شیشیل کورالا فقیرانہ وزیر اعظم
2014ء میں نیپال کاوزیراعظم بن گیا۔پہلے دن جب اپنے سرکاری دفترپہنچاتو انتہائی سستی قیمت کے کپڑے پہن رکھے تھےلباس کی مجموعی قیمت دوسوروپے سے بھی کم تھی سرپر انتہائی پرانی ٹوپی اورپیروں میں کھردری سی چپل۔ وہاں ویٹریانائب قاصدکے کپڑے بھی شیشیل کورالاسے
بہت بہتر تھے منتخب وزیراعظم کوان کے دفتر لیجایاگیا۔دفترکے باہرچپل اُتاری اورننگے پاؤں چلتا ہوا کرسی پرچوکڑی مارکربیٹھ گیا۔سیکریٹری اوردیگرعملے کے اوسان خطاہوگئے کہ یہ کس طرح ملک کے لوگوں سے ووٹ کی طاقت سے وزیراعظم بن گیاہے۔کورالانے فائلیں منگوائی اور بڑی
محنت سے کام شروع کردیا۔سیکریٹری دوگھنٹے اپنے کمرے میں انتظارکرتارہاکہ باس اب بلائے گایا اب۔اس نے کئی بارچپڑاسی سے پوچھاکہ مجھے وزیراعظم نے تونہیں بلایا۔چپڑاسی شرمندگی سے جواب دیتاتھاکہ نہیں۔ابھی تک انھوں نے کسی کوبھی بلانے کے لیے نہیں کہا
پورادن گزرگیا۔شیشیل سرکاری کام کرکے بڑے آرام سے واپس چلاگیا۔سختی سے منع کیاکہ کوئی بھی اسے خوش آمدیدکہنے یاخداحافظ کہنے نہ آئے۔ یعنی اس نے ہرطرح کے پروٹوکول کوختم کردیا۔اسی صورتحال میں ایک ہفتہ گزرگیا۔تمام عملہ بیکار بیٹھا رہا۔ وزیراعظم ٹھیک
آٹھ بجے صبح دفترآتاتھا۔رات گئے تک کام کرتا تھا۔ پھر بڑے آرام سے چلاجاتاتھا ایک ہفتہ بعد،سیکریٹری نے کورالاکوچٹ بھجوائی کہ وہ اسے کسی سرکاری کام سے ملناچاہتاہے۔چٹ بھجوائے ہوئے دوچارمنٹ ہوئے تھے کہ وزیراعظم خوداس کے کمرے میں آگیااورتہذیب سے
پوچھاکہ فرمایے، کیا کام ہے۔ سیکریٹری کی جان نکل گئی کہ ملک کا وزیراعظم اس کے دفترمیں آکرکام پوچھ رہاہے۔کرسی سے کھڑا ہوگیا۔ لجاجت سے کورالاکوکہاکہ سر،قانون کے مطابق بطوروزیراعظم آپ نے اثاثے ڈیکلیئر کرنے ہیں۔وزیراعظم نے سیکریٹری سے فارم لیااور خاموشی
سے اپنے دفترچلاگیا شام کوفارم واپس آیاتو سیکریٹری نے پڑھناشروع کردیا۔اثاثوں کا کاغذدیکھ کر آنکھیں باہراُبل پڑی۔درج تھا،”میرے پاس کوئی گھرنہیں ہے۔ کوئی گاڑی بھی نہیں ہے کیونکہ میں بس میں سفر کرتا ہوں۔کسی قسم کی کوئی جائیداد، پلاٹ، زیور، سونا، ہیرے بھی نہیں ہیں۔
جہاں تک زرعی زمین کاتعلق ہے،ساری زمین خیرات کرچکاہوں اوراس وقت میرے پاس ایک ایکڑزمین بھی نہیں ہے۔میراکسی قسم کاکوئی بینک اکاؤنٹ بھی نہیں ہے۔میرے پاس کوئی رقم ہی نہیں ہے۔میرے پاس صرف تین موبائل فون ہیں جن میں سے ایک آئی فون ہے۔اس کے علاوہ
میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے”۔
نیپال جیساملک جہاں سیاست اورکرپشن،بالکل ہماری طرح لازم وملزوم ہے۔وہاں وزیراعظم کے ڈیکلیئریشن فارم میں کسی قسم کے اثاثے نہ ہونااچھنبے کی بات تھی ۔سیکریٹری اگلے دن صرف اس لیے وزیراعظم کے پاس گیاکہ کہیں اس سے کوئی غلطی نہ ہوگئی ہو۔
مگروزیراعظم نے تسلی دی اورکہاکہ میں نے ڈیکلیئریشن فارم کے نیچے دستخط کیے ہیں۔ فکرنہ کریں تھوڑے دن کے بعدکسی صحافی نے اخبارمیں چھاپ دیا کہ یہ دنیاکاسب سے غریب وزیراعظم ہے۔اپوزیشن نے کہناشروع کر دیاکہ یہ شائدجھوٹ ہے۔کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک ایسا
شخص جسکے خاندان میں تین وزیراعظم گزرے ہوں، اتنامفلوک الحال ہو۔اپوزیشن نے ہر طرح کی تحقیق کرڈالی۔مگرشیشیل کورالاکی لکھی ہوئی باتوں میں کوئی سقم نہ نکال سکے۔واقعی وزیراعظم کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔وہ معاشی کسمپرسی کاشکارتھا۔ ایک سرکاری دورے میں
حکومت کی طرف سے اسے چھ سوپنتالیس ڈالر ملے۔ دورے کے بعداس نے یہ تمام ڈالرسرکاری خزانے میں واپس جمع کروادیے کہ اس کا دورہ پرکسی قسم کے کوئی پیسے خرچ نہیں ہوئے۔لہذایہ ڈالراس کے کسی کام کے نہیں ہیں بطوروزیراعظم شیشیل کورالانے انتہائی سادگی سے
وقت گزارااورحکومت کے بعد بھائی کے گھرمنتقل ہوگیا۔آخری عمرمیں پھیپھڑوں کا کینسر ہوگیا۔اس کے پاس علاج کے پیسے نہیں تھے۔سیاسی پارٹی کے اراکین نے باقاعدہ چندہ اکٹھاکیااورپھروہ اپناعلاج کروانے کے قابل ہوا۔ بہرحال کینسرجیسے موذی مرض سے بہادری سے لڑتے ہوئے2016ء میں نیپال کے
ایک سرکاری اسپتال میں دم توڑگیا آج بھی آپ اس کی زندگی پر لکھی گئی کتابیں پڑھیں توآنکھیں نم ہوجاتی ہیں, انسان پوچھتاہے اے خدا ! ایسے درویش لوگ بھی اس دنیاپرحکومت کرتے ہیں جوالیکشن جیتتے ہیں اور اپنے دامن پرکرپشن کی ایک چھینٹ بھی نہیں پڑنے دیتےاور اسی تنگدستی میں دنیاچھوڑدیتے ہیں
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
جس طرح سب سے پہلے اسلام کے دامنِ رحمت سے وابستہ ہونے کا اعزاز ایک معزز خاتون حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا کو حاصل ہوا اُسی طرح سب سے پہلے حق کی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کرنے کی سعادت بھی ایک خاتون کو حاصل ہوئی۔ یہ خاتون حضرت سمیہ رضی اﷲ عنہا تھیں۔ آپ حضرت عمار
رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ تھیں، جنہوں نے ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لئے اپنی جان کی قربانی پیش کی۔ اسلام قبول کرنے کے ساتھ ہی ان کے جذبۂ ایمانی کو طرح طرح سے آزمایا گیا لیکن جان کا خوف بھی ان کے جذبۂ ایمان کو شکست نہ دے سکا۔ روایات میں مذکور ہے کہ
انہیں گرم کنکریوں پر لٹایا جاتا، لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں کھڑا کر دیا جاتا، لیکن تشنہ لبوں پر محبتِ رسول کے پھول کھلتے رہے اور پائے استقلال میں ذرا بھی لغزش نہ آئی۔ عورت تو نازک آبگینوں کا نام ہے جو ذرا سی ٹھیس سے ٹوٹ جاتے ہیں لیکن حضرت سمیہ رضی اﷲ
آج کے دور میں مینار مساجد کی پہچان ہیں مگر اسلامی تاریخ کا پہلا مینار خلیفہ دوم سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے حکم پر آج سے چودہ سو سال قبل سرزمین حجاز کی الجوف گورنری کے علاقے دومۃ الجندل میں تعمیر کرایا گیا۔ 144 سو سال گذر جانے کے بعد آج بھی یہ مینار اپنی جگہ
قائم ودائم ہے۔ یہ مینار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس وقت تعمیر کرایا تھا جب وہ بیت المقدس کے سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ دومۃ الجندل میں قائم یہ مینار اسلام کی اولین یادگاروں کے ساتھ ساتھ اس دور کے عرب فن تعمیر کا ایک شاہ کار بھی ہے۔ مینار جنوب
مغربی سمت میں قائم کیا گیا جو دیوار قبلہ کی طرف تھوڑا سا مڑا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ مینار کی بنیاد مربع شکل میں ہے جس کے اضلاع کی لمبائی تین میٹر ہے۔ اس کی دیواریں پتھر کی ہیں۔ زمین سے بلندی کی طرف یہ مخروطی شکل میں ہے اور اس کی بلندی 13 میٹر ہے۔
حضرت سعد بن سعنہ رضی اللہ عنہ جو پہلے ایک یہودی عالم تھے انہوں نے حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ کھجوریں خریدی تھیں۔ کھجوریں دینے کی مدت میں ابھی ایک دو دن باقی تھے کہ اُنہوں نے بھرے مجمع میں حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے انتہائی تلخ و ترش لہجے میں سختی کے ساتھ تقاضا
1965ء کی جنگ ختم ہونے کے چند ماہ بعد مدینہ منورہ میں ایک عمر رسیدہ پاکستانی خاموش بیٹھا آنسو بہاتے ہوئے روضہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔ یہ پاکستانی 11 ستمبر 1965ء کو سیالکوٹ پھلورا محاذ پر شہید ہونے والے کوئٹہ انفنٹری سکول کے انسٹرکٹر میجر ضیاء الدین عباسی
(ستارہ جراُت) کے والد گرامی تھے۔ میجر ضیاء الدین عباسی کے ٹینک کو دشمن کی توپ کا گولہ لگا جس سے وہ شہید ہوگئے۔ جب صدر ایوب خان کی طرف سے میجر عباسی شہید کے والد اپنے شہید بیٹے کو بعد از شہادت ملنے والا ستارہ جرات وصول کر رہے تھے تو ایوب خان
نے ان سے ان کی کوئی خواہش پوچھی، تو انہوں نے عمرہ کی خواہش کا اظہار کیا جسے ایوب خان نے فورا” قبول کر لیا۔ شہید میجر ضیاءالدین عباسی ستارہ جرات کے والد جب روضہ رسول صلی اللہ علیہ و سلام کے سامنے بیٹھے آنسو بہا رہے تھے تو خادم مسجد نبوی وہاں آئے اور
مدینہ کا بازار تھا، گرمی کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ لوگ نڈھال ہورہے تھے. ایک تاجر اپنے ساتھ ایک غلام کو لیے پریشان کھڑا تھا. غلام جو ابھی بچہ ہی تھا وہ بھی دھوپ میں کھڑ ا پسینہ پسینہ ہورہا تھا. تاجر کا مال اچھے داموں بک گیا تھا بس یہ غلام ہی باقی تھا جسے خریدنے میں کوئی بھی دلچسپی
نہیں دکھا رہا تھا ---تاجر سوچ رہا تھا کہ اس غلام کو خرید کر شاید اس نے گھاٹے کا سودا کیا ہے. اس نے تو سوچا تھا کہ اچھا منافع ملے گا لیکن یہاں تو اصل لاگت ملنا بھی دشوار ہورہا تھا, اس نے سوچ لیا تھا کہ اب اگر یہ غلام پوری قیمت پر بھی بکا تو وہ اسے فورا بیچ دے گا --- مدینہ
کی ایک لڑکی کی اس غلام پر نظر پڑی تو اس نے تاجر سے پوچھا کہ یہ غلام کتنے کا بیچو گے. تاجر نے کہا کہ میں نے اتنے میں لیا ہے اور اتنے کا ہی دے دوں گا. اس لڑکی نے بچے پر ترس کھاتے ہوئے اسے خرید لیا تاجر نے بھی خدا کا شکر ادا کیا اور واپسی کے راہ لی --- مکہ سے ابو حذیفہ
فتح مکہ کے ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مکان کی دیوار سے ٹیک لگائے اپنے کسی غلام کے ساتھ گفتگو فرما رہے تھے اور وہ مکان ایک کافرہ عورت کا تھا ۔اس نے جب حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ( ﻣُﺒﺎﺭﮎ ) ﺳُﻨﯽ ﺗﻮ ﺑُﻐﺾ ﻭ