جب آپ کچھ بھول جائیں تو حضور پر درود بھیجیں، انشا اللّه یاد آجاے گا
سوال: نماز میں دو سجدے کیوں ھوتے ھیں ؟
*جواب*: جب اللّه نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا لیکن ابلیس نے نہیں کیا تو اسکو مردود قرار دے کر جنت👇
سے نکال دیا ابلیس کی یہ حالت دیکھ کر فرشتوں نے سجدہ_شکر ادا کیا اور کہا *اے اللّه تیرا شکر ھے تو نے ھمیں اپنا حکم بجا لانے اور اپنی عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائی* وہ دو سجدے آج تک نماز میں ادا کئے جا رھے ھیں
*1: سجدہ_حکم*
*2: سجدہ_شکر*
👇
ایک صحابی نے حضور_پاک صلی اللّه علیہ وصلم سے پوچھا
ھمیں کیسے پتہ چلے گا کہ ھماری نماز قبول ھو گئی ؟ آپ صلی اللّه علیہ وصلم نے فرمایا *جب تمہارا دل اگلی نماز پڑھنے کا کرے تو سمجھنا کہ تمھاری نماز قبول ھو گئی*
*سبحان اللّه*
جب شیطان مردود نے کہا کہ
اے رب ، تیری عزت کی قسم ،👇
میں تیرے بندوں کو ہمیشہ بہکاتا رہوں گا جب تک انکی روحیں انکے جسموں میں رہیں گی
اللّه رب العزت نے ارشاد فرمایا
*مجھے قسم ھے اپنی عزت و جلال کی اور اپنے اعلی مقام کی* *جب تک وہ مجھ سے استغفار کرتے رہیں گے، میں انکو بخشتا رھوں گا* *سبحان اللّه*
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
درود شریف کا ترجمہ اگر دیکھیں تو کچھ اس طرح بنتا ہے۔ "اے اللہ درود بھیج حضرت محمد پر اور (ان کی اولاد پر)" اس کلام یعنی درود میں ہم دو ہستیوں کا ذکر کر رہے ہیں۔ ایک اللہ پاک اور دوسرے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب ہم مسلسل اور بار 👇
بار ان دو ہستیوں کا ذکر اپنی زبان سے کرتے ہیں ذہن میں توجہ کے ساتھ، یعنی جب درود ہڑھتے ہیں، تو ہمیں ان دونوں ہستیوں کی توجہ حاصل ہوتی ہے، دونوں کے Aura کا نور اور شفاء والی انرجی (Healing Energy) ملتی ہے، انوارات ملتے ہیں جو ہمارے ڈپریشن کو Heal کر کے ختم کر دینے کے لیے کافی 👇
ہیں ۔ زیادہ فائدہ تب ہو گا جب ہم توجہ اور دھیان سے درود شریف پڑھیں گے۔ اگر درود تنہائی میں توجہ اور اس تصور کے ساتھ پڑھنا شروع کر دیں کہ "آپ کی اللہ اور حضور صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک تکون ہے، اور آپ تینوں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہیں" تو یقین جانیں ڈپریشن فوری ختم ہوتا چلا 👇
پچھلے 1000 سال کی معلوم انسانی تاریخ میں ان سے زیادہ امیر شخص نہیں گزرا ہے.
ان کی دولت کا صحیح اندازہ لگانا کسی کیلئے ممکن نہیں لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق ان کی دولت کا تخمینہ
400 ارب ڈالر سے زیادہ لگایا جاتا ہے،جب کہ آج کی تاریخ میں سب سے زیادہ امیر شخص امیزون کے مالک 👇
جیف بیزوس ہیں جن کی دولت 131 ارب ڈالر ہے۔
یہ تاریخ انسانی کا سب سے منفرد قافلہ لیکر افریقہ سے مکہ مکرمہ حج کیلئے چل دیے ان کے قافلے میں 60 ہزار افراد شامل تھے،جب کہ 100 سواریوں پر سونا لدھا ہوا تھا یہ جس ملک اور شہر میں جمعہ کیلئے رکتے وہاں ایک مسجد کا سنگ بنیاد رکھتے،اس شہر 👇
کے تمام غریب اور فقیروں کو جمع کرکے ان پر نوازشات کی بارش کرتے.
اس سفر حج میں انہوں نے اتنا سونا فری تقسیم کیا کہ آنے والے کئی سالوں تک مصر سمیت راستے میں پڑنے والے ممالک کی مارکیٹوں میں سونے کی قیمت گر گئی.
یہ افریقی ملک سلطنت مالی کے رحم دل اور سخی بادشاہ
منسا موسی تھے، 👇
دن مسلسل گزر رہے تھے اور ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ صاحب فراش ہیں، بدن مبارک خدا کے خوف سے لرزاں و ترساں ہے، آپ کی صاحبزادی ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا غم کے مارے ان کے سرہانے بیٹھی آنسو بہا رہی ہیں، دریں اثنا ابوبکرصدیق رضی ﷲعنہ فرماتے ہیں:👇
بیٹی! میں مال و تجارت کے اعتبار سے قریش میں سب سے زیادہ مال دار تھا لیکن جب مجھ پر امارت کا بار پڑا تو میں نے سوچا کہ بس بقدر کفایت مال لے لوں۔ بیٹی! اب اس مال میں سے صرف یہ عبائی، دودھ کا پیالہ اور یہ غلام بچا ہے جب میری وفات ہو جائے تو یہ چیزیں عمر بن خطاب رضی ﷲ عنہ کے پاس 👇
بھیج دینا۔ میرے ان دو کپڑوں کو دیکھو، انہیں دھو کر مجھےانہی میں کفن دے دینا، کیونکہ زندہ آدمی کو نئے کپڑوں کی مردے کی بہ نسبت زیادہ ضرورت ہوتی ہے حضرت سلمان رضی ﷲعنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی عیادت کے لیے آئے، آپ موت کی کشمکش میں تھے، حضرت سلمان رضی ﷲ عنہ نے گھبراتے 👇
جب ہم علمی کتابیں پڑھتے ہیں تو اُن میں کچھ علامات نظر آتی ہیں ، جن کی تفصیل یہ ہے -
1: الخ ( اَ لَ خْ )
کسی قول ، مصرعے یا جملے وغیرہ کا کچھ حصہ لکھنے کے بعد " الخ " لکھ دیا جاتا ہے ، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی مزید آگے بھی ہے ،👇
اِسے آخرتک دیکھیں -
مثلاً: مصطفیٰ جان رحمت۔۔۔۔۔الخ
2: ١٢
بعض کتابوں کے حاشیے کے آخر میں " ١٢ " لکھا ہوتا ہے -
علم اعداد میں لفظِ " حَد " کے بارہ عدد ہیں ، اور حد کا معنیٰ ہے اختتام ؛ تو " ١٢ " کا مطلب یہ ہوا کہ یہاں پر حاشیے کی عبارت ختم ہوگئی ہے ، حاشیے کی یہی حد ہے -
👇
3: منہ ( مِ نْ ہُ )
بعض کتابوں کے حاشیے کے آخر میں " منہ " بھی لکھا ہوتا ہے اور یہ مصنف خود لکھتا ہے ؛ جس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ حاشیہ کسی اور کا نہیں ، میرا ( کتاب لکھنے والے کا ) اپنا ہے -
4: ١٢منہ
بعض حواشی میں یہ دونوں ہوتے ہیں ، جن سے یہی مراد ہوتاہے کہ یہ حاشیہ مصنف کا👇
ماسٹر صاحب بچے کو بڑی جان مار کے حساب سکھا رھے تھے. وہ ریاضی کے ٹیچر تھے. اُنھوں نے بچے کو اچھی طرح سمجھایا کہ دو جمع دو چار ہوتے ہیں-
مثال دیتے ہوئے انھوں نے اسے سمجھایا کہ یوں سمجھو کہ میں نے پہلے تمھیں دو کبوتر دئے. ..پھر دو کبوتر دئے...تو تمھارے پاس کل
👇1
کتنے کبوتر ہو گئے؟ بچے نے اپنے ماتھے پہ آئے ہوئے silky بالوں کو ایک ادا سے پیچھے کرتے ہوئے جواب دیاکہ ماسٹر جی "پانچ" ماسٹر صاحب نے اسے دو پنسلیں دیں اور پوچھا کہ یہ کتنی ھوئیں؟ بچے نے جواب دیا کہ دو، پھر دو پنسلیں پکڑا کر پوچھا کہ اب کتنی ہوئیں؟ "چار" بچے نے جواب دیا.
👇2
ماسٹر صاحب نے ایک لمبی سانس لی جو اُن کے اطمینان اور سکون کی کی علامت تھی..... پھر دوبارہ پوچھا... اچھا اب بتاؤ کہ فرض کرو کہ میں نے پہلے تمھیں دو کبوتر دئیے پھر دو کبوتر دیئے تو کُل کتنے ہو گئے....؟ "پانچ" بچے نے فورًا جواب دیا. ماسٹر صاحب جو سوال کرنے کے بعد کرسی سیدھی کر
👇3