آئیں دیکھتے ہیں کہ پاکستان پینل کوڈ کے جس سیکشن میں ترمیم کا بل پیش کیا گیا ہے وہ سیکشن ہے کیا؟
اس وقت پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 500 میں ہتک عزت کے خلاف سزا تو درج ہے مگر اس شق میں ملک کی مسلح افواج کا نام نہیں لکھا ہوا.
سیکشن 500 کے متن کے مطابق
"جب بھی کوئی، کسی دوسرے کی رسوائی، بدنامی کا باعث بنے گا تو اس کو دو سال کی قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں."
اب ترمیمی بل میں اضافہ کی جانے والی شق 500۔الف یعنی (500-A) ہے اور اس میں مسلح افواج کا اضافہ کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ
"مسلح افواج وغیرہ کے ارادتاً تمسخر اڑانے کی بابت سزا"
بل پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی امجد علی خان نے پیش کیا اور اس کے اغراض و مقاصد بتاتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ
"بل ہذا کے ذریعے مجموعہ تعزیرات پاکستان اور مجموعہ فوجداری میں ترامیم تجویز کی جا رہی ہیں.
دفعہ 500/الف کی مجوزہ شمولیت کے ذریعے پاکستان کی مسلح افواج یا اس کے کسی بھی رکن کا ارادتاً تمسخر اڑانے اور بدنام کرنے اور بدنام کرنے والے کو سزا دیتا ہے. ایسے جرم کے قصور وار فرد کو دو سال تک کی مدت کے لئے سزا دی جائے گی، یا پانچ لاکھ تک کے جرمانے کی سزا دی جائے گی.
اس ترمیم کا مقصد مسلح افواج کے خلاف نفرت انگیز اور گستاخ رویے کا سدباب کرنا ہے. مسلح افواج کے افراد کی ساکھ کو گزند پہنچانے والوں کے خلاف قانون کے مطابق سخت کاروائی کی جانی چاہیے."
یاد رہے یہ بل گزشتہ سال ستمبر میں بھی پیش کیا گیا تھا لیکن پھر مخالفت کی وجہ سے واپس لے لیا گیا.
اصل بات جس پر بات کرنا ضروری ہے وہ ہے اس بل کا پس منظر؛
1857 کے بعد برصغیر پاک و ہند میں مکمل طور پر ایسٹ انڈیا کمپنی اور کمپنی کی فوج کا اقتدار قائم ہو گیا تھا.
مقامی آبادی میں کمپنی اور فوج کے خلاف بہت زیادہ نفرت اور غصہ پایا جاتا تھا اور
غلامی کے اس دور میں عوام فوج پر تنقید اور حملہ کر کے اپنے غصے کا اظہار کیا کرتے تھے. اس وقت 1960 میں پہلی دفعہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے فوج پر تنقید اور نفرت انگیز تقریر اور تحریر کے خلاف سزا کا قانون متعارف کروایا تھا.
پھر 1898 میں تاج برطانیہ کی براہ راست حکومت قائم ہونے پر
ایک بار پھر غلاموں کو کنٹرول کرنے کے لیے مجوزہ قانون میں کچھ ترامیم کے بعد اسے مزید سخت بنایا گیا.
کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس وقت تو چلیں یہاں غلامی کا دور تھا اور فاتح/قابض کو اپنا اقتدار اور اختیار مضبوط کرنے کے لیے عوام کو سخت قوانین کے ذریعے ہی کنٹرول کرنا تھا.
لیکن
اب آزاد ملک کے آزاد شہریوں پر اس قسم کے کسی قانون کی کیا منطق اور ضرورت ہے؟
آزاد ملک کے آزاد شہری اور اپنی فوج کے ہوتے ہوئے عوام پر ایسے قانون لاگو کرنا کہاں کی انسانیت ہے؟
بہتر ہے کہ ایسے قوانین لاگو کر کے مزید نفرت پیدا کرنے کی بجائے عوام میں موجود غصے کی وجوہات کا سدباب کریں!
1860*
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
اٹھارویں ترمیم کے بعد صحت صوبوں کا معاملہ ہے اور ہر صوبہ اپنے وسائل یا بیرونی امداد اور انویسٹمنٹ سے اپنے صوبے کے ہسپتالوں کے حالات بہتر کر سکتا ہے.
شہبازشریف نے اٹھارویں ترمیم منظور ہونے کے بعد پنجاب کے ہسپتالوں میں جتنا کام کیا اس کی تفصیلات تو @MansurQr یا @HummaSaif
ہی آپ کو بتا سکتے ہیں لیکن اتنا ضرور کہوں گی ن لیگ کے دور میں جتنے بھی سرکاری ہسپتالوں میں جانا ہوا وہاں جدید انفراسٹرکچر، صاف ستھرا ماحول، ایکٹیو عملہ اور سٹاف، ہر واڈ میں حاضر ڈیوٹی ڈاکٹر، مفت ادویات، سستے ترین ٹیسٹوں کی سہولت اور ہمیشہ تقریباً ہر ہسپتال میں توسیعی کام ہوتا
نظر آتا تھا.
اور آج یہ فارغ العقل آدمی کہتا ہے کہ وہ ہسپتالوں کی حالت نہیں سدھار سکتا.
اول تو یہ اس کا کام ہی نہیں ہے صوبوں کا ہے، دوئم یہ کہ پونے تین سالوں میں تمام ہسپتالوں کا بیڑا غرق کر کے اور ہر سہولت کا خاتمہ کر کے آج یہ ہاتھ کھڑے کر رہا ہے کہ مجھ سے نہیں ہوتا. یاد رہے کہ
کیا جرم ہے اس کا؟
جنابِ عالی! اس نے فوج کی شان میں گستاخی کی ہے.
کیا گستاخی کی ہے؟
جنابِ عالی! اس نے تمسخر اڑاتی ٹوئیٹ لکھی ہے.
کیا ٹوئیٹ لکھی ہے اس نے؟
جنابِ عالی! یہ کہتا ہے کہ "جب 74 سال میں کشمیر آزاد نہیں کروا سکتے تو اتنا بجٹ کیا گانے ریلیز کرنے کے لیے لیتے ہو؟"
ہاں بھئی! کیا یہ تمہاری ٹوئیٹ ہے؟
جی جناب!
کیا تم جانتے ہو کہ تنقید کرنے اور تمسخر اڑانے کی سزا کیا ہے؟
جی جناب! لیکن میں نے تو بس سوال پوچھا ہے.
جنابِ عالی! اس نے سوال کے پردے میں تمسخر اڑانے کی کوشش کی ہے؟
وہ کیسے؟
جنابِ عالی! یہ فوج پر تنقید کر رہا ہے.
یہی تو پوچھا کہ وہ کیسے؟
جنابِ عالی! یہ کہہ رہا ہے کہ فوج بجٹ لے کر صرف گانے ریلیز کرتی ہے لیکن کشمیر آزاد نہیں کرواتی.
کیا کشمیر آزاد ہو گیا ہے؟
نہیں جناب!
کیا فوج بجٹ نہیں لیتی؟
لیتی ہے جناب!
تو پھر غلط کیا ہے؟
جنابِ عالی! فوج ایک محبِ وطن ادارہ ہے اس سے ایسے سوال پوچھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی.
ایوب خان کا دور پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا دور تھا یہ ایک ایسا لطیفہ ہے جس کے غبارے سے ہوا ایوب خان کی رخصت سے پہلے ہی نکل چکی تھی.
کہتے ہیں کہ ایوب خان نے اپنے دس سالہ دور کا جشن منانے کے لیے The Great Decade of Development and Reform کا نعرہ تخلیق کیا
اوریہ نعرہ ہی اس کےزوال کا نکتہ آغازثابت ہوا.
ایوب کےدور کی ترقی کی بات تو میں بعد میں کروں گی پہلے آپ کو بتادوں کہ ایوب کے وزیر قانون ایس ایم ظفر نے کہا تھاکہ "ایوب خان کا عشرہ ترقی اور چینی، دونوں ایک ساتھ ختم ہوئےتھے."
(چینی کا بحران بھی ایوب کے زوال کی وجوہات میں سے ایک تھی)
یہ خوشحالی و ترقی کا کیسا سفر تھا جو صرف دس سال میں ہی زمین بوس ہو گیا؟
ایوب خان 1956 کے آئین کو معطل کر کے اقتدار پر قابض ہوئے. انہیں یقین تھا کہ ان سے زیادہ قابل، معاملہ فہم، ملکی معاملات کی سوجھ بوجھ رکھنے والا اور کرسیءاقتدار کا اصل حقدار کوئی نہیں.
22فروری سے 25 فروری کے دوران ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھتے ہوئے مزید تین اہداف پورے کرنے کی ذمہ داری دی گئی. یہ اہداف جون میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس سے پہلے پورے کرنے ضروری ہیں. مزید بات کرنے سے پہلے ان اہداف پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں.+
ان اہداف کو پڑھ کر ہی آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ آج اپنا گھر صاف کرنے کا بیان دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ یاد رہے اس سے پہلے احسان اللہ احسان کے فرار میں چند فوجیوں کی معاونت کا اعتراف بھی کیا جا چکا ہے.
ایف اے ٹی ایف نے جن اہداف پر مزید کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے وہ یہ ہیں+
♦نامزد شدت پسندوں یا جو ان کے لیے یا ان کی جگہ کام کر رہے ہیں، ان پر مالی پابندیاں لاگو کرنا.
♦دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والوں کے خلاف تحقیقات اور مقدمات اور ان افراد یا اداروں کو ٹارگٹ کرنا، جو ان کی جگہ کام کر رہے ہیں. +
ابوالتاریخ ہیروڈوٹس ایک قدیم یونانی مؤرخ تھا، تاریخ ہیروڈوٹس مغرب کی تاریخی کتب میں قدیم ترین تاریخی کتب سمجھی جاتی ہے. اس کتاب کو ہیروڈوٹس نے 450 ق م اور 420 ق م کے درمیانی عرصے میں یونانی زبان کے آیونی لہجے میں لکھا.
اس کتاب میں بحیرہ روم اور مغربی ایشیا کی اس وقت کی تہذیب و ثقافت اور روایات کے علاوہ خصوصی طور پر بخامنشی سلطنت کے قیام و عروج کے مستند حالات و واقعات کے علاوہ پانچویں صدی ق م میں بخامنشیوں اور یونانیوں کے مابین ہونے والی جنگوں کے مستند واقعات بھی ملتے ہیں.
اس کتاب میں سندھ اور پنجاب سے لے کر یونان تک پھیلے ہوئے ممالک، فارس اور یونان کی تہذیبی اور سیاسی روایتوں، قدیم یورپ اور ایشیا کے ثقافتی اور مذہبی رسم و رواج، مُردوں کو حنوط کرنے کے مصری طریقوں، ان کے بادشاہوں، جنگوں اور حکومتوں کے متعلق معلومات کا بیش بہا ذخیرہ بھی ملتا ہے.
مجھے کوئی اعتراض نہیں کہ کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی دی جاتی ہے یا نہیں. کن شرائط پر دی جاتی ہے اور اسے کیا کیا سہولیات دی جاتی ہیں؟ وہ عدالت میں اپنی سزا کے خلاف اپیل کا حق رکھتا ہے یا نہیں رکھتا.
ہو سکتا ہے کوئی عالمی قوانین ہوں، ممالک کے آپس میں معاہدے ہوں یا دو-طرفہ امن کی کوششوں کو تقویت پہنچانے کے لیے ایسا کیا جا رہا ہو.
مجھے اعتراض صرف یہ ہے کہ جب ایک منتخب وزیراعظم ہمسائیوں کے ساتھ برابری کی سطح پر دوستانہ تعلقات قائم رکھناچاہتا ہے تو اسےیہ سہولت کیوں نہیں دی جاتی؟
اسے کیوں مودی کا یار اور غدار کہا جاتا ہے؟
آج علی محمد خان کو خیال آ رہا ہے کہ وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھا کوئی شخص ملک کا دشمن نہیں ہو سکتا؛ یہ حُسنِ ظن نوازشریف کی دفعہ کہاں تھا؟