ہندواتہ، RSS نظریہ کے خلاف امریکہ میں کانفرنس۔۔
10سے 12 ستمبر کو ہونے والی کانفرنس کو ، نارتھ امریکہ اور یورپ کی نامور یونیورسٹیوں نے سپانسر کیا تھا۔ جن میں Stanfor.d,Chicago,Havard قا۔and Princeton قابل ذکر ہیں۔ کانفرنس کا ایجنڈا
Dismantling Global Hindutva- RSS
تھا۔
کانفرنس میں ، دنیا بھر کے 900 معروف سکالرز نے حصہ لیا۔ جن میں بھارتی سکالرز جو دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں میں تدریس کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ انتظامیہ اور مندوبین کو کانفرنس میں شرکت سے روکنے کیلئے جان سے مارنے ، ان کے خاندانوں کے افراد کو پاسپورٹ اور غیر ملکی سفر سے روکنے کی ،
بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر۔ایس۔ایس۔ کے نمائندوں نے دھمکیاں دیں۔ کانفرنس کا انعقاد اور میڈیا میں کاروائی سے یہ گیم چینجر ثابت ہو گی۔ جس میں ہندواتہ، آر۔ایس۔ایس نظریہ ، کہ ہندوستاں ، صرف ہندوؤں کا ، جس میں اقلیتوں کو کوئی حقوق حاصل نہیں۔ بے نقاب ہوا۔ RSS ,نظریہ کی مخالفت صرف
پاکستان نہیں، دنیا کے با اثر تعلیمی اداروں کی طرف سے بھی ہو رہی ہے۔ جو آہستہ آہستہ آگاہی کا سبب اور RSS نظریہ کی تباہی کے ساتھ ہندوستان کی بربادی کا سبب بنے گی۔ #قلمکار
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
12سالہ امریکی معاشی پابندیاں عوام کو یاد ہیں۔۔۔
اگرچہ امریکہ پاکستان کو اپنے دوست ممالک میں شامل کرتا ہے۔ لیکن امریکہ نے سوتیلی ماں جیسا جو سلوک پاکستان کے ڈاتھ، عوام اسے کبھی بھلا نہ سکی۔ حکمران طبقہ کی اپنی مجبوریاں ہونگی۔ جو سمجھ سے بالا تر ہیں۔ کہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے
بے پناہ نعمتوں سے نوازا ہے۔ اس کے باوجود سوائے قومی دفاعی ادارے، تمام ادارے خواب غفلت میں سوے رہے اور عوام اندر ہی اندر کڑھتے ہے۔ اللہ کا شکر ہے۔کہ یہ دور ختم ہوا اور قومی حمیت، خودمختار اور آزادانہ فیصلوں کی وجہ سے پاکستان اور عوام کا سر فخر سے بلند ہوا۔
1965 اور پھر 1971 میں
نے پاکستان کی مدد کی بجائے انڈیا کا ساتھ دیا۔ 1989 سے 2001 تک بد ترین معاشی پابندیوں کا دور رہا۔ پریسلر ترمیم ہو یا کیری لوگر بل،پاکستان پر 12 سال لگاتار معاشی پابندیاں رہیں۔ ظلم کی انتہا کہ ایف۔16 طیاروں کی خریداری کیل پیشگی رقم ادا کی گئی۔ نہ طیارے ملے اور نہ ہی رقم واپس کی گئ
عملی ذندگی کی خوبصورت ترین بات۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دریائے رحمت بہہ رہاتھا۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ عنہ سے فرمایا۔عائشہ مانگ لو، جو مانگنا چاہتی ہو۔ حضرت عائشہ نے عرض کی۔یا رسول اللہ، کیا میں اپنے والد ،حضرت ابو بکر صدیق رضی آللہ سے مشورہ کر سکتی ہوں۔
فرمایا اجازت ہے۔ حضرت عائشہ ، والد گرامی کی خدمت میں پہنچیں اور بات بتا کر مشورہ پوچھا۔ حضرت ابو بکر نے فرمایا۔ کہ اللہ کے نبی سے پوچھنا کہ معراج کی رات خلوت میں اللہ تعالیٰ سے کی گئی باتوں میں سے ایک بتا دیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ وآپس پہنچی اور رسول اکرم سے سوال دہرا دیا۔ اللہ
نے فرمایا۔ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، کہ تیرا امتی اگر کسی ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑ دے۔تو اسے بغیر حساب کتان جنت میں داخل کر دیا جائیگا۔ حضرت عائشہ صدیقہ خوش ہوئیں اور اپنے والد محترم کو واقعی بیان کر دیا۔ حضرت ابو بکر سن کر آبدیدہ ہو گئے۔اعر کہا کہ اس بات کے دوسرے رخ سے ڈرتا ہوں، کہ
قومی مفاد کے تحفظ والا لیڈر ضدی یا قومی ہیرو ؟
-----------------------------------------------------------------
انگریزی سے آزادی کے حصول کے وقت پاکستان کا مقدمہ قائد اعظم محمد علی جناح رحمہ لڑ رہے تھے۔ ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ویول نے قائد اعظم کو ،مڈائل پر گفتگو کیلئے
دفتر آنے کی دعوت دی۔ گفتگو کےدوران لارڈ ویول نے قائد اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔کہ انڈیا میں اگر ایک ( ہندو ) ڈپٹی گورنر ہو سکتا ہے تو دو بھی ہو سکتے ہیں۔ قائد اعظم زیرک سیاستدان اور وکیل تھے ۔ انگریز کی بات کا مطلب سمجھ گئے۔ کہ انہیں خریدنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ قائد اعظم
بغیر جواب دینے اٹھے اور باہر چل دیئے۔لارڈ ویول باہر گیٹ تک ایا۔ قائد اعظم نے فرمایا۔اگر دوبارہ بات چیت کرنی ہو۔تو میرے دفتر تشریف لانا۔ لارڈ ویول نے اس ملاقات کا اپنی کتاب میں حوالہ دیتے ہوے لکھا۔کہ قائد اعظم ایک " ضدی " سیاست دان تھے۔ کیونکہ قائد اعظم نے قومی امانت کا تحفظ کیا۔
انٹر نیشنل میڈیا اور پاکستانی میڈیا میں فرق۔۔
---------------------------------------------------------------
تمام ممالک کا میڈیا اپنے ملکوں میں کی خارجہ پالیسی کو فالو کرتا ہے۔ مثلآ 1- اسرائیلی بیانیہ کہ فلسطینی مسلمانوں کی پاکستان مدد کر رہا ہے۔ اس کا میڈیا کور کر رہا ہے۔
2- انڈیا کی حکومت کا کہنا کہ پاکستان کشمیر اور انڈیا کے اندر دخل اندازہ کر آیا ہے۔ اپنے میڈیا کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ 3- افغانستان میں مجاہدین کی مدد پاکستان کر تا ہے۔امریکہ کا میڈیا اپنے ملک کی خارج پالیسی کے ذریعے اچھالتا ہے۔۔
پاکستانی میڈیا کی اکثریت بھی دشمن ممالک
کی پالیسی پہ عمل پیرا نظر آرہی ہے۔ پاکستانی ریاست کی فارن پالیسی کو کبھی پرموٹ نہیں کیا۔ اپنے ہی قومی اداروں کے خلاف تابڑ توڑ حملے کر کے دشمن کے بیانیہ کو تقویت پہنچانے کی کوشش نظر آتی ہے۔ وقت آ گیا یے۔ کہ ہم اپنی ریاست سے پیار کریں۔ جس میں رہ کر ہر طرح کی سہولیات میسر
پاکستان کی ترقی کا سفر اور عوامی رد عمل ۔۔۔۔
---------------------------------------------------------------
ریاست پاکستان 1947 میں معرض وجود میں آئی تو پاکستان کے وسائل کیا تھے اور آج کیا ہیں ؟ تو ریاست پاکستان کی ترقی کا اندازہ لگانے میں آسانی رہے گی۔ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے۔ کہ
پاکستان کو متحدہ ہندوستان کے اثاثہ جات میں سے کچھ بھی نہیں ملا۔ مزید برآں لٹے پٹے مہاجرین ،انڈین علاقوں سے پاکستان تشریف لائے تو رہائش کا بندوبست، کھانے پینے کی زمہ داری میں ،، مقامی لوگوں نے اخوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہاتھ بٹایا. دفاتر میں نہ میز کرسی اور نہ ہی سٹیشنری تھی۔
یہی حال تعلیمی اداروں کا تھا۔ دفاعی اداروں کے پاس ہتھیار نہیں تھے۔۔۔1970 تک 80٪ گھروں میں بجلی نہیں تھی۔ جہاں تھی وہاں گرمی کے تدارک کیلئے، سیلنگ پنکھے تھے۔ سفر کیلے سائیکل اور گھروں میں فون کا ہونا امارت کی نشانی تھی. آج الحمدللہ ہمارے ہر شہری کے پاس موبائل فون، کار
پاکستان دنیا کا بہترین ملک ،تصویر کا صحیح رخ۔
-----------------------------------------------------------------
پاکستان کی بابت منفی پراپیگنڈے کی جنگ عروج پر ہے۔ جس میں ہمارا میڈیا صف اول کا رول ادا کر رہا ہے۔ اس سے پہلے غیر ممالک کا میڈیا اور مختلف تنظیمیں سروے کے ذریعے باقر
کرانے کی کوشش کرتے رہے۔ کہ پاکستانی طلباء ( برطانیہ و دیگر مغربی ممالک میں) لوکل کمیونٹی کے علاؤہ ، ہندو ،سکھ اور دوسری اقلیتوں سے بہت پیچھے ہیں۔ جبکہ حقائق اس کے منافی تھے۔
نیو ورلڈ آرڈر کے بعد ہندوؤں کو پاکستانیوں پر ترجیح دینے کی پالیسی اپنائی گئی۔ اس کے باوجود
پاکستانی ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کر رہے ہیں۔
گلف نیوز میں شائع ہونے والے چند حقائق جو کوئی مغربی نیوز ایجنسی یا تنظیم شائع نہیں کرے گی۔ 1- کیمبرج کے O & A level امتحانات میں پاکستانی طلبا کے ٹاپ کرنے کا ریکارڈ ابھی تک قائم ہے 2- پاکستان ان 11 ممالک کی صف میں شامل ہے۔جو