دوسری ہی پشت میں عبدالمطلب پرسلسلۂ نسب رسول اللہ ﷺ کے نسب سے جاملتاہے، لہٰذا رسول اللہ ﷺ ٗ نیزحضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہٗ دونوں کے داداایک ہی تھے،یعنی ’’عبدالمطلب‘‘۔
حضرت علی بن ابی طالب ؓ کی پیدائش مکہ شہرمیں رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے دس برس قبل ہوئی تھی۔آپؓ ابوطالب کے بیٹے تھے،جوکہ رسول اللہ ﷺ کے مشفق ومہربان چچابھی تھے اورسرپرست بھی،چھ سال کی عمرمیں جب رسول اللہ ﷺ کی والدہ آمنہ بنت وہب کاانتقال ہوگیاتھا،
تب آپؐ اپنے داداعبدالمطلب کی کفالت میں آگئے تھے ، اور پھر دوسال بعدجب داداکاانتقال ہوا، تب آپؐ داداکی وصیت کے مطابق اپنے چچاابوطالب کی کفالت میں آگئے تھے ،اُس وقت آپؐ کی عمرمبارک آٹھ سال تھی ،
انکی اس تنگدستی کی وجہ دراصل یہ تھی کہ وہ خاندان بنوہاشم کی سربراہی کے علاوہ مزیدیہ کہ متولیٔ کعبہ بھی تھے،لہٰذااُس دورکے رواج کے مطابق جوکچھ بھی انہیں میسرآتاوہ نہایت فراخدلی کے ساتھ حجاجِ بیت اللہ کی خدمت وخبرگیری اورمیزبانی میں خرچ کردیاکرتے تھے
رسول اللہ ﷺ نے بچپن کے مرحلے سے نکلنے کے بعدجب شباب کی منزل میں قدم رکھاتواپنے محسن چچاکا ہاتھ بٹانے اورمعاشی بوجھ ہلکاکرنے کی غرض سے ان کے چھوٹے بیٹے ’’علی‘‘کواپنی کفالت میں لے لیاتھا،
لہٰذاحضرت علی بن ابی طالب ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے گھرمیں اورخودآپؐ کی نگرانی میں ہی تربیت اورنشوونماپائی تھی،اورپھراسی تربیت کی جھلک زندگی بھران کی شخصیت اورسیرت وکردارمیں نمایاں نظرآتی رہی…
حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے فوری بعد دعوتِ حق پرلبیک کہتے ہوئے دینِ اسلام قبول کرلیاتھاجب ان کی عمرمحض دس برس تھی۔مکہ میں آپ ﷺ کے اعلانِ نبوت کے بعدکمسن علی ؓہمیشہ ہرقدم پرآپؐ کے ساتھ رہے ،
اورکمسنی کے باوجودجوبھی خدمت ان سے بن پڑی …بلاترددہمیشہ ہرممکن خدمت سرانجام دیتے رہے۔
یہاں تک کہ آپؐ کی بعثت کے بعداسی طرح مشرکینِ مکہ کے نرغے میں انتہائی نامساعدوپریشان کُن حالات میں تیرہ سال گذرگئے،
تب اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی جانب سے ہجرتِ مدینہ کاحکم نازل ہوا،ہجرت کی رات مشرکینِ مکہ نے آپؐ کے قتل کامنصوبہ بنارکھاتھا،اوراپنے اسی ناپاک منصوبے کوعملی جامہ پہنانے کی غرض سے آپؐ کے گھر کا محاصرہ کررکھاتھا…
اُس رات آپؐ نے حضرت علیؓ کواپنے بسترپرسونے کی تلقین فرمائی تھی…تاکہ آپؐ کی وہاں سے روانگی کے بعددشمن اگراندرجھانک کردیکھیں تویہ سوچ کرمطمئن رہیں کہ آپؐ اب تک اپنے گھرمیں ہی موجودہیں
اوراپنے بسترپرسورہے ہیں ، لہٰذادشمن آپؐ کاتعاقب کرنے کی بجائے بدستوراسی جگہ موجودرہیں …
حضرت علی ؓ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ آج کی رات رسول اللہ ﷺ کے بسترپرسونا گویاقتل گاہ میں سونے کے مترادف ہے…
لیکن اس کے باوجود بلاخوف وخطرآپؐ کے حکم کی تعمیل …یقینااطاعتِ رسولؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے، نیزفدائیت کے نقطۂ نگاہ سے …حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ کایہ بے مثال اوریادگارکارنامہ تھا…
نیز حضرت علیؓ کے اس عمل میں نوجوان نسل کیلئے ہمیشہ کیلئے یہ قیمتی پیغام بھی پوشیدہ ہے کہ اللہ کے دین کی سربلندی کی خاطروقت پڑنے پرکسی بھی بڑے سے بڑے خطرے کاسامنا کرنے سے گریزنہ کیاجائے۔
رسول اللہ ﷺ کے پاس مشرکینِ مکہ کی بہت سی امانتیں رکھی ہوئی تھیں ،آپؐ نے ہجرت کی رات وہ تمام امانتیں حضرت علیؓ کے سپردکرتے ہوئے یہ تاکیدفرمائی کہ ’’اے علی!یہ تمام امانتیں ان کے مالکوں کے حوالے کرنے کے بعدتم مکہ سے نکلنا‘‘
چنانچہ آپؐ کے اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے حضرت علیؓ وہ تمام امانتیں ان کے مالکوں تک پہنچانے کے بعدمکہ سے تنِ تنہاپیدل ہی مدینہ کی جانب روانہ ہوگئے…اس وقت ان کی عمر بائیس سال تھی۔
مدینہ پہنچنے کے کچھ عرصے بعدآپؐ نے اپنی سب سے چھوٹی اورلاڈلی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکی شادی حضرت علیؓ کے ساتھ کردی، یوں دونوں باہم رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگئے،آپؐ حضرت فاطمہ ؓ سے بہت زیادہ محبت رکھتے تھے،
ایک بارآپؐ نے اپنی پیاری بیٹی کے بارے میں ارشادفرمایا: سَیِّدَۃُ نِسَائِ أھلِ الجَنَّۃ (۱) یعنی’’فاطمہ جنت میں تمام عورتوں کی سردارہیں ‘‘۔
اللہ نے ان دونوں کودوبیٹوں حسن اورحسین ٗ نیزدوبیٹیوں ام کلثوم اورزینب سے نوازا…
رسول اللہ ﷺ اپنے ان کمسن نواسوں سے بہت زیادہ محبت کیاکرتے تھے ،ایک موقع پر آپؐ نے ان دونوں کے بارے میں ارشادفرمایاتھا: ھُمَا رَیحَانَتَايَ مِنَ الدُّنیَا (۱) یعنی’’اس دنیامیں یہ دونوں میرے پھول ہیں ‘‘۔
نیزآپؐ اپنے داماداورچچازادیعنی حضرت علی بن ابی طالب ؓ کے ساتھ بھی ہمیشہ انتہائی شفقت وعنایت کامعاملہ فرمایاکرتے تھے،چنانچہ ایک موقع پرآپؐ نے ان کیلئے ان الفاظ میں دعاء فرمائی :
اَللّھُمّ وَالِ مَن وَالَاہُ ، وَ عَادِ مَن عَادَاہ (۲)یعنی ’’اے اللہ جوکوئی اس سے دوستی رکھے توبھی اُس سے دوستی رکھ ، اورجوکوئی اس سے دشمنی رکھے توبھی اُس سے دشمنی رکھ‘‘۔
نیزایک بارآپؐ نے حضرت علیؓکومخاطب کرتے ہوئے یہ ارشادفرمایا: أَنتَ أَخِي فِي الدُنیَا وَالآخِرَۃِ(۳) یعنی’’ اے علی! آپ دنیامیں بھی اورآخرت میں بھی میرے بھائی ہیں ‘‘۔
ترمذی شریف میں ارشادِ نبوی ہے:
’’بہترین دعاء وہ ہے جو یوم عرفہ میں مانگی جائے۔ میں نے اورمجھ سے پہلے انبیاء نے جو دعائیں کی ہیں، ان میں سے افضل دعاء یہ ہے :
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ،لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍٔ قَدِیْرٌ
’’اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اوراسکا کوئی شریک نہیں سارے جہاں کی بادشاہی اورہر قسم کی تعریف اسی کیلئے ہے اوروہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
حجاج کو چاہئے کہ یہ دعاء اورایسی ہی قرآن وسنت سے ثابت شدہ ومسنون دعائیں مانگیں ۔ مذکورہ دعاء کے علاوہ اس دن کیلئے کوئی مخصوص دعاء ثابت نہیں جبکہ طواف اور سعی کی طرح عرفات کی دعائوں کی بھی مطبوعہ کاپیاں بکتی ہیں ،
[1] میدان عرفات میں یوم عرفہ کا روزہ رکھنا منع ہے اور دوسری جگہوں میں اس دن روزہ رکھنا کار ثواب ہے اور عیدین میں روزہ رکھنا ممنوع ہے۔ ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے میدان عرفات میں یوم عرفہ کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا
حضرت عبداللہؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ؐنے فرمایا کہ سچائی نیکی کی طرف اور نیکی ہدایت کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور آدمی سچ بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ صدیق ہوجاتا ہے اور جھوٹ بدکاری کی طرف اور بدکاری دوزخ کی طرف لے جاتی ہے
سمرہ بن جندبؓ روایت کرتے ہیں نبی کریمؐ نے فرمایا کہ میں نے خواب دیکھا کہ دو شخص میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ وہ شخص جس کو تم نے معراج کی رات میں دیکھا تھا
اللہ عزوجل نے اپنے اس برگزیدہ بندے یعنی علی بن ابی طالب ؓکوگوناگوں اوصاف وکمالات سے نوازاتھا،انکی شخصیت میں جامعیت وہمہ گیری نمایاں نظرآتی تھی،اس چیزکامختصرتذکرہ درجِ ذیل ہے
شجاعت وبہادری کے لحاظ سے حضرت علی ؓ کی شخصیت کاجائزہ لیاجائے توہم دیکھتے ہیں کہ میدانِ کارزارمیں وہ ہمیشہ پیش پیش نظرآتے رہے،رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے دوران جتنے بھی غزوات پیش آئے ،ہرموقع پرحضرت علیؓ شریک رہے بلکہ پیش پیش رہے
اورجرأت وشجاعت کے بے مثال کارنامے دکھاتے رہے…سوائے غزوۂ تبوک کے (سن ۹ ہجری میں ) کیونکہ اُس موقع پرآپ ﷺ نے تبوک کی جانب روانگی کے وقت مدینہ میں حضرت علیؓ کواپنے اہلِ بیت کی حفاظت وخبرگیری کی ذمہ داری سونپی تھی،