خود تاریخ بھی نازاں ہے۔ ان کے تذکرے کے بغیر تاریخ کچھ بھی نہیں۔
معزرت سلیمان القانونی کی اصل تصویر یہ ہے۔۔۔
نشاندھی کرنے والوں کا شکریہ
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
وہ مصر کی تاریخ کا سب سے کم عمر شخص تھا جس نے ہائی سکول سرٹیفکیٹ حاصل کیا پھر رائل سکول آف انجینئرنگ کا سب سے کم عمر طالب علم جس نے وہاں سے گریجویٹ ڈگری لی پھر سب سے کم عمر جس کو یورپ سے اسلامک آرکیٹیکچر میں ڈاکٹریٹ کی تین ڈگریاں لینے کے لئے بھیجا گیا-
اس کے علاوہ وہ سب سے کم عمر نوجوان تھا جس نے بادشاہ سے ،، نائل،، سکارف اور،، آئرن،، کا خطاب حاصل کیا
وہ پہلا انجینئر تھا جس نے حرمین شریفین کے توسیعی منصوبے کی تعمیر اور عمل درآمد کے لئے اختیارات سنبھالے
اس نے شاہ فہد اور بن لادن کمپنی کے باربار اصرار کے
باوجود انجینیرنگ ڈیزائن اور آرکیٹچرل نگرانی کیلئے کسی قسم کا معاوضہ لینے سے انکار کردیا اور کہا کہ میں دو مقدس مساجد کے کاموں کیلئے کیوں معاوضہ لوں اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا کیسے سامنا کروں گا۔
اس نے 44 سال کی عمر میں شادی کی اور اس کی بیوی نے بیٹا جنم دیا اور
ﺍﯾﮏ شخص ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا
اور اس نے ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮐﯽ ﮐﮧ ﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺ
ﻣﯿﺮﺍ ﺑﺎﭖ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺘﺎ نہیں
ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﺎﻝ ﺧﺮﭺ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮬﮯ
، ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠﻢ
بو علی سینا کے زمانے میں ایک رئیس کی بیٹی گھوڑا سواری کے دوران گھوڑے سے نیچے گر گئی اور اُس کے کولہے کی ہڈی اپنے بند سے جدا ہو گئی. لڑکی کے باپ نے بہت سے حکیموں سے علاج کروانے کی کوشش کی کہ ھڈی کو واپس اپنی جگہ پر بٹھائیں مگر مصیبت یہ تھی کہ لڑکی کسی
حکیم کو اپنا جسم چھونے کی اجازت نہیں دیتی تھی ۔ باپ نے بہت اصرار کیا کہ بیٹی حکیم کو شریعت نے بھی محرم قرار دیا ھے لیکن بیٹی کسی طرح راضی نہیں ھورھی تھی اور دن بہ دن کمزور ھوتی جا رھی تھی ۔ آخر لوگوں نے مشورہ دیا کہ شہر سے باھر ایک بہت حاذق حکیم
رھتے ھیں اُن سے مشورہ کر لیں…….. وہ شخص حکیم صاحب کے پاس گئے اور اپنا مسئلہ بیان کیا تو حکیم صاحب نے کہا کہ ایک شرط پر میں آپ کی بیٹی کا کولہا ھاتھ لگائے بغیر واپس بٹھا سکتا ھوں۔ وہ شخص کہنے لگا کہ جو بھی شرط ھو وہ قبول کرنے پر آمادہ ھے۔ حکیم نے کہا کہ
حضرت جابر رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب خندق کھودی گئی تو میں نے آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو بھوکا پایا۔ میں اپنی بیوی کے پاس آیا، اور پوچھا کہ تیرے پاس کچھ ہے؟ اس نے ایک تھیلا نکالا ، جس میں ایک صاع جو تھے، اور ہمارے پاس ایک بکری کا بچہ پلا ہوا تھا، میں
نے اسے ذبح کیا،اور میری بیوی نے آٹا پیسا،
وہ بھی میرے ساتھ ہی فارغ ہوئی۔ میں نے اس کا گوشت کاٹ کر ہانڈی میں ڈالا اس کے بعد میں آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پاس لوٹا
بیوی نے کہا کہ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کے سامنے
مجھے رسوا نہ کرنا-"( یعنی زیادہ آدمیوں کی دعوت نہ کردینا)
جب میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو چپکے سے عرض کیا: " یا رسول اللّٰہ ہم نے ایک بکری کابچہ ذبح کیا ہے اور ایک صاع جو کا آٹا ہمارے پاس تھا، وہ تیار کیا ہے۔ تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم چند
نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ’’ فرشتے نور سے، آدم مٹّی سے اور ابلیس آگ سے پیدا کیا گیا ۔‘‘حضرت عبداللہ بن عُمرؓ فرماتے ہیں کہ’’ جنّات، حضرت آدمؑ سے دو ہزار سال پہلے سے دنیا میں آباد تھے، جنہوں نے دنیا میں دنگا فساد مچا رکھا تھا، چناں چہ اللہ نے فرشتوں کے ایک لشکر
کو دنیا میں روانہ کیا، جنہوں نے ان جنّات کو مار مار کر سمندری جزیروں اور ویران علاقوں میں بھگا دیا۔‘‘ حضرت سعید بن منصورؒ کا قول ہے کہ’’ اس موقعے پر بہت سے جنّات قتل کیے گئے اور کچھ گرفتار بھی ہوئے۔ان ہی میں ابلیس بھی تھا، جو ابھی بچّہ تھا۔ اُسے آسمان
پر لا کر رکھا گیا۔یہ فرشتوں کے ساتھ عبادت میں مصروف ہو گیا اور بہت جلد علوم کا ماہر اور عبادت گزار بن گیا۔ چناں چہ اسے آسمانوں میں ’’معلم الملکوت‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگا۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’ابلیس آسمانوں میں فرشتوں کا سردار بن گیا تھا۔‘‘حضرت