جس طرح سب سے پہلے اسلام کے دامنِ رحمت سے وابستہ ہونے کا اعزاز ایک معزز خاتون حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا کو حاصل ہوا اُسی طرح سب سے پہلے حق کی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کرنے کی سعادت بھی ایک خاتون کو حاصل ہوئی۔ یہ خاتون حضرت سمیہ رضی اﷲ عنہا تھیں۔ آپ حضرت عمار
رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ تھیں، جنہوں نے ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لئے اپنی جان کی قربانی پیش کی۔ اسلام قبول کرنے کے ساتھ ہی ان کے جذبۂ ایمانی کو طرح طرح سے آزمایا گیا لیکن جان کا خوف بھی ان کے جذبۂ ایمان کو شکست نہ دے سکا۔ روایات میں مذکور ہے کہ
انہیں گرم کنکریوں پر لٹایا جاتا، لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں کھڑا کر دیا جاتا، لیکن تشنہ لبوں پر محبتِ رسول کے پھول کھلتے رہے اور پائے استقلال میں ذرا بھی لغزش نہ آئی۔ عورت تو نازک آبگینوں کا نام ہے جو ذرا سی ٹھیس سے ٹوٹ جاتے ہیں لیکن حضرت سمیہ رضی اﷲ
عنہا ایمان کا حصارِ آہنی بن گئیں۔
’’روایت ہے کہ ابوجھل نے ان کے پیٹ پر برچھی کا وار کیا جس سے وہ شھید ہو گئیں، یہ اسلام کی پہلی شہید خاتون ہیں، جن کو ہجرت سے پہلے شھید کر دیا گیا اور یہ وہ خاتون ہیں جنہوں نے مکہ مکرمہ میں اسلام کے
ابتدائی دور میں اپنے اسلام کا اعلانیہ اظہار کیا تھا۔
ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 13، رقم : 233869
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت بی بی حاجرہ علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکہ کی ایسی وادی میں چھوڑ گئے تھے جہاں اس وقت کوئی انسان آباد نہ تھا، دور دور تک پانی نہ تھا اور ان کے پاس کھجور کے ایک تھیلے اور پانی کے مشکیزے کے سوا کچھ نہ تھا۔ حضرت بی بی حاجرہ علیہ السلام
کے بار بار پوچھنے پر کہ وہ انہیں یہاں کیوں چھوڑ کر جا رہے ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صرف اتنا فرمایا کہ مجھے اللہ پاک کی طرف سے ایسا کرنے کا حکم ہے اور پھر وہاں سے چلے گئے، چلتے چلتے جب ثنیہ (گھاٹی) پر پہنچے جہاں سے وہ لوگ نظر نہیں آ رہے تھے تو انہوں
نے ہاتھ اٹھا دئیے اور دعا مانگی:
"اے پروردگار! میں نے اپنی اولاد میدان (مکہ) میں جہاں کھیتی نہیں تیرے عزت (و ادب) والے گھر کے پاس لا بسائی ہے، اے پروردگار! تاکہ یہ نماز پڑھ سکیں، سو تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ ان کی طرف جھکے رہیں اور ان کو پھلوں سے رزق دے، تاکہ تیرا شکر ادا
آج کے دور میں مینار مساجد کی پہچان ہیں مگر اسلامی تاریخ کا پہلا مینار خلیفہ دوم سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے حکم پر آج سے چودہ سو سال قبل سرزمین حجاز کی الجوف گورنری کے علاقے دومۃ الجندل میں تعمیر کرایا گیا۔ 144 سو سال گذر جانے کے بعد آج بھی یہ مینار اپنی جگہ
قائم ودائم ہے۔ یہ مینار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس وقت تعمیر کرایا تھا جب وہ بیت المقدس کے سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ دومۃ الجندل میں قائم یہ مینار اسلام کی اولین یادگاروں کے ساتھ ساتھ اس دور کے عرب فن تعمیر کا ایک شاہ کار بھی ہے۔ مینار جنوب
مغربی سمت میں قائم کیا گیا جو دیوار قبلہ کی طرف تھوڑا سا مڑا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ مینار کی بنیاد مربع شکل میں ہے جس کے اضلاع کی لمبائی تین میٹر ہے۔ اس کی دیواریں پتھر کی ہیں۔ زمین سے بلندی کی طرف یہ مخروطی شکل میں ہے اور اس کی بلندی 13 میٹر ہے۔
شیشیل کورالا فقیرانہ وزیر اعظم
2014ء میں نیپال کاوزیراعظم بن گیا۔پہلے دن جب اپنے سرکاری دفترپہنچاتو انتہائی سستی قیمت کے کپڑے پہن رکھے تھےلباس کی مجموعی قیمت دوسوروپے سے بھی کم تھی سرپر انتہائی پرانی ٹوپی اورپیروں میں کھردری سی چپل۔ وہاں ویٹریانائب قاصدکے کپڑے بھی شیشیل کورالاسے
بہت بہتر تھے منتخب وزیراعظم کوان کے دفتر لیجایاگیا۔دفترکے باہرچپل اُتاری اورننگے پاؤں چلتا ہوا کرسی پرچوکڑی مارکربیٹھ گیا۔سیکریٹری اوردیگرعملے کے اوسان خطاہوگئے کہ یہ کس طرح ملک کے لوگوں سے ووٹ کی طاقت سے وزیراعظم بن گیاہے۔کورالانے فائلیں منگوائی اور بڑی
محنت سے کام شروع کردیا۔سیکریٹری دوگھنٹے اپنے کمرے میں انتظارکرتارہاکہ باس اب بلائے گایا اب۔اس نے کئی بارچپڑاسی سے پوچھاکہ مجھے وزیراعظم نے تونہیں بلایا۔چپڑاسی شرمندگی سے جواب دیتاتھاکہ نہیں۔ابھی تک انھوں نے کسی کوبھی بلانے کے لیے نہیں کہا
حضرت سعد بن سعنہ رضی اللہ عنہ جو پہلے ایک یہودی عالم تھے انہوں نے حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ کھجوریں خریدی تھیں۔ کھجوریں دینے کی مدت میں ابھی ایک دو دن باقی تھے کہ اُنہوں نے بھرے مجمع میں حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے انتہائی تلخ و ترش لہجے میں سختی کے ساتھ تقاضا
1965ء کی جنگ ختم ہونے کے چند ماہ بعد مدینہ منورہ میں ایک عمر رسیدہ پاکستانی خاموش بیٹھا آنسو بہاتے ہوئے روضہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔ یہ پاکستانی 11 ستمبر 1965ء کو سیالکوٹ پھلورا محاذ پر شہید ہونے والے کوئٹہ انفنٹری سکول کے انسٹرکٹر میجر ضیاء الدین عباسی
(ستارہ جراُت) کے والد گرامی تھے۔ میجر ضیاء الدین عباسی کے ٹینک کو دشمن کی توپ کا گولہ لگا جس سے وہ شہید ہوگئے۔ جب صدر ایوب خان کی طرف سے میجر عباسی شہید کے والد اپنے شہید بیٹے کو بعد از شہادت ملنے والا ستارہ جرات وصول کر رہے تھے تو ایوب خان
نے ان سے ان کی کوئی خواہش پوچھی، تو انہوں نے عمرہ کی خواہش کا اظہار کیا جسے ایوب خان نے فورا” قبول کر لیا۔ شہید میجر ضیاءالدین عباسی ستارہ جرات کے والد جب روضہ رسول صلی اللہ علیہ و سلام کے سامنے بیٹھے آنسو بہا رہے تھے تو خادم مسجد نبوی وہاں آئے اور
مدینہ کا بازار تھا، گرمی کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ لوگ نڈھال ہورہے تھے. ایک تاجر اپنے ساتھ ایک غلام کو لیے پریشان کھڑا تھا. غلام جو ابھی بچہ ہی تھا وہ بھی دھوپ میں کھڑ ا پسینہ پسینہ ہورہا تھا. تاجر کا مال اچھے داموں بک گیا تھا بس یہ غلام ہی باقی تھا جسے خریدنے میں کوئی بھی دلچسپی
نہیں دکھا رہا تھا ---تاجر سوچ رہا تھا کہ اس غلام کو خرید کر شاید اس نے گھاٹے کا سودا کیا ہے. اس نے تو سوچا تھا کہ اچھا منافع ملے گا لیکن یہاں تو اصل لاگت ملنا بھی دشوار ہورہا تھا, اس نے سوچ لیا تھا کہ اب اگر یہ غلام پوری قیمت پر بھی بکا تو وہ اسے فورا بیچ دے گا --- مدینہ
کی ایک لڑکی کی اس غلام پر نظر پڑی تو اس نے تاجر سے پوچھا کہ یہ غلام کتنے کا بیچو گے. تاجر نے کہا کہ میں نے اتنے میں لیا ہے اور اتنے کا ہی دے دوں گا. اس لڑکی نے بچے پر ترس کھاتے ہوئے اسے خرید لیا تاجر نے بھی خدا کا شکر ادا کیا اور واپسی کے راہ لی --- مکہ سے ابو حذیفہ