ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﯽ ﺍﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﻏﯽ ﻧﮩﯿﮟ جو آپ کو دے سکوں قاضی ﻧﮯ کہا کہ کوئی بات نہیں ، ﯾﮩﯽ مرغی ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮮ ﺩﻭ ﻣﺎﻟﮏ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﮐﮩﻨﺎ کہ مرغی ﺍﮌ ﮔﺌﯽھے ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ کہ" ﺍﯾﺴﺎ
ﮐﮩﻨﮯ ﮐﺎ بھلا ﮐﯿﺎ ﻓﺎﺋﺪﮦ ھو گا ؟ مرغی تو ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﺫﺑﺢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯼ تھی پھر ﺫﺑﺢ ﮐﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﯿﺴﮯ ﺍﮌ سکتی ھے قاضی ﻧﮯ ﮐﮩﺎ- " ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﻮﮞ اسے غور سے ﺳﻨﻮ ! ﺑﺲ ﯾﮧ مرغی ﻣﺠﮭﮯ
ﺩﮮ ﺩﻭ ﺍﺱ کے مالک ﺳﮯ ﯾﮩﯽ ﮐﮩﻮ ﮐﮧ تیری مرغی ﺍﮌ ﮔﺌﯽ ھے - ﻭﮦ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ خلاف مقدمہ لے کر ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁﺋﮯ ہی ﮔﺎ ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ کہ " ﺍﻟﻠﻪ سب کا ﭘﺮﺩﮦ ﺭﮐﮭﮯ" اور مرغی قاضی کو
پکڑا دی قاضی ﻣﺮﻏﯽ ﻟﮯ ﮐﺮ نکل ﮔﯿﺎ ﺗﻮ مرغی کا ﻣﺎﻟﮏ ﺑﮭﯽ ﺁ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ دکاندار سے ﮐﮩﺎ کہ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﺎﭦ ﺩﯼ ھے ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ " میں نے تو کاٹ دی تھی مگر ﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﺮﻏﯽ ﺍﮌ ﮔﺌﯽ ھے ﻣﺮﻏﯽ ﻭالے نے
حیران ھو کر پوچھا : بھلا وہ ﮐﯿﺴﮯ ؟ "ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﺫﺑﺢ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﮌ ﮐﯿﺴﮯ ﮔﺌﯽ ھے ؟ دونوں میں پہلے نوک جھونک شروع ھوئی اور پھر بات جھگڑے تک جا پہنچی جس پر ﻣﺮﻏﯽ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ کہ" ﭼﻠﻮ ﻋﺪﺍﻟﺖ قاضی کے پاس چلتے ھیں "
اور چل پڑے ﺩﻭﻧﻮﮞ نے ﻋﺪﺍﻟﺖ ﺟﺎﺗﮯ ھﻮﺋﮯ ﺭﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺩﻭ ﺁﺩﻣﯽ ﻟﮍ ﺭھﮯ ہیں ، ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ھﮯ جبکہ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﯾﮩﻮﺩﯼ - ﭼﮭﮍﺍﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﮐﯽ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﯽ آنکھ ﻣﯿﮟ
ﺗﻮ ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﺍپنے آپ کو چھڑا ﮐﺮ ﺑﮭﺎﮔﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﻣﮕﺮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﻗﺮﯾﺒﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ھو کر ﻣﯿﻨﺎﺭ ﭘﺮﭼڑھ ﮔﯿﺎ ﻟﻮﮒ جب ﺍﺱ ﮐﻮ ﭘﮑﮍﻧﮯ ﮐﮯ لئے ﻣﯿﻨﺎﺭ ﭘﺮ ﭼﮍﮬﻨﮯ ﻟﮕﮯ
ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭼﮭﻼﻧﮓ ﻟﮕﺎﺋﯽ تو ﺍﯾﮏ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺁﺩﻣﯽ ﭘﺮ ﮔﺮ ﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺑﻮﮌﮬﺎ ﻣﺮ ﮔﯿﺎ ﺍﺏ ﺍﺱ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎتھ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﭘﮑﮍ لیا ﺍﻭﺭ سب اس کو ﻟﮯ ﮐﺮ قاضی ﮐﮯ ﭘﺎس ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ
قاضی مرغی فروش ﮐﻮ ﺩﯾکھ ﮐﺮ ﮨﻨﺲ ﭘﮍﺍ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺳﮯ ﻣﺮﻏﯽ ﯾﺎﺩ ﺁ ﮔﺌﯽ ﻣﮕﺮ ﺑﺎﻗﯽ ﺩﻭ ﮐﯿﺴﻮﮞ ﮐﺎ ﻋﻠﻢ اسے ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ قاضی ﮐﻮ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﮐﯿﺴﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ اس نے سر پکڑ لیا - اس
کے بعد چند کتابوں کو الٹا پلٹا اور کہا کہ "ھم تینوں مقدمات کا یکے بعد دیگرے فیصلہ سناتے ھیں" ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﮐﻮ ﺑﻼﯾﺎ ﮔﯿﺎ قاضی نے پوچھا ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﭘﺮ
ﮨﮯ؟؟ قاضی: '' ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﺍﻟﻠﻪ اور اس کی قدرت ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﻮ؟ ﻣﺮﻏﯽ ﻭﺍﻻ: ''ﺟﯽ ﮨﺎﮞ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ قاضی صاحب قاضی: '' ﮐﯿﺎ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﮨﮉﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺯﻧﺪﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﻗﺎﺩﺭ ﻧﮩﯿﮟ۔۔۔ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ
ﻣﺮﻏﯽ ﮐﺎ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﮌﻧﺎ بھلا کیا مشکل ھے ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻣﺮﻏﯽ کا مالک خاموش ھو گیا اور اپنا کیس واپس لے لیا قاضی: '' ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﺪﻋﯽ ﮐﻮ ﻻﺅ '' - ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﻮ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ عرض کیا کہ ''
ﻭﺍﭘﺲ ﻟﯿﺘﺎ ﮨوں قاضی: " ﺗﯿﺴﺮﺍ مقدمہ بھی پیش کیا جائے ﻣﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮐﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﺎ ﺍﻭﺭ عرض کیا کہ " قاضی صاحب ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺎﭖ ﭘﺮ ﭼﮭﻼﻧﮓ ﻟﮕﺎﺋﯽ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻭﮦ ﻣﺮﮔﯿﺎ قاضی تھوڑی
دیر ﺳﻮﭼﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﻮﻻ: " ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻭکہ تم لوگ ﺍسی ﻣﯿﻨﺎﺭ پر جاؤ ﺍﻭﺭ مدعی ﺍﺱ ﻣﯿﻨﺎﺭ ﭘﺮ ﭼﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﺱ مدعی علیہ (ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ) ﭘﺮ اسی طرح ﭼﮭﻼﻧﮓ ﻟﮕﺎ دے جس طرح مرغی فروش نے اس کے باپ
پر چھلانگ لگائی تھی نوجوان نے کہا: " قاضی صاحب ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﮔﺮ ﮐﺮ ﻣﺮﺟﺎﺅﮞ گا قاضی نے کہا " ﯾﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ، میرا کام عدل کرنا ھے - ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺑﺎﭖ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ
ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ ؟؟؟ نوجوان نے اپنا دعوی واپس لے لیا -
نتیجہ اگر آپ کے پاس قاضی کو دینے کے لئے مرغی ھے تو پھر قاضی بھی آپ کو بچانے کا ہر ھنر جانتا ھے -
اُمید ہے پاکستانی نظامِ عدل کے تناظر میں آپ اس کہانی کا مطلب سمجھ گئے ہوں گے ؟
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
حضرت عمر رضی اللہ تعالہ عنہ کے دور خلافت میں مدینہ میں ایک گویا (singer) تھا جو گایا کرتا تھا طبلہ سارنگی کے بغیر اس زمانے میں یہ بھی بھت معیوب سمجھا جاتا تھا جب اس کی عمر 80 سال ھو گئی تو آواز نے ساتھ چھوڑ دیا اب کوئی اس کا گانا نہیں سنتا تھا گھر میں فقر و فاقے نے
ڈیرے ڈال لئے ایک ایک کر کے گھر کا سارا سامان بِک گیا آخر تنگ آ کر وہ شخص جنت البقیع میں گیا اور بے اختیار اللہ کو پکارا کہ یا اللہ ! اب تو تجھے پکارنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔۔۔۔۔مجھے بھوک ھے میرے گھر والے پریشان ھیں یا اللہ ! اب مجھے کوئی نہیں سنتا تو تو
سن تو تو سن میں تنگ دست ہوں تیرے سوا میرے حال سے کوئی واقف نہیں حضرت عمر مسجد میں سو رہے تھے کہ خواب میں آواز آئی عمر ! اٹھو بھاگو دوڑو ۔۔ میرا ایک بندہ مجھے بقیع میں پکار رہا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ننگے سر ننگے پیر جنت البقیع کی طرف دوڑے کیا
ہیڈ ماسٹر تصدُق صاحب کے بارے میں ایک واقعہ مشہور ہے جب وہ گورنمنٹ ہائی اسکول میں استاد تعینات تھے تو انہوں نے اپنی کلاس کا ٹیسٹ لیا۔ یسٹ کے خاتمے پر انہوں نے سب کی کاپیاں چیک کیں اور ہر بچے کو اپنی اپنی کاپی اپنے ہاتھ میں پکڑکر ایک قطار میں کھڑا ہوجانے کو کہاانہوں نے اعلان کیا کہ
جس کی جتنی غلطیاں ہوں گی، اس کے ہاتھ پر اتنی ہی چھڑیاں ماری جائیں گی۔ اگرچہ وہ نرم دل ہونے کے باعث بہت ہی آہستگی سے بچوں کو چھڑی کی سزا دیتے تھے تاکہ ایذا کی بجائے صرف نصیحت ہو، مگر سزا کا خوف اپنی جگہ تھا۔ تمام بچے کھڑے ہوگئے۔ ہیڈ ماسٹر
سب بچوں سے ان کی غلطیوں کی تعداد پوچھتے جاتے اور اس کے مطابق ان کے ہاتھوں پر چھڑیاں رسید کرتے جاتے۔ ایک بچہ بہت گھبرایا ہوا تھا۔ جب وہ اس کے قریب پہنچے اور اس سے غلطیوں کی بابت دریافت کیا تو خوف کے مارے اس کے ہاتھ سے کاپی گرگئی اور کپکپاتے
بابا نے میرا ہاتھ پکڑا اور میری مُٹھی عجوہ کھجوروں سے بھر دی فرمایا کھاؤ اور ساتھ بِٹھا کے فرمانے لگے بتاؤ تو حیاتی کِس کو کہتے ہیں میں نے کہا زندگی کو تو میرے سر پر ہلکی سی چپت لگا کر فرمانے لگے نہیں نکمی، حیاتی تو وہ ہوتی ہے جِسے کبھی موت نہیں آتی دیکھو نا، اللّٰه تعالی کا ایک
ایک لفظ ہیرے یاقوت و مرجان سے زیادہ پیارا اور قیمتی اور نصیحتوں سے بھرپور ہے اللّٰه پاک نے یہ نہیں کہا کہ " اِسلام مکمل ضابطہ زندگی ہے " بلکہ یوں کہا کہ " مکمل ضابطہ حیات ہے " ۔ حیاتی تو مرنے کے بعد شروع ہو گی جِسے کبھی موت نہیں آئے گی پھر
گلاس میں میرے لئے زم زم ڈالتے ہُوئے فرمانے لگے میرے پتر ! اللّٰہ نے زندگی دی ہے حیات کو سنوارنے کے لئے نہ کہ بگاڑنے کے لئے، تو یہ زندگی بھی بھلا کوئی حیاتی ہے جِس کو موت آ جائے گی ... اصل تو وہ حیات ہے جِس کو کبھی زوال نہیں،
صور کیا ہے؟
حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ "وہ ایک بیل کا بہت بڑا سینگھ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کا نبی بنا کر مبعوث فرمایا کہ اس صور کے ہر دائرے کی لمبائی اور چوڑائی زمین و آسمان کہ برابر ہے اس صور میں تین مرتبہ پھونکا جائے گا۔
ایک دفعہ صور میں پھونکا جائے گا گھبراہٹ کے لیے۔دوسری مرتبہ صور میں پھونکا جائے گا بے ہوشی کے لیے۔تیسری مرتبہ جب صور پھونکا جائے گا تو سب بے ہوش اور مدہوش کو اٹھانے کے لیے ہو گا۔جب اللہ تعالی پہلی مرتبہ حضرت اسرافیل علیہ السلام کو صور پھونکنے کا حکم کریں
گے تو جتنے لوگ زمین و آسمان میں ہوں گے سب کہ سب گھبرا جائیں گے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا"و یوم ینفع فی الصور ففزع من فی السموت و من فی الارض"اور اس دن کہ جب صور میں پھونکا جائے گا تو جو کچھ زمین و آسمان میں ہے سب پریشان ہو جائیں گے۔یعنی جو
لکھنو شہر میں ایک نائی کو ہر ایک کی نمازِ جنازہ میں شریک ہونے کی عادت تھی وہ اپنا اوزاروں والا باکس اٹھائے شہر بھر گھومتے رہتے جہاں کہیں اُنہیں معلوم ہوتا کہ کسی کا نمازِ جنازہ ہونے والا ہےوہ اپنا باکس کسی دکان پررکھ کر اُس کے جنازے میں شرکت کے لئے پہنچ جاتے کبھی ایسا بھی ہوتا کہ
اُنہیں کئی میل پیدل چل کر شہر کے کسی کونے میں نماز جنازہ پڑھنے جانا پڑتا لیکن انہوں نے کبھی اِسے زحمت نہیں سمجھا اور پورے خلوص دل کے ساتھ شریک ہوتے۔۔۔۔۔۔۔ایک دِن اُنکے پہچان کے کسی دکاندار نے اُن سے پوچھ ہی لیا کہ تم بہت سے مرحوم کو تو جانتے تک
نہیں ہو اِس کے باوجود اِس قدر ذوق و شوق سے نمازِ جنازہ پڑھنے جاتے ہو؟جب کہ یہ فرض کفایہ ہے ہر ایک کے لئے پڑھنا لازمی نہیں۔۔۔۔۔۔۔اُنہوں نے یقین بھرے لہجے سے کہا میں محض اِس لئے شریک ہوتا ہوں کہ کیا خبر "اللّٰہ" میرے جنازے میں بھی برکت عطا کر دیں اور میرے جنازے
شفیق بلخیؒ اور حضرت ابراہیم بن ادہمؒ کے درمیان سچی دوستی تھی ایک مرتبہ شفیق بلخیؒ اپنے دوست ابراہیم بن ادہمؒ کے پاس آئے اور کہا کہ میں ایک تجارتی سفر پر جا رہا ہو سوچا کہ جانے سے پہلے آپ سے ملاقات کر لوں کیوں کہ شاید سفر میں مجھے کئ مہینے لگ جائیں۔۔۔۔۔۔ لیکن شفیق بلخیؒ کچھ دنوں
میں ہی واپس لوٹ آئے جب حضرت ابراہیم بن ادہمؒ نے انھیں مسجد میں دیکھا تو آپ حیرت سے پوچھ بیٹھے کیوں شفیق ! تم اتنے جلدی لوٹ آئے؟۔۔۔۔۔۔۔حضرت شفیق بلخیؒ نے جواب دیا حضرت صفر کے دوران میں نے راستے میں ایک حیرت انگیز منظر دیکھا اور الٹے پاوں
ہی گھر لوٹ آیا ہوا یوں کہ میں ایک غیر آباد جگہ پہنچا وہیں میں نے آرام کے لیے پڑاو ڈالا۔۔۔۔۔۔۔اچانک میری نظر ایک پرندے پر پڑی جو نہ دیکھ سکتا تھا اور نہ اڑ سکتا تھا مجھے اُس کو دیکھ کر ترس آیا میں نے سوچا کہ اس ویران جگہ پر یہ پرندہ اپنی خوراک کیسے پاتا ہوگا میں اسی