مجھے کھوسہ سرداروں کی لوکل سیاست پسند نہیں مگر آج ذوالفقار کھوسہ کی پیپلز پارٹی میں شمولیت پر کچھ پٹواریوں کو بڑی جلن ہو رہی۔ یہ تھریڈ انہی کےنام ہے۔ سب پٹواری دوستوں کو مینشن کر دیں۔ ذوالفقار علی کھوسہ جسے آج وہ کچرہ اور چلا ہوا کارتوس کہہ رہے ہیں وہ انسان ہے جو جاوید ہاشمی
1/8
اور غوث علی شاہ کے ساتھ کلثوم نواز کی مشرف مخالف اس مختصر سی جدوجہد کے سرکردہ رہنما تھے جس کو نام تو "جمہوریت کے تحفظ" کا دیا گیا تھا مگر جس کا اختتام جدہ کی چارٹرڈ فلائٹ میں بھاگ کر شریف خاندان نے کیا۔ اس وقت شاہد خاقان عباسی اپنے باپ کی فوجی ملازمت کے واسطے دے کر ائیر بلیو 2/8
کا لائسنس لینے کی کوشش میں تھا، چوہدری نثار اور احسن اقبال گھروں میں بیٹھ کر جمہوریت بچا رہے تھے تو کھوسہ اس وقت کلثوم نواز کے ساتھ کھڑا تھا حالانکہ اس وقت میاں شریف خود فوجی جرنیلوں کے پاوں پکڑ رہے تھے مگر ذوالفقار کھوسہ مال روڈ پر جمہوریت کے نام پر ڈنڈے کھا رہا تھا
3/8
اور پھر جب نواز لیگ کو پیپلزپارٹی نے 2008 میں پنجاب حکومت بنانے کا گرین سگنل دیا تو شہباز شریف جو جدہ معاہدے کی وجہ سے الیکشن نہیں لڑے تھے انہوں نے پارٹی میں نظر دوڑائی تو انہیں سب سے زیادہ وفادار اور اعتماد کھوسہ خاندان نظر آیا۔ شہباز شریف نے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شریف سے 4/8
اپنی پابندی ختم کروائی، اور اس ڈر سے کہ کہیں سرائیکی گیلانی اور سرائیکی کھوسہ تخت لاہور کو مستقل قبضہ کرنے کا نہ سوچیں (یاد رہے پی پی اور نواز لیگ کی پنجاب اسمبلی میں 2008 میں نشستیں برابر تھیں) خود بھکر سے سپہ صحابہ کے ضلعی صدر کو 4 کروڑ دے کر بلامقابلہ ایم پی اے منتخب ہوئے 5/8
اور اپنے صالح ظافر اور انصار عباسی ٹائپ لوگوں سے دوست محمد کھوسہ کے خلاف سکینڈل بنوانا شروع کر دیئے۔ کھوسے سردار جو مشرف کی آمریت کے سامنے شریف خاندان سے آگے کھڑے رہے وہ شریف خاندان کی اصلیت بار بار سامنے آنے پر بددل ہو چکے تھے ۔ دوست محمد کھوسہ نے وزارت اعلی شہباز شریف کو دی
6/8
اور پارٹی چھوڑ دی۔ جب کہ ذوالفقار کھوسہ جاوید ہاشمی کی طرح آخری لمحے تک شریف خاندان کے ساتھ رہنا چاہتا تھا مگر شریفوں نے بے نظیر کو بہن بنا کر اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والے اور بعد میں مشرف کی ٹیم کے سرکردہ لغاری خاندان کو جب اپنایا تو کھوسہ خاندان کے پاس نواز لیگ چھوڑنے 7/8
کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔ اب آپ کو پتا لگ جانا چاہیے کہ کچرہ کون ہے؟ جدی پشتی سردار ہونے کے باوجود جمہوریت کے نام پر مار کھانے والے یا معاہدے کر کے بھاگنے والے، بہن کہہ کر صدارت لے کر اسمبلی توڑنے والے یا آخری لمحے تک وفا کی امید رکھنے والے۔ ویلکم کھوسہ فیملی ٹو پیپلزپارٹی
8/8
آپ کے فرینڈز اور فالورز میں جتنے نواز لیگ کے سپورٹر ہیں تو ان سے ایک سوال ضرور پوچھیں
میاں صاحب کی بطور وزیراعظم جمہوریت یا آئین کے لئے کوئی ایک خدمت بتائیں۔ اگر صرف کھوکھلی باتوں اور نعرے بازی کا کریڈٹ دینا ہے تو اپوزیشن میں تو عمران نیازی اس سے اچھی باتیں کرلیتا تھا۔ 1/2
نوازلیگ نے اپوزیشن میں یہ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اپنایا ورنہ حکومت کے آخری دن تک یہ ایک پیج پر رہنے کو تیار تھے۔ اور اپوزیشن میں بھی انسانی حقوق کمیٹی حکومت کو دی، باپ کا لیڈر ن لیگ کا نائب صدر بنایا، آرمی چیف کو غیر مشروط ایکسٹینشن اور پی ٹی آئی کو بلامقابلہ سینیٹرز دئیے 2/2
اور بونس سوال یہ بھی کہ مریم نواز کے سلوگن "مزاحمت ہو گی تو مفاہمت ہو گی" کا ان کے کارکنان کے لئے کیا مطلب ہے؟
ایک نان پٹواری دماغ کو تو یہ سمجھ آتا ہے کہ اس کا مطلب اسٹیبلشمنٹ کو پریشرائز کر کے (مزاحمت) اپنے لئے سہولیات اور آسانیاں (مفاہمت) لی جائیں
پیپلزپارٹی نے جب سینیٹ اپوزیشن لیڈر کی سیٹ سنبھالی تو اردو میڈیا نے یہ کہانی سنائی کہ پیپلزپارٹی اپوزیشن کے حصے کی سب کمیٹیوں پر اپنے سینیٹرز لائے گی اور نواز لیگ کو حصہ نہیں دے گی۔ گیلانی صاحب نے آدھی کمیٹیوں کی سربراہی کے لئے نواز لیگ اور دوسری اپوزیشن پارٹیوں کو نام دینے1/4
کو کہا جن میں انسانی حقوق کی کمیٹی بھی شامل تھی۔ کیونکہ قومی اسمبلی میں انسانی حقوق کمیٹی کی سربراہی پیپلز پارٹی کے پاس ہے تو سینیٹ میں نواز لیگ کے پاس ہونی چاہیے تھی لیکن نواز لیگ کے مشاہد حسین نے حکومتی اراکین سے رابطہ کر کے دفاعی کمیٹی کی سربراہی کے بدلے انسانی حقوق کمیٹی 2/4
کی سربراہی تحریک انصاف کے ولید اقبال کو سونپ دی۔ اب دفاعی کمیٹی کی سربراہی کے بہانے نواز لیگ وہ ڈیلیں کرنے میں آسان رہے گی جو محمد زبیر، آحسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی رات کے اندھیرے میں فیض آباد اور آبپارہ کرنے جاتے ہیں۔ دوسری طرف انسانی حقوق کمیٹی میں بھی خدشہ تھا کہ کہیں 3/4
میں 2008 سے اس چیز پر قائل تھا کہ پاکستان کیلیے عموما اور پیپلزپارٹی کیلئے خصوصا نواز لیگ سے بری کوئی چیز ہو ہی نہیں سکتی۔ لیکن میرے دوست کبھی جمہوریت دوستی اور کبھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ جیسے جھانسوں میں آ کر نوازلیگ کےٹریپ میں پھنسے رہے اور مجھے اینٹی پارٹی ہونے کے طعنے بھی دئیے
1/4
لیکن 2015، 2016 میں نواز شریف کے ایماء پر چوہدری نثار نے قیادت کے خلاف جس طرح کے اقدامات کئے وہ بہت سوں کی آنکھیں کھولنے کو کافی تھا لیکن ہماری قیادت پھر بھی خاموش رہی۔ "باپ" کی طرف سے سونپا گیا (پی ڈی ایم سے پی پی کو نکالنے کا) فریضہ انجام دیتے ہوئے مریم نواز نے جس طرح 2/4
اپنے پالتو میڈیا اینکرز اور رپورٹرز کو پی پی کی کردارکشی پر لگایا۔ وہ انتہائی کریہہ اور مریم نواز کی ذات کو ایکسپوز کرنے کو کافی تھا لیکن 249 کراچی کی شکست نے لگتا ہے ضیاع الحقی ٹولے کو باولہ کر دیا ہے۔ نواز لیگ کے آزاد کشمیر سے وزیر اور سابقہ صحافی مشتاق منہاس کے بے نظیر 3/4
#PP84#NoorpurThal#Khushab
تقریبا تین لاکھ آبادی کی تحصیل نورپور تھل جس میں پچھلے چالیس سال میں صرف مسلم لیگی یا آزاد منتخب ہو کر مسلم لیگ میں شامل ہونے والے ایم پی ایز ہی منتخب ہوتے رہے۔ اس میں نواز لیگ کے اٹھارہ سال ممبر رہنے والے وارث کلو کی وفات سے پانچ مئی کو 1/5
ضمنی الیکشن ہو رہا ہے لیکن میڈیا نے تحصیل کی پسماندگی کی طرف توجہ نہیں دی۔ چوراسی دیہاتوں اور قصبوں پر مشتمل تحصیل میں موجود صحت اور تعلیم کے شعبے کے بارے میں سن کر آپ کی آنکھیں کھل جانی چاہییں ۔۔ تحصیل بھر میں صرف ایک گائناکالوجسٹ جس کی پچھلے برس تعیناتی ہوئی اور ایک 2/5
دانتوں کا ڈاکٹر۔ باقی عوام کو عطائیوں کے رحم و کرم پر چھوڑا ہوا ہے۔ پچھتر سے زیادہ دیہاتوں میں انجکشن لگانے اور سر درد کی گولی دینے کو مستند ڈسپنسر بھی نہیں ہے۔ تعلیم کے شعبے میں پوری تحصیل میں دو گرلز انٹر کالج ہیں جن میں صرف دو دو لیکچرارز ہیں اور کوئی بھی ٹیچر سائنس 3/5
پیپلز پارٹی کے جیالوں سے التماس ہے کہ نواز لیگ کے پے رول پر کام کرنے والے بہت سے صحافی حکومت اور فوج نے اداروں سے نکلوا دئیے ہیں۔ وہ بے روزگار ہو کر یو ٹیوب اور سوشل میڈیا پر اپنا پراپیگنڈا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے پراپیگنڈا کا وہی لیول ہے جو حکومتی صحافیوں 1/6
صابر شاکر، چوہدری غلام حسین ، ارشاد بھٹی اور خاور گھمن کا ٹی وی چینلز پر ہوتا ہے۔ اور مقصد صرف نواز شریف اور مریم کو انقلابی اور جمہوری ثابت کرنا ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لئے وہ مسلسل پیپلز پارٹی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کیونکہ انہیں یہ لائن مل چکی ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری 2/6
سے تنگ عوام پی ٹی آئی چھوڑ کر پیپلز پارٹی جوائن کر سکتی ہے۔ اس لئے ان یوٹیوبر اور سوشل میڈیا صحافیوں کا سارا زور پیپلز پارٹی پر تنقید پر ہے۔ الیکٹرانک میڈیا میں نواز لیگ کے ہمدرد صحافی (جیسا کہ جنگ جیو کے سارے صحافی) بھی سوشل میڈیا کی حد تک ان کا ساتھ ضرور دیتے ہیں ۔ ہمیں 3/6