#بلین_سونامی
1990 سے پہلے بھکر-خانسر روڈ کے دونوں جانب جنگل ہوتاتھا۔
بڑے درختوں کے علاوہ چھوٹی بڑی جھاڑیاں اور جڑی بوٹیاں بھی ہوتی تھیں۔
یہاں سے دن کو گزرتے ہوئے بھی ڈر لگتا تھا۔
محکمہ جنگلات نے روڈ ساتھ اکثر جگہوں پے چھوٹی سی نرسری ساتھ ایک پانی کا نلکا لگایا ہوتا تھا۔ #جاری1
اسی نرسری سے روڈ کی دونوں جانب درخت لگائے جاتے۔
دور حاضر میں محکمہ جنگلات کی ذمہ داری صرف تنخواہ لینے کی حد تک رہ گئی ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ درخت کٹ گئے، کچھ گر گئے لیکن مجال ہے کوئی نیا درخت لگایا ہو۔
آپکے سامنے چند بڑے درخت رہ گئے ہیں جو کہ گرنے والے ہیں۔ #جاری2
علاقے کے دوسرے راستوں کا بھی یہی حال ہے۔
تھوڑے سے عرصہ تک اگر توجہ نہ دی گئی تو روڈ سنسان ہوجائیں گے۔
پنجاب گورنمنٹ سے التجا ہے کہ محکمہ جنگلات کو متحرک کرے اور وزیراعظم پاکستان کے بلین سونامی ٹری کے منصوبے میں بڑے راستوں پے بھی شجرکاری کی جائے تاکہ کھویا ہوا حسن پھر بحال ہوسکے
کسی زمانے میں ہماری آٹے کی چکی ہوا کرتی تھی، جسکے 3 من وزنی پتھر تھے، جو 22 ہارس پاور انجن سے چلائی جاتی۔
والد محترم ناپ تول کے معاملے میں بہت سنجیدہ تھے۔
انکی کوشس ہوتی کہ ہر سال باقاعدگی سے کانٹا وٹے محکمہ سے پاس کروایے جائیں، جسکا میں چشم دید گواہ ہوں۔
وٹے ایکدوسرے کے ساتھ ٹکرانے سے وزن کم کرتے رہتے ہیں۔
ہر وٹے کے نیچے چھوٹا سا سوراخ ہوتا ہے جس میں وزن کی کمی بیشی پوری کرنے کیلئے سکہ بھرا جاتا ہے۔
سال کے بعد محکمہ والے بھی چکر لگاتے اور کانٹا وٹے چیک کرتے کہ اگر پاس نہ ہوتے تو جرمانہ کرتے تھے۔ #جاری2
1990 کی دہائی کے بعد ہر محکمے کے ملازمین صرف تنخواہ لینا ہی اپنی اولین ڈیوٹی سمجھتے ہیں۔
جبکہ اس سے پہلے سب محکمے بلا تعطل اور باقاعدگی کےساتھ اپنا کام انجام دیتے تھے۔
بدقسمتی ہے کہ بھرتی کے بعد ملازمین کو متعلقہ شعبے میں کام کےبارے مطلع نہیں کیا جاتا کہ آپکی کیا ڈیوٹی ہے۔ #جاری3
#القرآن
کیا انہوں نےیہ نہیں دیکھا کہ اللہ جسے چاہےکشادہ روزی دیتاہےاور جسےچاہےتنگ، اسمیں بھی ایمان لانے والوں کیلئے نشانیاں ہیں۔
پس قرابت دار کومسکین کو مسافر کوہر ایک کو اسکاحق دیجئےیہ ان کیلئےبہتر ہےجو اللہ کامنہ دیکھناچاہتےہوں ایسےہی لوگ نجات پانےوالےہیں #الرروم37_38 #جاری1
#تشریح
یعنی تنگی کے مواقع پر مایوس ہو کر اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرنے کے بجائے اول تو یہ سمجھنا چاہئے کہ وسعت اور تنگی کا فیصلہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت اور مصلحت کے تحت فرماتا ہے جو ضروری نہیں کہ ہر ایک کی خواہشات کے مطابق ہو، یا اس کی سمجھ میں بھی آجائے،
دوسرے چونکہ وسعت اور تنگی اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہیں، اسلئےتنگی کےمواقع پر اسی کی طرف رجوع کرکے اسی سےمدد مانگنی چاہئے۔
پچھلی آیت میں بتایا گیا تھا کہ رزق تمام تر اللہ تعالیٰ کی عطاہے، اسلئے جو کچھ اس نے عطا فرمایا ہے وہ اسی کے حکم اور ہدایت کے مطابق خرچ ہونا چاہئے، #جاری3
کیا دور تھا:
جب اُساتذہ بچوں کو سخت سزائیں دیتے، لیکن بچےوالدین کو نہیں بتاتے تھے، اگر بتابھی دیتے تو اُلٹا مار پڑتی کہ تیری اپنی غلطی یا مستی ہوگی۔
اُسوقت اُساتذہ واقعی روحانی باپ تصور کیے جاتے کیونکہ وہ صحیح معنوں میں بچوں کی تعلیم وتربیت کاذمہ لیتے
اُسوق بچے بڑی عمر میں سکول داخل ہوتے تھے، شاید اسی لئے مار برداشت کرلیتے یا پھر اپنی غلطی کی وجہ سے خاموش رہتے، یا اُساتذہ کا احترام اور قدرومنزلت جانتے تھے؟
اُسوقت کسی کے پاس کیمرہ یا فون نہ ہونے کی وجہ سے کوئی ویڈیو یا تصویر میڈیا پر نہیں آتی تھی؟
2/7
نہیں بلکہ اُسوقت کی تصویں موجود ہیں، لیکن اُسوقت لوگ خالص ہوتے، اُساتذہ کا مقام جانتے تھے
ایک دوست نے کہا میں نے سندھ کے ایک مدرسےمیں بچےکو زنجیر سے بندھا دیکھا تو اُستاد کو برا بھلا کہا، بچے نے فوراً کہا خبردار میرے اُستاد کے بارے بات کی، اُنہوں نےیہ سب میرے بھلے کیلئے کیا
3/7