یہ 1282 ہجری کی بات ہے. سعودی عرب کے بریدہ شہر میں منیرہ نامی ایک نیک وصالح خاتون نے مرنے سے پہلے اپنے زیورات بھائی کے حوالے کئےکہ میری وفات کے بعد ان زیورات کو بیچ کر ایک دکان خرید لیں.پھراس دکان کو کرائے پر چڑھائیں اور آمدن کو محتاجوں پر خرچ کر دیں.
بہن کی وفات کے بعد بھائی نے
وصیت پر عمل کرتے ہوئے انکے زیورات بیچ کر بہن کے نام پر 12ریال میں ایک دکان خرید لی(اس زمانے میں 12 ریال کی بڑی ویلیو تھی) اور اسے کرائے پر چڑھا دیا۔کرائے کی رقم سے محتاجوں کیلئے کھانے پینے کی اشیاء خرید کر دی جاتی رہی یہ سلسلہ دہائیوں جاری رہا۔ دہائیوں بعد دکان کا ماہانہ کرایہ 15
ہزار ریال تک پہنچ چکا تھا،اور اس رقم سے ضرورت مندوں کیلئے اچھی خاصی چیزیں خرید کر دی جاتی تھیں۔ پھر وہ دن آیا کہ سعودی حکومت نے بریدہ کی جامع مسجد میں توسیع کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ دکان توسیع کی زد میں آ رہی تھی۔چنانچہ حکومت نے 5 لاکھ ریال میں یہ دکان خرید لی.
دکان کی دیکھ بھال
کرنے والے امانتدار شخص نے اس خطیر رقم سے ایک دوسری جگہ ایک پوری عمارت بنا لی۔ جوکہ 4 بڑی دکانوں اور 3 فلیٹس پر مشتمل ہے،ان دکانوں اور فلیٹس سے اب ماہانہ لاکھوں ریال کرایہ آتا ہے۔ یہ کرایہ اللہ کی راہ میں خرچ کیاجاتا ہے۔اس نیک خاتون نے 12 ریال اللہ کی راہ میں صدقہ جاریہ کے طور پر
پیش کیا تھے۔آج وہ 12 ریال لاکھوں ریال میں تبدیل ہوگئے ہیں،اس دوران جو اجر مرحومہ کو ملتا رہا ہوگا اس کا حساب کتاب تو اللہ تعالی کو ہی معلوم ہوگا.
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر وہ اپنے ان زیورات کو سماج کی روایت اور رسم کے مطابق اپنی بیٹی کو دیتی اور بیٹی آگے اپنی بیٹی کو دیتی۔ پوتی
تک پہنچتے پہنچتے یہ زیورات بوسیدہ ہوتے جاتے۔لیکن اس نیک خاتون نے صدقہ جاریہ کا جو خوبصورت فیصلہ کیا۔اسکی بدولت صدی سے زائد عرصہ ہوا لاکھوں محتاج لوگ اس سے مستفید ہو رہے ہیں.
اللہ تعالی کی راہ میں پیش کئے ہوئے صدقے کو حقیر اور کمتر نہ سمجھیں،
اللہ تعالی صدقات و خیرات میں برکت ڈالتا اور بڑھاتا ہے.
اللہ تعالٰی ہم کو سچے دل سے صدقات و خیرات دینے کی توفیق عطا فرمائیں۔
آمین ثم آمین۔
خلیل الرحمن قمر صاحب لکھتے ہیں کہ میں جب چھوٹا تھا تو بڑا انا پرست تھا.غربت کے باوجود کبھی بھی یوزڈ کپڑے نہیں پہنتاتھا۔ ایک بار میرے ابا کو کپڑے کاسوٹ گفٹ ملا تو میں نے اُن سے کہا مجھے کوٹ سلوانا ہے۔تو ابا جی نے اجازت دے دی اور ہاف سوٹ سے میں نے گول گلے والا کوٹ_سلوا لیا جسکا+
اُن دنوں بڑا رواج تھا۔۔
وہ کوٹ پہن کر مَیں چچا کے گھر گیا تو چاچی اور کزنز نے فَٹ سے پوچھا: ”اویے_خیلے_اے_کوٹ_کتھو_لیا_ای؟
میں نے کہا:”سوایا ہے چاچی“لیکن وہ نہ مانے میں نے قسمیں بھی کھاٸیں۔لیکن اُنکو اعتبار نہ آیا خالہ،پھوپھو کے گھر گیا تو وہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا میں گھر آیا
اور کوٹ اُتار کر پھینک دیا اور رونے لگ گیا۔۔
حالات کچھ ایسے تھے کہ کوٸی بھی ماننے کو تیار ہی نہیں تھاکہ خیلہ بھی نیا کوٹ سلوا سکتا ہے۔
پڑھنے لکھنے اور جاب کےبعد جب میں ایک بنک کے بورڈ آف ڈاٸریکٹرز کا ممبر بنا۔تو بورڈ آف ڈاٸریکٹرز کی ایک میٹنگ میں اچھے سے ڈراٸی کلین کیا ہوا لنڈے
جب ہندوستان کے آخری شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کومیکنن میکنزی بحری جہاز میں بٹھا دیا گیا‘جہاز17 اکتوبر 1858ء کو رنگون پہنچ گیا‘شاہی خاندان کے 35 مردوخواتین بھی تاجدار ہند کے ساتھ تھے۔
کیپٹن نیلسن ڈیوس رنگون کا انچارج تھا‘
وہ بندر گاہ پہنچا‘اس نے بادشاہ اور اس کے حواریوں کو وصول کیا،👇
رسید لکھ کردی.دنیا کی تیسری بڑی سلطنت کے آخری فرمانروا کو ساتھ لیکر اپنی رہائش گاہ پر آ گیا،
نیلسن پریشان تھا‘
بہادر شاہ ظفر قیدی ہونے کے باوجود بادشاہ تھااور نیلسن کا ضمیر گوارہ نہیں کر رہا تھاکہ وہ بیمار اور بوڑھے بادشاہ کوجیل میں پھینک دے۔مگررنگون میں کوئی ایسامقام نہیں تھا👇
جہاں بادشاہ کو رکھاجاسکتا،
وہ رنگون میں پہلا جلا وطن بادشاہ تھا۔
نیلسن ڈیوس نے چند لمحے سوچا اور مسئلے کا دلچسپ حل نکال لیا،
نیلسن نے اپنے گھر کا گیراج خالی کرایا اور ظِلّ سُبحانی کو اپنے گیراج میں قید کر دیا۔
بہادر شاہ ظفر17 اکتوبر 1858کو اس گیراج میں پہچا،
7نومبر 1862 تک چار👇