جنرل رانی کون تھی؟
اقلیم اختر کو جرنل رانی کا خطاب ذوالفقار علی بھٹو نے دیا تھا۔
اقلیم اختر 1931 کو گجرات میں ایک چھوٹے سے زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئیں فرسودہ اور روایتی گھرانے میں پیدا ہونے کے باعث جرنل رانی میٹرک بھی نہیں کر پائ کہ کمسنی میں ہی ایک تھانیدار سے ان کی شادی
کر دی گئی۔پھر یکے بعد دیگرے ان کے چھ بچے ہوئے۔ اس دوران جرنل رانی کے تھانیدار شوہر کا تبادلہ مری میں ہوگیا یوں جرنل رانی بھی بچوں کے ہمراہ مری شفٹ ہو گئیں۔
ایک دن جرنل رانی برقعہ اوڑھے اپنے شوہر کے ہمراہ مری مال روڈ پر پیدل کہیں جا رہی تھی کہ اچانک تیز ہوا کا ایک جھونکا آیا اور
جرنل رانی کے چہرے کے سامنے سے برقعہ ہٹ گیا اور دوسرا جھونکا جرنل رانی کے چہرے پہ کیا لگا جرنل رانی کی زندگی ہی بدل کر چلا گیا تھانیدار نے غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے رانی کو ڈانٹا کہ اپنا چہرہ ڈھانپو مگر جرنل رانی کی زندگی ہوا کا وہ جھونکا بدل چکا تھا برسوں کی محرومیاں بغاوت کا
میدان سجا چکی تھیں جرنل رانی نے اپنا برقعہ وہی اتار کر روڈ پہ پھینکا اور چیخ کر تھانیدار کو کہا تم ہوتے کون ہو میرے چہرے کے بارے میں غیرت کھانے والے۔
یہاں سے اقلیم اختر سے جرنل رانی کا سفر شروع ہوا.. پھر اس جرنل رانی نے اس وقت کے حکمران جرنل یحییٰ، حکومتی وزراء، بیورو کریسی سب
کو اپنا گرویدہ بنا لیا جرنل رانی نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ مرد جسم کا بھوکا ہے اسے گوشت دیتے رہو یہ تمہارے قدم چاٹتا رہتا ہے یہاں تک وہ حاکم وقت ہی کیوں نہ ہو۔
آئ جی پولیس سردار محمد چوہدری اپنی کتاب
"جہاں حیرت" میں لکھتے ہیں کہ ایران کے شاہ سرکاری دورے پہ پاکستان آئے
ہوئے تھے اور جرنل یحییٰ اپنے روم سے باہر نہیں نکل رہے تھے اور پروٹوکول کا مسئلہ درپیش تھا۔ مجبوراً جرنل رانی کو بلوایا گیا تاکہ وہ صدر پاکستان جرنل یحییٰ کو روم سے باہر لے کر آئے۔
بقول جرنل رانی: صدر پاکستان نورجہاں کے ساتھ کمرے میں رنگ رلیاں منا رہے تھے پھر میں نے نورجہاں نے
مل کر یحییٰ خان کو کپڑے پہنائے۔
حکومتی ایوانوں میں شراب و کباب کی تمام تر محافل کے انعقاد کی ذمہ داریاں جرنل رانی کے سپرد تھیں ترانہ بیگم اور نورجہاں کو بھی جرنل یحییٰ سے ملوانے والی جرنل رانی ہی تھیں ۔
ترانہ بیگم کے حوالے سے ایک بات مشہور ہے کہ جرنل یحییٰ ترانہ بیگم کی ناف میں
شراب ڈال کر چاٹتا تھا۔
شاید اسی لیے آغا شورش کاشمیری نے پاکستان ٹوٹنے کے حوالے سے کہا تھا کہ
"پاکستان توڑنے والے تو ان گنت ہیں لیکن ان میں انگور کا پانی اور جرنل رانی نمایاں ہیں"
جرنل رانی کس قدر حکومتی نمائندہ گان اور فوجی افسران کے کرتوتوں سے واقف تھیں کہ جب سقوطِ ڈھاکہ
کا سانحہ پیش آیا تو چند دن بعد جرنل رانی کو حکومت نے نظر بند کروا دیا تھا۔ ان کا ٹیلی فون کنکشن کاٹ دیا گیا، تب جرنل رانی کو سختی سے منع کیا گیا کہ آپ نے کبھی منہ نہیں کھولنا کوئ ایسی بات نہیں کرنی کہ جہاں پاکستان کو مزید نقصان پہنچے۔
مشہور زمانہ وکیل ایس ایم ظفر نے ان کا مقدمہ
لڑا تھا جس سے وہ رہا ہوگئیں بعد میں جب ایس ایم ظفر نے اپنی کتاب "میرے مشہور مقدمات" لکھی تو اس میں جرنل رانی کے انکشافات لکھے جو کہ دل کو دہلا دینے والے ہیں۔
یہاں ہر مقامی و قومی وزیر اور فوجی جرنیلوں، برگیڈیئروں، کرنلوں، میجروں اور دیگر افسران کے پاس کوئی نا کوئی جرنل رانی رہی
ہے جب ہم پاکستان کی تاریخ کو باریک بینی سے پڑھیں تو کراہت، بدبو، اور خونی کھیل کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا بس جرنل رانیاں اور لوٹ مار ہے۔
یقین کیجیے کہ یہ سب لکھتے اور پڑھتے ہوۓ ہمارے بھی سر شرم سے جھک گئے۔ کئ بار قلم کو روکنا چاہا اور ان سب انکشافات کو پڑھتے ہوۓ آنکھیں بند
کرنے کا دل ہوا مگر سچائ تو کبھی چھپ ہی نہیں سکتی مگر جن جرنیلوں نے اپنے مفاد اور رنگ رلییوں کی خاطر ملک توڑا اور بیچا اور ابتک اس گھناؤنے کھیل میں مصروف ہیں انکو شرم نام کے لفظ سے کوئ شناسائ ہے ہی نہیں،
بلکہ وہ تو اپنی بے شرمیاں اور جرائم چھپانے کی لیے بے قصوروں میں غداری کے سرٹیفیکیٹ بڑے فخر اور ڈھٹائی سے تقسیم کرتے پھر رہے ہیں۔ @threader_app compile please.
یہ بتانا ضروری تو نہیں لیکن ضمناً سن لیجیے کہ جنرل رانی عدنان سمیع خان کی رشتے کی اور فخرِ عالم کی سگی نانی ہیں۔
ان کا انتقال یکم جولائی 2002 کو لاہور میں ہوا۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
دیش کا المیہ یہی ہے کہ بہتر سال بعد بھی آمریت کے سائے سے نجات ممکن نہیں ہوسکی۔12اکتوبر کو آئین کی پامالی کا جو سلسلہ شروع ہوا۔وہ آج بھی جاری و ساری ہے۔جمہوریت **
ایک خواب کی طرح لگتی ہے۔پہلے آمریت سامنے آکر وار کرتی تھی۔اب کسی کی پشت پناہ بنی ہوئی ہے۔
12اکتوبرکی کہانی دن دس بجے شروع ہوتی ہے۔وزیراعظم نواز شریف شجاع آباد کیلئےروانہ ہوتے ہیں۔اس دوران وہ ہدایت کرتے ہیں کہ واپسی پروہ سیکرٹری دفاع جنرل ریٹائرڈ افتخارعلی سے ***
ملاقات کرینگے۔طیارےمیں انکے ساتھ حسین نواز،پرویزرشیدجو چیرمین قومی ٹیلی ويژن تھےاور نذیرناجی اکٹھےسوارہوتےہیں۔
طیارےمیں نذیرناجی کو حسین نوازکی لکھی انگریزی تقریر دکھائی جاتی ہے۔وہ اسکا اردو ترجمہ کرتےہیں۔اس مسودےمیں جنرل مشرف کوبرطرف کرنے کا کوئی **