پاکستان کی سر زمین پر تقریبا 18 ہزار من سالانہ انجیر پیدا ہوتا ہے جبکہ یہاں سالانہ تقریباً 28 ہزار من انجیر کی مانگ ہوتی ہے، اسی لیے ہمیں اس مانگ کو پورا کرنے کے لئے ترکی ایران اور افغانستان سے سالانہ تقریباً 10 ہزار من خشک انجیر خرید کر پاکستان لانا پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان
میں انجیر اس قدر مہنگا ہے کہ عام آدمی اسے کھانے کے بارے سوچ ہی نہیں سکتا، انجیر کی فصل لگانے کے لئے دس/10 فٹ کے فاصلے پر قطاریں بنا کر اور ان قطاروں میں دس/10 فٹ کے فاصلے پر ہی پودے لگائے جاتے ہیں اس طرح ایک ایکڑ میں تقریباََ 435 پودے لگائے جا سکتے ہیں.
یاد رہے کہ ایک دفعہ لگایا ہوا انجیر کا پودا 15 سے 20 سال تک بھر پور پیداوار دیتا ہے، نرسری میں انجیر کا ایک پودا تقریباََ 50 روپے میں مل جاتا ہے. اس طرح پودے لگانے کا فی ایکڑ خرچ تقریباََ 22 ہزار روپے ہو سکتا ہے۔ ایک پودا کم از کم 6 کلوگرام پیداوار دیتا ہے. اس طرح
سے ایک ایکڑ سے تقریبا 2600 کلو یا 65 من تازہ انجیر حاصل کیا جا سکتا ہے اگر انجیر کو خشک کر لیا جائے تو تقریباََ 1430 کلو صافی خشک انجیر حاصل کیا جا سکتا ہے اب اگر انجیر کی قیمت کی بات کی جائے تو خشک انجیر پرچون میں 800 روپے سے لیکر 1200 روپے فی کلو تک بکتا ہے
لیکن حالیہ مارکیٹ سروے کے مطابق تھوک میں انجیر کا ریٹ 500 روپے فی کلو ہے۔ اگر کسان کا انجیر کم از کم 400 روپے فی کلو بھی فروخت ہو تو 1430 کلو گرام خشک انجیر کی آمدن 5 لاکھ 70 ہزار روپے فی ایکڑ بنتی ہے اور اگر انجیر کو بغیر خشک کئے ہوئے تازہ تازہ بیچا جائے تو اس
کا ریٹ کم از کم 100 روپے فی کلو تک لگ جاتا ہے اس حساب سے 2600 کلوگرام تازہ انجیر 2 لاکھ 60 ہزار روپے میں بک جائے گا، اگر دیکھا جائے تو آمدن کے لحاظ سے انجیر کسی بھی طرح دوسری فصل یا باغ سے پیچھے نہیں ہے پاکستان میں انجیر تقریباً ہر جگہ اگایا
جاسکتا ہے اگر زیادہ سے زیادہ لوگ انجیر کی کاشت شروع کردیں تو نہ صرف وہ خود منافع کمائیں گے بلکہ پاکستان کو دوسرے ملکوں سے انجیر نہیں خریدنا پڑے گا اور ہر عام آدمی تک یہ بہترین پھل پہنچ سکے گا سوچیئے گا ضرور کیونکہ سوچنا جرم نہیں
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
جب مشہور برطانوی بحری جہاز ٹائی ٹینک حادثے کا شکار ہوا تو اس کے آس پاس تین ایسے بحری جہاز موجود تھے جو ٹائی ٹینک کے مسافروں کو بچا سکتے تھے۔۔ سب سے قریب جو جہاز موجود تھا اسکا نام سیمسن (Samson) تھا اور وہ حادثے کے وقت ٹائی ٹینک سے صرف سات میل کی دوری پہ تھا۔ سیمسن کے
عملے نے نہ صرف ٹائی ٹینک کے عملے کی طرف سے فائر کئے گئے سفید شعلے (جو کہ انتہائی خطرے کی صورت میں فضا میں فائر کئے جاتے ہیں) دیکھے تھے بلکہ مسافروں کی آہ و بُکا کو سُنا بھی تھا۔ لیکن کیونکہ سیمسن کے عملے کے لوگ غیر قانونی طور پہ انتہائی قیمتی سمندری حیات کا
شکار کر رہے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ پکڑے جائیں لہذا ٹائی ٹینک کی صورتحال کا اندازہ ہوتے ہی بجائے مدد کرنے کے وہ جہاز کو ٹائی ٹینک کی مخالف سمت میں بہت دور لے گئے۔
یہ جہاز ہم میں سے ان لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے جو اپنی گناہوں بھری زندگی میں اتنے مگن
ایک مرتبہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک اعرابی آیا جس کے پاس گوہ تھی کہنے لگا مجھے لات و عزیٰ کی قسم اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم‘ میں تجھ پر ہرگز ایمان نہیں لاؤں گا جب تک کہ یہ گوہ تمہاری صداقت کی گواہی نہ دے‘حضورصلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا اچھا سنو! پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گوہ سے مخاطب ہو کر فرمایا‘ اے گوہ بول! گوہ سنتے ہی عربی زبان میں بول اٹھی‘لبیک یا رسول العالمین‘تمام سعادتیں اور کامیابیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گوہ سے پوچھا
تم کس کی عبادت کرتی ہو‘ گوہ نے فوراً جواب دیا‘ اس کی عبادت کرتی ہوں جس کا عرش آسمان میں ہے اور زمین میں جس کی حکومت ہے اور سمندر میں جس کا راستہ ہے اور جنت میں جس کی رحمت ہے اور دوزخ میں جس کا عذاب ہے‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میں
انسانی جسم کے بارے میں حیرت انگیز معلومات
انسان کا دل اوسط ایک سال میں ایک سو بیاسی میلین لیٹر خون کو پمپ کرتا ہے عورتوں کی دل کی دھڑکن مردوں دل کے مقابلے میں زیادہ تیز ھوتی ہے ھماری زبان همارے جسم کی سب سے مظبوط پٹھوں میں سے ایک ہے همارے جسم کا سب سے بڑا حصہ ھماری
جلد ہے جوکہ تمام عمر بڑھتی رھتی ہے دانت انسانی جسم کا وہ واحد حصہ ہے جو کہ اپنی مرمت خود نہیں کرسکتے ایک نارمل انسان ایک دن میں تیئس ہزار چالیس دفعہ سانس لیتا ہے جگر انسانی جسم کا ایسا عنصر ہے جوکہ خود کو دوبارہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے انسان اپنی
زندگی کا تینتیس فیصد حصہ سو کر گزار دیتا ہے جب هم سورہے ھوتے ہیں تو همارا قد 0.3 انچ تک بڑھ جاتا ہے اور جاگنے پر اپنی حالت پر آجاتا ہے ایسا کشس ثقل کی وجہ سے ھوتا ہے انسانی دماغ دن کے مقابلے میں رات کو ذیادہ فعال ھوتا ہے انسانی جسم کی پچیس فیصد ہڈیاں
صابن کی ایجاد
نہانا دھونا مسلمانوں کی مذہبی ضرورت ہے آور یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں استعمال ہونے والا صابن انہوں نے آپنے دورِ عروج میں ایجاد کر لیا تھا قدیم مصر آور روم میں صابن جیسی کوئی چیز استعمال ہوتی تھی مگر یہ عرب سائنسدان تھے جنہوں نے سبزیوں کے تیل آور سوڈیم ہائیڈرو
آکسائیڈ کے امتزاج میں مختلف خوشبویات کا استعمال کیا آور یوں انکا چرچا ہر جگہ ہوا کیوں کے اگر مسلمان بغیر صابن کے نہاتا تو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا آور نا پڑتا ہے کیوں ہمیں اَلْحَمْدُلِلّه اللّه پاک نے مسلمان پیدا کیا ہے آور ہمارے جسم سے کوئی بو
وغیرہ نہیں آتی لیکن کفار کا جسم ہر وقت بدبودار ہوا رہتا تھا تو اس لئے مسّلم سائنسدانوں کی یہ تحقیق ان میں ذیادہ مشہور ہوئی جسکی دیکھا دیکھی کفار نے بھی مختلف خوشبویات ایجاد کیں آور اسے آپنی ایجاد کا نام دیا دراصل وہ مسلمان سائنسدانوں کی ایجاد تھی اور تو
دو نوجوان عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں “یا عمر یہ ہے وہ شخص عمر رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے ہیں کیا کیا ہے اس شخص نے ؟ یا امیر المؤمنین ۔ اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے عمر رضی اللہ
عنہ پوچھتے ہیں “کیا کہہ رہے ہو ۔ اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے ؟ عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں ” کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے ؟ وہ شخص کہتا ہے “ہاں امیر المؤمنین ۔ مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں ” کس طرح قتل ہوا ہے وہ شخص کہتا
ہے “یا عمر ۔ انکا باپ اپنے اُونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا ۔ میں نے منع کیا ۔ باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا عمر رضی اللہ عنہ کہتےہیں تو قصاص دینا پڑے گا موت ہے اسکی سزا نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت اور فیصلہ بھی ایسا
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عادت مبارکہ تھی کہ رات کا کھانا کبھی اکیلے نہیں کھاتے تھے کسی نہ کسی کو ضرور مدعو فرماکر کھانا نوش فرماتے تھے ایک رات حسب عادت آپ کسی مہمان کا انتظار کر رھے تھے کہ کسی نے دروازے پر دستک دی آپ نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ایک 80 سال کا بوڑھا تھا اس نے
فورا کہا کہ کچھ کھانے کو ھے تو مجھے دیں مجھے بہت بھوک لگی ھے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خوش ہو کر فرمایا ۔مرحبا مرحبا اور اس کے سامنے کھانا رکھا ، اس کے ہاتھ دھلائے اور کہا چلیں جی بسمہ اللہ کیجیئے وہ بوڑھا بولا کہ میں بسمہ اللہ نہیں پڑھوں گا میں مجوسی
ھوں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے غصے میں کہا کہ کھڑے ھو جاو میں مجوسی کے ساتھ کھانا پسند نہیں کرتا ھوں وہ بوڑھا بڑبڑاتا ھوا چلا گیا ادھر پلک جھپکتے ہی حضرت جبرائیل علیہ السلام آ گئیے اور بولے کہ اللہ رب العزت نے فرمایا ھے کہ اے ابراہیم ! منکر تو وہ میرا ھے میں