جاوید چوہدری صاحب! آپ نے صحیح کہا کہ یہ ملک ہے ٹشو پیپر نہیں ہے کہ اسے کبھی ایوب ڈاکٹرائن کے حوالے کر کے احساسِ کمتری کا شکار بنا دیا جائے؛
کبھی یحییٰ ڈاکٹرائن کے حوالے کر کے دولخت کروا دیا جائے؛
کبھی ضیاء ڈاکٹرائن کے حوالے کر کے انتہا پسندی کی آگ میں جھونک دیا جائے؛
کبھی مشرف ڈاکٹرائن کے حوالے کر کے دہشت گردی، لوڈشیڈنگ، ٹارگٹ کلنگ، علیحدگی پسندی، معاشی بدحالی کا شکار کرنے کے بعد فاٹف بلیک لسٹ کروا کر تجارتی و کاروباری پابندیاں لگوا لی جائیں؛
جی ہاں! یہ ملک ٹشو پیپر نہیں ہے کہ اسے باجوہ ڈاکٹرائن کے ہاتھوں دنیا بھر میں بھکاری بنا دیا جائے.
تین سال کی معاشی بدحالی، قرضوں کا بوجھ اور عوام کی شکستہ حالی آپ کو نظر نہیں آئی لیکن آپ کو نوازشریف اور اسحاق ڈار کا باہر بیٹھ کر ایشوز پر بولنا تکلیف دے رہا ہے.
آپ صحافی ہوتے تو باجوہ سے پوچھتے کہ باجوہ صاحب! آپ کی ڈاکٹرائن نے معاشی تباہی اور قرضوں کے سوا دیا کیا ہے؟
آپ کی ڈاکٹرائن نے ناکام گورنس، خارجہ پالیسی کی ناکامیوں، سقوطِ کشمیر، داخلی ناکامیوں، آٹا/چینی سکینڈلز اور مہنگائی کے بوجھ کے سوا ان تین سالوں میں کیا دیا ہے؟ جو آج پھر آپ ماضی کی حکومت کے بارے میں لاف زنی میں مشغول ہیں!
لیکن آپ صحافی ہوتےتو پوچھتےنا؛ آپ تو قصہ گو کالم نگار ہیں!
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
اس کی نئی نئی شادی ہوئی اور شادی بھی محبت کی، بہت سے اختلافات اور جھگڑوں کے بعد دونوں ایک ہوئے تھے. دونوں نے مل کر الگ اپنا گھر آباد کیا، بہت سے وعدے وعید ہوئے، بہت سی قسمیں کھائی گئیں اور یقین دہانیاں کروائی گئیں. ایک یقین دہانی یہ بھی تھی کہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر کھانا نہیں
کھائیں گے اور پہلا نوالا ہمیشہ ایک دوسرے کے ہاتھ سے کھائیں گے. ایسے ہی محبت کے جھولوں میں جھولتے شادی کو تین ماہ گزر گئے. یونہی ایک دن بڑی آپا کو خیال آیا کہ کچھ دن بھائی کے گھر رہ کر آنا چاہیے؛ دیکھوں تو سہی گھر گرہستی کیسی ہے؟
بوریا بستر سمیٹا اور کچھ دن بھائی کے گھر رہنے کے
لیے چل پڑیں. شام میں جب بڑی آپا آئیں تو وہ گھر میں اکیلی تھی، شوہر ابھی آفس سے نہیں آیا تھا. اس نے دیکھا کہ نند پہلی دفعہ آئی ہیں تو ان کے سرد مہر رویے کے باوجود ان کی آؤ بھگت کے لیے کچن میں گھس گئی. شوہر کو فون کر کے آپا کی آمد کا بتایا اور شوہر سے ہی پوچھ کر آپا کے پسندیدہ
ایک وقت تھا جب کشمیر اور افغانستان جہاد کے نام پر کمپین چلائی جاتی تھی اور غریب کے بال جذبہ جہاد اور شہادت سے سرشار ہو کر اپنی ماؤں کو روتا چھوڑ کر نکل جاتے تھے؛ انہیں ذیلی کیمپوں میں جہاد کی ٹریننگ دی جاتی تھی اور پھر خفیہ راستوں سے سرحد پار کروائی جاتی تھی.
ان میں سے کتنے واپس آئے کتنے نہیں کوئی نہیں جانتا. پھر ہمیں بتایا گیا کہ وہ تو جہادی نہیں دہشت گرد ہیں اور وار آن ٹیرر کے نام پر اپنے ہاتھوں بنائے جہادیوں کو دہشت گرد بنا کر پکڑنا اور مارنا شروع کیا اور یہ سلسلہ کم و بیش آج تک جاری ہے.
اب ٹی ایل پی کو دیکھیں!
یہ بھی اپنے ہی بچے تھے، انہیں اپنے لوگ کہا گیا؛ فیض آباد میں مکمل سہولتوں کے ساتھ بٹھائی رکھا اور منتخب حکومت پر پریشر ڈالا گیا؛ پھر ہزار ہزار کے نوٹ بانٹ کر واپس بھیجا گیا اور کفر کے فتوے دلوائے گئے. ہم نے دیکھا بھی کہ ن لیگ کے بہت سے ووٹر شیر کو چھوڑ کر کرین میں سوار ہو گئے.
کل رات ایک یوتھنی ٹکر گئی؛ کہنے لگی دیکھا ہے نوازشریف کا گھر بھی غیر قانونی ہے، اب یہ بھی گرے گا. میں نے کہا اسی طرح آپ نے کھوکھر پیلس کی دیواریں گرنے پر بھی کہا تھا کہ حرام کی کمائی سے غیر قانونی گھر کھڑے کیے ہوئے ہیں. پھر عدالت نے آپ کی سلیکٹڈحکومت کے اقدام کو غلط قرار دے دیا.
اب آپ کو نوازشریف کا گھر غیر قانونی نظر آ رہا؛
کچھ کہنے لگیں تو میں نے ٹوکتے ہوئے کہا.
دراصل آپ کا قصور نہیں ہے م؛ آپ جسے فالو کر رہی ہیں اس کی گندی نظریں ہمیشہ دوسرے کی جیب، دوسرے کی کمائی اور دوسروں کے گھروں پر رہتی ہے اور جس نے اسے مسلط کیا ہے اور جس نے اسے مسلط کیا ہے
اس کی نظریں بھی اپنی آئینی ذمہ داریوں پر نہیں بلکہ اقتدار کی کرسی پر مرکوز رہتی ہیں. چھینا جھپٹی اور دوسرے کی حق پر قبضہ کرنا ہی اس کا وطیرہ ہے تو آپ کو بھی یہی کام اچھے لگیں گے.
کہنے لگیں؛ نوازشریف ہے ہی کرپٹ...... میں نے کہا وہ جو بھی ہے دوسرے کے گھر اور مال پر نظر نہیں رکھتا.
اٹھارویں ترمیم کے بعد صحت صوبوں کا معاملہ ہے اور ہر صوبہ اپنے وسائل یا بیرونی امداد اور انویسٹمنٹ سے اپنے صوبے کے ہسپتالوں کے حالات بہتر کر سکتا ہے.
شہبازشریف نے اٹھارویں ترمیم منظور ہونے کے بعد پنجاب کے ہسپتالوں میں جتنا کام کیا اس کی تفصیلات تو @MansurQr یا @HummaSaif
ہی آپ کو بتا سکتے ہیں لیکن اتنا ضرور کہوں گی ن لیگ کے دور میں جتنے بھی سرکاری ہسپتالوں میں جانا ہوا وہاں جدید انفراسٹرکچر، صاف ستھرا ماحول، ایکٹیو عملہ اور سٹاف، ہر واڈ میں حاضر ڈیوٹی ڈاکٹر، مفت ادویات، سستے ترین ٹیسٹوں کی سہولت اور ہمیشہ تقریباً ہر ہسپتال میں توسیعی کام ہوتا
نظر آتا تھا.
اور آج یہ فارغ العقل آدمی کہتا ہے کہ وہ ہسپتالوں کی حالت نہیں سدھار سکتا.
اول تو یہ اس کا کام ہی نہیں ہے صوبوں کا ہے، دوئم یہ کہ پونے تین سالوں میں تمام ہسپتالوں کا بیڑا غرق کر کے اور ہر سہولت کا خاتمہ کر کے آج یہ ہاتھ کھڑے کر رہا ہے کہ مجھ سے نہیں ہوتا. یاد رہے کہ
کیا جرم ہے اس کا؟
جنابِ عالی! اس نے فوج کی شان میں گستاخی کی ہے.
کیا گستاخی کی ہے؟
جنابِ عالی! اس نے تمسخر اڑاتی ٹوئیٹ لکھی ہے.
کیا ٹوئیٹ لکھی ہے اس نے؟
جنابِ عالی! یہ کہتا ہے کہ "جب 74 سال میں کشمیر آزاد نہیں کروا سکتے تو اتنا بجٹ کیا گانے ریلیز کرنے کے لیے لیتے ہو؟"
ہاں بھئی! کیا یہ تمہاری ٹوئیٹ ہے؟
جی جناب!
کیا تم جانتے ہو کہ تنقید کرنے اور تمسخر اڑانے کی سزا کیا ہے؟
جی جناب! لیکن میں نے تو بس سوال پوچھا ہے.
جنابِ عالی! اس نے سوال کے پردے میں تمسخر اڑانے کی کوشش کی ہے؟
وہ کیسے؟
جنابِ عالی! یہ فوج پر تنقید کر رہا ہے.
یہی تو پوچھا کہ وہ کیسے؟
جنابِ عالی! یہ کہہ رہا ہے کہ فوج بجٹ لے کر صرف گانے ریلیز کرتی ہے لیکن کشمیر آزاد نہیں کرواتی.
کیا کشمیر آزاد ہو گیا ہے؟
نہیں جناب!
کیا فوج بجٹ نہیں لیتی؟
لیتی ہے جناب!
تو پھر غلط کیا ہے؟
جنابِ عالی! فوج ایک محبِ وطن ادارہ ہے اس سے ایسے سوال پوچھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی.
آئیں دیکھتے ہیں کہ پاکستان پینل کوڈ کے جس سیکشن میں ترمیم کا بل پیش کیا گیا ہے وہ سیکشن ہے کیا؟
اس وقت پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 500 میں ہتک عزت کے خلاف سزا تو درج ہے مگر اس شق میں ملک کی مسلح افواج کا نام نہیں لکھا ہوا.
سیکشن 500 کے متن کے مطابق
"جب بھی کوئی، کسی دوسرے کی رسوائی، بدنامی کا باعث بنے گا تو اس کو دو سال کی قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں."
اب ترمیمی بل میں اضافہ کی جانے والی شق 500۔الف یعنی (500-A) ہے اور اس میں مسلح افواج کا اضافہ کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ
"مسلح افواج وغیرہ کے ارادتاً تمسخر اڑانے کی بابت سزا"
بل پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی امجد علی خان نے پیش کیا اور اس کے اغراض و مقاصد بتاتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ
"بل ہذا کے ذریعے مجموعہ تعزیرات پاکستان اور مجموعہ فوجداری میں ترامیم تجویز کی جا رہی ہیں.