#تاریخی_تھریڈ
یہ تصویر 1943ء میں فلسطین پہنچے یہودی پناہ گزینوں کی ہے*
جب ایڈولف ہٹلر نے یہودیوں کو تباہ وتاراج کرکے جرمنی سے بھگایا تھا۔
اس وقت دنیا کا کوئی بھی ملک ان یہودیوں کو پناہ نہیں دے رہا تھا۔ امریکہ، فرانس، کیوبا، کینیڈا سمیت دیگر ممالک نے *یہودی پناہ گزینوں* سے کھچا
کھچ بھرے جہازوں کو واپس کردیا تھا۔
بالآخر یہ اپنے بڑے بڑے جہازوں پر مرقوم تحریر "The German destroyed our families & Homes, don't you destroy our Hopes"
(جرمنی نے ہمارے گھر بار اور اہل و عیال کو تباہ کردیا ہے، آپ ہماری امید کو مت کچلنا)کا اشتہار لگائے*پناہ گزین* بن کر فلسطین
سے مدد لینے کے لئے آئے۔
جسے انسانیت کی بنیاد پر فلسطین نے انھیں (یہودیوں کو) پناہ دیکر نئی زندگی بخشی، انھیں اپنی زمین، گھربار دیئے۔
یہی وہ صیہونی احسان فراموش پناہ گزین اسرائیلی یہودی ہیں جو اپنے محسن *فلسطینیوں* کومار کر احسان کابدلہ چکارہے ہیں۔
60لاکھ یہودیوں کو
مارکر (ایک تہائی آبادی) ختم کرنے والے جرمن تانا شاہ *ایڈولف ہٹلر* نے کچھ یہودیوں کو زندہ چھوڑتے ہوئے *یہ تاریخی جملہ* کہا تھاکہ میں *ان کو زندہ اس لئے چھوڑ رہا ہوں تاکہ دنیا دیکھے کہ میں نے انھیں کیوں مارا تھا #منقول
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
اس نے ڈاکٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کوئی ایسی دوا دیں
کہ اس مرتبہ
میری بہو کا بیٹا ہی ہو،
دو بیٹیاں پہلے ہیں، اب تو بیٹا ہی ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر نے جواب دیا،
میڈیکل سائنس میں ایسی کوئی دوائی نہیں ہے
ساس نے کہا کہ پھر کسی اور
ڈاکٹر کا بتا دیں؟
ڈاکٹر نے کہا کہ آپ نے شاید بات غور سے نہیں سنی، میں نے یہ نہیں کہا کہ مجھے دوائی کا نام نہیں آتا۔ میں نے یہ کہا کہ میڈیکل سائنس میں ایسی کوئی دوائی نہیں ہے۔
اس موقع پر لڑکی کا سسر بولا کہ وہ فلاں لیڈی ڈاکٹر تو
ڈاکٹر نے بات کاٹتے ہوئے کہا کہ وہ جعلی ڈاکٹر
ہوگا، اس طرح کے دعوے جعلی پیر، فقیر، حکیم وغیرہ کرتے ہیں، سب فراڈ ہے یہ۔
اب لڑکی کے شوہر نے کہا کہ اس کا مطلب ہماری نسل پھر نہیں چلے گی؟
ڈاکٹر نے کہا کہ یہ نسل چلنا کیا ہوتا ہے؟
آپ کے جینز کا اگلی نسل میں ٹرانسفر ہونا ہی نسل چلنا ہے نا؟
تو یہ کام تو آپ کی بیٹیاں بھی کر دیں
#ہماری_تربیت
شادی کےتین سال کے بعد ساسُو ماں نے بہو سے پوچھا بہو مجھے ایک بات تو بتا میں تجھے اتنی خراب اور کھری کھری باتیں سناتی ہوں اور تو پلٹ کر جواب بھی نہیں دیتی اور غصہ بھی نہیں کرتی بس ہنستی رہتی ہے۔
بہو کو تو جیسے سنانے کو کہانی مل گئی۔۔۔
کہنے لگی اماں جی آپ کو ایک بات
سناتی ہوں میں جب چھوٹی تھی مجھے ہمیشہ ایسا لگتا تھا کہ میری ماں میری سگی ماں نہیں کیوں کے وہ میرے سے گھر کے سارے کام کرواتی تھی اور کوئی کام غلط ہو جاتا تو مجھے ڈانٹ بھی پڑتی اور کبھی کبھی مار بھی دیتی تھی لیکن ماں تھی وہ میری، اور ان سے ڈر بھی لگتا تھا تو کبھی غصہ نہیں کیا میں
نے ان سے۔
یہاں تک کے میں کالج سے تھک کر واپس آتی تو آتے ہی کچھ دیر آرام کے بعد مجھے کام کرنے ہوتے تھے پھر جب میری بھابیاں آئیں تب تو جیسے میرے کام زیادہ ہی بڑھ گئے، ہوتا تو ایسے ہے نا کے بہو آئی تو ساری ذمہ داریاں اس پر ڈال دی۔۔!!! میری امی نے پھر بھی میرے سے کام کروایا اور کبھی
ڈیفینس کا رئیس زادہ مسجد میں جھاڑو لگا رہا تھا کہ اسی اثنا میں مسجد کے امام صاحب تشریف لاٸے اور فرمایا حضرت یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں ؟
رئیس زادہ : امام صاحب آپ نے ہی بتایا تھا کہ مسجد کی صفاٸی کا بڑا ثواب ہے تو سوچا کہ میں کیوں اس سے محروم رہوں ۔ ۔ ! !
امام صاحب آگے بڑھے موصوف کے
ہاتھ سے جھاڑو لے لیا اور فرمایا : بھئیا یہ ثواب کسی غریب کیلٸے چھوڑ دیں ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نےآپ کو مال دولت دیا ہے آپ کا کام مسجد کی صفاٸی نہیں بلکہ کسی نٸی مسجد اور مکتب کی تعمیر ہے ۔ اگر آپ بھی صفاٸی کر کے ثواب لیں گے تو مسجدوں اور مکتبوں کی تعمیر کون کریگا ؟ ؟
خبر پڑھی کہ ۔ ۔ ۔ ۔
" مسلم لیڈرز نے فلسطین پے جاری بد ترین ظلم کی مذمت کی ہے ۔ "
مسلم لیڈرز کی اس حرکت پر ہم بھی یہ کہیں گے کہ " بھئیا " یہ مذمت والے ثواب کے کام ہم غریبوں کیلٸے چھوڑ دیں ۔ یہ آپ کے لئے نہیں ہیں ۔ آپ کو اللہ نے کرسی ، اقتدار ، فورس ، دنیا کی بہترین ایجنسی اور اوپر سے نیشنل
عمر بن عبدالعزیز نے اپنے ایک قاصد کو شاہ روم کے پاس کسی کام سے بھیجا قاصد پیغام پہنچانے کے بعد محل سے نکلا اور ٹہلنے لگا ٹہلتے ٹہلتے اسکو ایک جگہ سے تلاوت کلام پاک سنائی دی آواز کی جانب گیا تو کیا منظر دیکھا کہ ایک نابینا شخص چکی پیس رہا ہے اور ساتھ میں تلاوت بھی کر رہا ہے آگے
بڑھ کے سلام کیا جواب نہیں ملا دوبارہ سلام کیا جواب نہیں ملا تیسری بار سلام کیا نابینا شخص نے سر اٹھا کر کہا شاہ روم کے دربار میں سلام کیسے قاصد نے کہا پہلے یہ بتا کہ شاہ روم کے دربار میں خدا کا کلام کیسے،اس نے بتایا کہ کہ وہ یہاں کا مسلمان ہے بادشاہ نے مجبور کیا کہ اسلام چھوڑ دے
انکار پے سزا کے طور پے دونوں آنکھیں نکال دی گئ اور چکی پیسنے پے لگا دیا
معاملات طے کرنے کے بعد قاصد واپس آیا تو عمر بن عبد العزیز کے سامنے اس قیدی کی بات بھی رکھ دی ،
"کیا لوگ تھے وہ بھی "عمر بن عبد العزیز نے کوئی مذمتی بیان جاری نہیں کیا ،پانچ یا دس منٹ کی خاموشی اختیار کرنے کا
#پراسرتھریڈ
ہلاکو خان کی بیٹی بغداد میں
گشت کررہی تھی کہ
ایک ہجوم پر اس کی نظر پڑی۔
پوچھا لوگ یہاں کیوں اکٹھے ہیں؟
جواب آیا:
ایک عالم کے پاس کھڑے ہیں۔
اس نے عالم کو اپنے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا۔
عالم کو تاتاری شہزادی کے سامنے لا کر حاضر کیا گیا۔
شہزادی
۔
مسلمان عالم سے سوال کرنے لگی:
کیا تم لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے؟
عالم:
یقیناً ہم ایمان رکھتے ہیں
شہزادی:
کیا تمہارا ایمان نہیں کہ
اللہ جسے چاہے غالب کرتا ہے؟
عالم:
یقیناً ہمارا اس پر ایمان ہے۔
شہزادی:
تو کیا اللہ نے آچ ہمیں
تم لوگوں پر غالب نہیں کردیا ہے؟
عالم:
یقیناً کردیا ہے-
شہزادی:
تو کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ
خدا ہمیں تم سے زیادہ چاہتا ہے؟
عالم:
نہیں
شہزادی:
کیسے؟
عالم:
تم نے کبھی چرواہے کو دیکھا ہے؟
شہزادی:
ہاں دیکھا ہے
عالم:
کیا اس کے ریوڑ کے پیچھے چرواہے نے
اپنے کچھ کتے رکھے ہوتے ہیں؟
شہزادی:
ہاں رکھے ہوتے ہیں
جنرل پرویز مشرف نے کبھی کعبے کا دروازہ اپنے ہاتھوں سے کھولا
تو کبھی نواز شریف نے
اور کبھی عمران خان ننگے پیر مدینے کی سڑکوں پر چلے ....
مگر
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ حکومتی معاملات اور صلیبیوں کے مقابلے میں اتنا مشغول رہے کہ کبھی کعبہ نہ دیکھ سکے،
ایوبیؒ نے حاجیوں پر حملہ
کرنے والے صلیبیوں کو ختم کرنے کا وقت تو نکال لیا لیکن اپنی خواہش کے باوجود کبھی جنگ اور کبھی فتنوں کی وجہ سے حاجی نہ بن سکے.
یہ کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔
کیونکہ مسلم حکمرانوں کو معلوم تھا کہ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کا دفاع اپنی انفرادی عبادات سے پہلے آتا ہے.
اسی لیے حکمران
کو پرکھنے کا معیار یہ نہیں ہوتا کہ وہ تہجد کتنی پڑھتا ہے یا کعبے کے دروازے اس کیلیے کتنی بار کھولے گئے
بلکہ معیار تو یہ ہے کہ حکمران کو جہاں اقتدار ملا ہے وہاں اللّٰہﷻ کا دین غالب ہے یا نہیں؟
مظلوم کو protection حاصل ہے یا نہیں؟