آپ نے دنیا میں بڑے بڑے شاندارہوائی اڈے دیکھے ہوں گے لیکن سنگا پور کا چھنگی (Changi) ایئر پورٹ ان تمام ہوائی اڈوں سے مختلف ہے۔چھنگی ایئر پورٹ کی انفرادیت اس کے اندر گولائی میں بنائی گئی آبشار ہے جو عمارت کی چھت سے نہایت بلندی سے نیچے گرتی ہے۔ شام کے وقت اس آبشار پر انتہائی
دیدہ زیب لائٹنگ (Lighting) بھی کی جاتی ہے جس سے اس کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ چھنگی ایئر پورٹ کو ماحول دوست بنانے کے لیے عمارت کے اندر درخت اور پودے بھی اگائے گئے ہیں۔ ایئر پورٹ کی عمارت کے اندر آبشار اور اس کے ارد گرد ہریالی کا منظر دیکھنے
والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔چھنگی ایئر پورٹ ایشیا کے بڑے ہوائی اڈوں میں سے ایک ہے جبکہ ہوائی اڈوں کی رینکنگ (Ranking) جاری کرنے والی برطانوی کمپنی سکائی ٹریکس (Skytrax) کے مطابق یہ دنیا کا صاف ستھرا اور مصروف ترین ایئر پورٹ ہے اور اعداد شمار کے
مطابق سال 2020 میں ہر ہفتے 7400 پروازیں چھنگی ایئر پورٹ پر لینڈنگ کرتی اور یہاں سے اڑان بھرتی رہیں۔ یہ ایئر پورٹ 1981میں تعمیر ہوا تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی عمارت میں تبدیلیاں کی جاتی رہی ہیں۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
عیدالاضحی پر ایک اندازے کے مطابق 4 کھرب روپے سے زیادہ کا مویشیوں کا کاروبار ہوتا ہے, تقریباً 23 ارب روپے قصائی مزدور کے طور پر کماتے ہیں 3 ارب سے زیادہ چارے کے کاروبار والے کماتے ہیں۔ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﻋﯿﺪ ﭘﺮ
ﻫﻮتا ہے.. ﻧﺘﯿﺠﻪ : ﻏﺮﯾﺒﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺰﺩﻭﺭﯼ ملتی ہے ﮐﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﭼﺎﺭﻩ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﻫﻮتا ہے. ﺩیہاﺗﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﻮﯾﺸﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﻗﯿﻤﺖ ملتی ہے۔
اربوں روپے ﮔﺎﮌﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﻻﻧﮯ ﻟﮯ
جب قرآن پہ پابندی لگی
1973 روس میں کمیونزم کا عروج تھا اور لگتا تھا کہ بس اب پورا ایشیا سرخ ہوجاے گا ان دنوں میں ہمارے ایک دوست ماسکو ٹریننگ کے لیے چلے گئے وہ کہتے ہے کہ جمعے کے دن میں نے دوستوں سے کہا کہ چلو جمعہ ادا کرنے کی تیاری کرتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہاں مسجدوں کو
گودام بنا دیا گیا ہے ایک دو مساجد کو سیاحوں کا قیام گاہ بنا دیا گیا ہے صرف دو ہی مسجد اس شہر میں بچے ہے جو کھبی بند اور کھبی کھلے ہوتے ہیں میں نے کہا آپ مجھے مساجد کا پتہ بتا دے میں وہی چلا جاتا ہوں جمعہ ادا کرنے ۔ پتہ لیکر میں مسجد تک پہنچا تو مسجد بند تھی ، مسجد کے
پڑوس میں ہی ایک بندے کے ساتھ مسجد کی چابی تھی میں نے اس آدمی کو کہا کہ دروازہ کھول دو مسجد کا ، مجھے نماز پڑھنی ہے ،
اس نے کہا دروازہ تو میں کھول دونگا لیکن اگر آپکو کوی نقصان پہنچا تو میں زمہ دار نہیں ہوں گا ، میں نے کہا دیکھیں جناب میں پاکستان میں بھی
حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت بی بی حاجرہ علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکہ کی ایسی وادی میں چھوڑ گئے تھے جہاں اس وقت کوئی انسان آباد نہ تھا، دور دور تک پانی نہ تھا اور ان کے پاس کھجور کے ایک تھیلے اور پانی کے مشکیزے کے سوا کچھ نہ تھا۔ حضرت بی بی حاجرہ علیہ السلام
کے بار بار پوچھنے پر کہ وہ انہیں یہاں کیوں چھوڑ کر جا رہے ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صرف اتنا فرمایا کہ مجھے اللہ پاک کی طرف سے ایسا کرنے کا حکم ہے اور پھر وہاں سے چلے گئے، چلتے چلتے جب ثنیہ (گھاٹی) پر پہنچے جہاں سے وہ لوگ نظر نہیں آ رہے تھے تو انہوں
نے ہاتھ اٹھا دئیے اور دعا مانگی:
"اے پروردگار! میں نے اپنی اولاد میدان (مکہ) میں جہاں کھیتی نہیں تیرے عزت (و ادب) والے گھر کے پاس لا بسائی ہے، اے پروردگار! تاکہ یہ نماز پڑھ سکیں، سو تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ ان کی طرف جھکے رہیں اور ان کو پھلوں سے رزق دے، تاکہ تیرا شکر ادا
جس طرح سب سے پہلے اسلام کے دامنِ رحمت سے وابستہ ہونے کا اعزاز ایک معزز خاتون حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا کو حاصل ہوا اُسی طرح سب سے پہلے حق کی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کرنے کی سعادت بھی ایک خاتون کو حاصل ہوئی۔ یہ خاتون حضرت سمیہ رضی اﷲ عنہا تھیں۔ آپ حضرت عمار
رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ تھیں، جنہوں نے ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لئے اپنی جان کی قربانی پیش کی۔ اسلام قبول کرنے کے ساتھ ہی ان کے جذبۂ ایمانی کو طرح طرح سے آزمایا گیا لیکن جان کا خوف بھی ان کے جذبۂ ایمان کو شکست نہ دے سکا۔ روایات میں مذکور ہے کہ
انہیں گرم کنکریوں پر لٹایا جاتا، لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں کھڑا کر دیا جاتا، لیکن تشنہ لبوں پر محبتِ رسول کے پھول کھلتے رہے اور پائے استقلال میں ذرا بھی لغزش نہ آئی۔ عورت تو نازک آبگینوں کا نام ہے جو ذرا سی ٹھیس سے ٹوٹ جاتے ہیں لیکن حضرت سمیہ رضی اﷲ
آج کے دور میں مینار مساجد کی پہچان ہیں مگر اسلامی تاریخ کا پہلا مینار خلیفہ دوم سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے حکم پر آج سے چودہ سو سال قبل سرزمین حجاز کی الجوف گورنری کے علاقے دومۃ الجندل میں تعمیر کرایا گیا۔ 144 سو سال گذر جانے کے بعد آج بھی یہ مینار اپنی جگہ
قائم ودائم ہے۔ یہ مینار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس وقت تعمیر کرایا تھا جب وہ بیت المقدس کے سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ دومۃ الجندل میں قائم یہ مینار اسلام کی اولین یادگاروں کے ساتھ ساتھ اس دور کے عرب فن تعمیر کا ایک شاہ کار بھی ہے۔ مینار جنوب
مغربی سمت میں قائم کیا گیا جو دیوار قبلہ کی طرف تھوڑا سا مڑا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ مینار کی بنیاد مربع شکل میں ہے جس کے اضلاع کی لمبائی تین میٹر ہے۔ اس کی دیواریں پتھر کی ہیں۔ زمین سے بلندی کی طرف یہ مخروطی شکل میں ہے اور اس کی بلندی 13 میٹر ہے۔
شیشیل کورالا فقیرانہ وزیر اعظم
2014ء میں نیپال کاوزیراعظم بن گیا۔پہلے دن جب اپنے سرکاری دفترپہنچاتو انتہائی سستی قیمت کے کپڑے پہن رکھے تھےلباس کی مجموعی قیمت دوسوروپے سے بھی کم تھی سرپر انتہائی پرانی ٹوپی اورپیروں میں کھردری سی چپل۔ وہاں ویٹریانائب قاصدکے کپڑے بھی شیشیل کورالاسے
بہت بہتر تھے منتخب وزیراعظم کوان کے دفتر لیجایاگیا۔دفترکے باہرچپل اُتاری اورننگے پاؤں چلتا ہوا کرسی پرچوکڑی مارکربیٹھ گیا۔سیکریٹری اوردیگرعملے کے اوسان خطاہوگئے کہ یہ کس طرح ملک کے لوگوں سے ووٹ کی طاقت سے وزیراعظم بن گیاہے۔کورالانے فائلیں منگوائی اور بڑی
محنت سے کام شروع کردیا۔سیکریٹری دوگھنٹے اپنے کمرے میں انتظارکرتارہاکہ باس اب بلائے گایا اب۔اس نے کئی بارچپڑاسی سے پوچھاکہ مجھے وزیراعظم نے تونہیں بلایا۔چپڑاسی شرمندگی سے جواب دیتاتھاکہ نہیں۔ابھی تک انھوں نے کسی کوبھی بلانے کے لیے نہیں کہا