عمر بن عبدالعزیز نے اپنے ایک قاصد کو شاہ روم کے پاس کسی کام سے بھیجا قاصد پیغام پہنچانے کے بعد محل سے نکلا اور ٹہلنے لگا ٹہلتے ٹہلتے اسکو ایک جگہ سے تلاوت کلام پاک سنائی دی آواز کی جانب گیا تو کیا منظر دیکھا کہ ایک نابینا شخص چکی پیس رہا ہے اور ساتھ میں تلاوت بھی کر رہا ہے آگے
بڑھ کے سلام کیا جواب نہیں ملا دوبارہ سلام کیا جواب نہیں ملا تیسری بار سلام کیا نابینا شخص نے سر اٹھا کر کہا شاہ روم کے دربار میں سلام کیسے قاصد نے کہا پہلے یہ بتا کہ شاہ روم کے دربار میں خدا کا کلام کیسے،اس نے بتایا کہ کہ وہ یہاں کا مسلمان ہے بادشاہ نے مجبور کیا کہ اسلام چھوڑ دے
انکار پے سزا کے طور پے دونوں آنکھیں نکال دی گئ اور چکی پیسنے پے لگا دیا
معاملات طے کرنے کے بعد قاصد واپس آیا تو عمر بن عبد العزیز کے سامنے اس قیدی کی بات بھی رکھ دی ،
"کیا لوگ تھے وہ بھی "عمر بن عبد العزیز نے کوئی مذمتی بیان جاری نہیں کیا ،پانچ یا دس منٹ کی خاموشی اختیار کرنے کا
حکم نہیں دیا اجلاس نہیں بلایا،،بلکہ کاغذ قلم لیا اور یہ تحریر شاہ روم کولکھ بھیجی،، *اے شاہ روم میں نے سنا ہےکہ تیرے پاس ایک مسلمان قید ہے اور تو اس پے ظلم روا رکھتا ہے میری یہ تحریر تیرے پاس پہنچنے کے بعد تو نے اس قیدی کی رہائی کا پروانہ جاری نہیں کیا تو پھر ایسے لشکر جرار کا
سامنا کرنا جسکا پہلا فرد تیرے محل میں ہوگا اور آخری میرے دربار میں*،،،،،سوال یہ ہےکہ ایک اسلامی مملکت کے سربراہ نےاتنا بڑا قدم کیوں اٹھایا ایک شخص کے لئے جو اسکےملک کا باشندہ بھی نہیں اپنی سالمیت خطرے میں ڈال دی پتہ ہے کیوں؟ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اگر ایک مسلمان کی حرمت خانہ
کعبہ سے بڑھ کر ہےتو جغرافائی حدود سے بھی بڑھکر ہے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے صرف ایک شخص عثمان بن عفان کے لئے پندرہ سو صحابہ کرام سے موت پہ بیعت لی تھی،،انہیں معلوم تھا کہ ہادی عالم یہ فرما گئے ہے کہ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہے،ایک حصے پے تکلیف ہوتی
ہے تو تمام جسم تڑپتا ہے انہیں معلوم تھا کہ نحن الامہ ہم ایک امت ہے ،،اور جب سے یہ نظریہ ہم سے اٹھا ہے ذلیل و رسواء ہورہے ہے،آج باوجود اسکے کی دنیا میں ڈیڑھ ارب مسلمان موجود ہے لیکن شامی بچی آخری ہچکیاں لیتی ہوئی کہتی ہے میں رب کو جا کر سب کچھ بتاؤنگی،عراق جنگ میں ایک لڑکی جان
بچانے کے لئے بھاگتے ہوئے صحافی سے فریاد کرتی ہے کہ انکل میری تصویر نہیں لینا میں بے حجاب ہوں،ایک فلسطینی بچہ بھوک کی شدت سے نڈھال فریاد کر رہا ہے کہ اے اللہ مجھے جنت بیھج دے مجھے بہت بھوک لگی ہے صرف چند لاکھ آبادی کا حامل ایک ملعون ملک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی
کرتا ہے یہ سب کیوں ہورہا ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے ہم میں سے کوئی ہاکستانی ہے کوئی ہندوستانی کوئی سعودی اماراتی اور کوئی ملائیشن ،،،مسلمان ہوتے تو ایک دوسرے کے لئے تڑپ ہوتی ،،،
اور مقابلے میں کفر نیٹوں کی صورت متحد ہے
اور حد تو یہ ہے کہ اسلامی مملکت کے سر براہان کہتے ہے کہ ہم
نیٹو کے فرنٹ لائن اتحادی ہیں صرف عشق کی نہیں ذلت کی بھی انتہاء نہیں ہوتی،،،، #منقول
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
#تاریخی_تھریڈ
یہ تصویر 1943ء میں فلسطین پہنچے یہودی پناہ گزینوں کی ہے*
جب ایڈولف ہٹلر نے یہودیوں کو تباہ وتاراج کرکے جرمنی سے بھگایا تھا۔
اس وقت دنیا کا کوئی بھی ملک ان یہودیوں کو پناہ نہیں دے رہا تھا۔ امریکہ، فرانس، کیوبا، کینیڈا سمیت دیگر ممالک نے *یہودی پناہ گزینوں* سے کھچا
کھچ بھرے جہازوں کو واپس کردیا تھا۔
بالآخر یہ اپنے بڑے بڑے جہازوں پر مرقوم تحریر "The German destroyed our families & Homes, don't you destroy our Hopes"
(جرمنی نے ہمارے گھر بار اور اہل و عیال کو تباہ کردیا ہے، آپ ہماری امید کو مت کچلنا)کا اشتہار لگائے*پناہ گزین* بن کر فلسطین
سے مدد لینے کے لئے آئے۔
جسے انسانیت کی بنیاد پر فلسطین نے انھیں (یہودیوں کو) پناہ دیکر نئی زندگی بخشی، انھیں اپنی زمین، گھربار دیئے۔
یہی وہ صیہونی احسان فراموش پناہ گزین اسرائیلی یہودی ہیں جو اپنے محسن *فلسطینیوں* کومار کر احسان کابدلہ چکارہے ہیں۔
60لاکھ یہودیوں کو
ڈیفینس کا رئیس زادہ مسجد میں جھاڑو لگا رہا تھا کہ اسی اثنا میں مسجد کے امام صاحب تشریف لاٸے اور فرمایا حضرت یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں ؟
رئیس زادہ : امام صاحب آپ نے ہی بتایا تھا کہ مسجد کی صفاٸی کا بڑا ثواب ہے تو سوچا کہ میں کیوں اس سے محروم رہوں ۔ ۔ ! !
امام صاحب آگے بڑھے موصوف کے
ہاتھ سے جھاڑو لے لیا اور فرمایا : بھئیا یہ ثواب کسی غریب کیلٸے چھوڑ دیں ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نےآپ کو مال دولت دیا ہے آپ کا کام مسجد کی صفاٸی نہیں بلکہ کسی نٸی مسجد اور مکتب کی تعمیر ہے ۔ اگر آپ بھی صفاٸی کر کے ثواب لیں گے تو مسجدوں اور مکتبوں کی تعمیر کون کریگا ؟ ؟
خبر پڑھی کہ ۔ ۔ ۔ ۔
" مسلم لیڈرز نے فلسطین پے جاری بد ترین ظلم کی مذمت کی ہے ۔ "
مسلم لیڈرز کی اس حرکت پر ہم بھی یہ کہیں گے کہ " بھئیا " یہ مذمت والے ثواب کے کام ہم غریبوں کیلٸے چھوڑ دیں ۔ یہ آپ کے لئے نہیں ہیں ۔ آپ کو اللہ نے کرسی ، اقتدار ، فورس ، دنیا کی بہترین ایجنسی اور اوپر سے نیشنل
#پراسرتھریڈ
ہلاکو خان کی بیٹی بغداد میں
گشت کررہی تھی کہ
ایک ہجوم پر اس کی نظر پڑی۔
پوچھا لوگ یہاں کیوں اکٹھے ہیں؟
جواب آیا:
ایک عالم کے پاس کھڑے ہیں۔
اس نے عالم کو اپنے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا۔
عالم کو تاتاری شہزادی کے سامنے لا کر حاضر کیا گیا۔
شہزادی
۔
مسلمان عالم سے سوال کرنے لگی:
کیا تم لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے؟
عالم:
یقیناً ہم ایمان رکھتے ہیں
شہزادی:
کیا تمہارا ایمان نہیں کہ
اللہ جسے چاہے غالب کرتا ہے؟
عالم:
یقیناً ہمارا اس پر ایمان ہے۔
شہزادی:
تو کیا اللہ نے آچ ہمیں
تم لوگوں پر غالب نہیں کردیا ہے؟
عالم:
یقیناً کردیا ہے-
شہزادی:
تو کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ
خدا ہمیں تم سے زیادہ چاہتا ہے؟
عالم:
نہیں
شہزادی:
کیسے؟
عالم:
تم نے کبھی چرواہے کو دیکھا ہے؟
شہزادی:
ہاں دیکھا ہے
عالم:
کیا اس کے ریوڑ کے پیچھے چرواہے نے
اپنے کچھ کتے رکھے ہوتے ہیں؟
شہزادی:
ہاں رکھے ہوتے ہیں
جنرل پرویز مشرف نے کبھی کعبے کا دروازہ اپنے ہاتھوں سے کھولا
تو کبھی نواز شریف نے
اور کبھی عمران خان ننگے پیر مدینے کی سڑکوں پر چلے ....
مگر
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ حکومتی معاملات اور صلیبیوں کے مقابلے میں اتنا مشغول رہے کہ کبھی کعبہ نہ دیکھ سکے،
ایوبیؒ نے حاجیوں پر حملہ
کرنے والے صلیبیوں کو ختم کرنے کا وقت تو نکال لیا لیکن اپنی خواہش کے باوجود کبھی جنگ اور کبھی فتنوں کی وجہ سے حاجی نہ بن سکے.
یہ کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔
کیونکہ مسلم حکمرانوں کو معلوم تھا کہ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کا دفاع اپنی انفرادی عبادات سے پہلے آتا ہے.
اسی لیے حکمران
کو پرکھنے کا معیار یہ نہیں ہوتا کہ وہ تہجد کتنی پڑھتا ہے یا کعبے کے دروازے اس کیلیے کتنی بار کھولے گئے
بلکہ معیار تو یہ ہے کہ حکمران کو جہاں اقتدار ملا ہے وہاں اللّٰہﷻ کا دین غالب ہے یا نہیں؟
مظلوم کو protection حاصل ہے یا نہیں؟
مارخور بولتا نہیں دشمنوں کی چیخیں بتاتی ہیں کہ مارخور آیا تھا۔۔۔
جب اسرائیل اور مصر کی جنگ لگی
مصر کے پاس جنگی طیارے تو تھے مگر ان کو اڑانے کے لیے بہترین پائلٹ نہ تھے
پھر اچانک سے وہ ہی مصر کے طیارے نہ صرف اڑنے لگے مگر اسرائیلیوں کی خوب پٹائی کی
دنیا نے پتا لگایا تو معلوم ہوا
کہ وہ طیارے تو مصر کے تھے مگر ان میں اندر پاکستانی مارخور اڑا رہے تھے
اب آجائیں ایک سال پرانی جنگ جو آذر بائیجان جو مسلم ملک ہے اور ارمینیا ملکوں میں جنگ شروع ہوئی
ارمینیا آگے بڑھ رہا تھا خطرہ تھا کہ آذربائیجان کے مسلمان شکست کھاجائیں گے پھر اچانک سے ایسا کیا ہوا کہ آذربائیجان
نے ارمینیا کی خوب پٹائی کر کہ ان کو بری شکست دی ؟
جب آذر بائیجان کے فوجیوں نے بے خبری میں اپنے مورچوں سے وڈیوز شئیر کی تو پتا چلا ان کے ساتھ پاکستان کے ایس ایس جی کے مارخور کھڑے تھے
باقی سننے میں آیا ہے کہ فلسطین میں بھی مارخوروں کے نشانات پائے گئے ہیں آگے آپ خود سمجھدار ہیں 😎
👇 کچھ دنوں پہلے اسرائیل کے کچھ نوجوان اپنے ہاتھوں میں اک تختی لیکر سڑکوں پر دیکھے گیے
جس پر لکھا تھا (khaibar was your Last chance ) (خیبر کی فتح تمہارے لیے آخری موقع تھا)
کیا آپ کو اس کا مطلب پتہ ہے؟۔۔۔
نہیں نا۔۔۔۔ تو آئیے جانتے ہیں۔
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور حیات میں یہودیوں سے ایک جنگ ہوئی تھی ۔اس جنگ میں حضرت علی کرم اللہ بھی شریک تھے۔
جس میں حضرت علی رضی اللہ کی ڈھال ٹوٹ گئی تھی اور جزبات میں حضرت علی نے در خیبر ( خیبر کا دروازہ ) اکھاڑ دیا تھا آپ کو جان کر
حیرانی ہوگی کہ اس دروازے کا وزن اتنا تھا کہ جنگ کے بعد 40 لوگ مل کر بھی نہیں ہلا سکے تھے ۔ اس جنگ میں یہودیوں کو بہت بری طرح شکست اور ہار ملی تھی
یہ جنگ اتنی پرانی ہے کہ 80٪ مسلمانوں کو یاد نہیں کیونکہ مسلمان صرف ایک لفظ بن کر رہ گئے ہیں پر یہودی آج بھی وہ تختی لےکر اپنے دل میں