حکومت اور جوڑتوڑ کی 35 سے 50 سالہ تجربہ کار PMLN + PPP نے خود حکومت بنانےکی بجائے عمران خان کی حکومت کیوں بننے دی؟
ناتجربہ کار PTI کی (آزاد امیدواروں MQM BAP GDA PMLQ) کے 22 اراکین کی شمولیت سےصرف 6 کی برتری والی پاکستانی تاریخ کی کمزور ترین حکومت تاریخ کی
طاقتور ترین اپوزیشن کے سامنے 3 سال سے کیسے ٹکی ہوئی ہے؟
ہر قومی اثاثہ انہوں نے خود گروی رکھا تھا اندرونی و بیرونی قرضوں سمیت گردشی قرضوں کے پہاڑ بھی انہوں نے خود چھوڑے تھے
اپنی ن لیگی حکومت کے آخری روز قومی خزانے کو جھاڑو لگا کے صاف بھی انہوں نے خود ہی کیا تھا انہیں یہ بھی
بخوبی یاد تھا کہ انہوں نے اپنی حکومتوں میں جتنے گھپلے کیے وہ پورے ہونے ممکن نہیں
جواب بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ حکومت بنانا ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی ترجیح نہ تھی نہ ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں
کہ انہوں نے 2018 تک ملک کے ساتھ جو کھلواڑ کیا ہے اس کے بعد پاکستان حکومت کرنے کے قابل
بچا ہی نہیں تھا
قرضے لیے تھے ان کی واپسی کا شیڈیول بھی انہوں نے خود ہی 2019 سے طے کیا تھا
اور اس سب کے علاوہ انہیں اس بات کا بھی بخوبی ادراک تھا کہ انہوں نے 150 روپے سے زیادہ والے ڈالر کو منشی اسحاق ڈار فارمولے سے (قوم کے اپنے خرچے پر) مصنوعی طریقےسےجسطرح 100روپےکےآس پاس رکھاتھا
اسے اپنی جگہ لانے سے پوری قوم کو کئی سال مہنگائی کے شدید طوفان کا سامنا بھی کرنا پڑے گا
یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر حکومت کے خلاف 3 سال سے مسلسل محاذ آرا ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے ان 3 سالوں میں 22 حکومتی اتحادیوں سمیت 18 اُن الیکٹ ایبلز میں سے جو ان کی اپنی ہی پارٹیوں میں سے
تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے، صرف 4 کو اپنے ساتھ ملا کے اپنی 1 کی برتری والی حکومت بنانے کی کبھی کوئی کوشش ہی نہیں کی
کام تھا جو وہ 3 سال میں بھی نہیں کر سکی؟
ان کا خیال تھا کہ عمران خان کی حکومت قرضوں کی واپسی اور مہنگائی کے بوجھ تلے دب کے سال ڈیڑھ سال میں خود ہی ختم ہو جائے گی
اور پھر ہم مہنگائی سمیت تمام مصیبتوں کا الزام عمران خان کی نا تجربہ کاری کے سال ڈیڑھ سالہ دور پر ڈال کے قوم کا قیمتی ووٹ حاصل کریں گے
کیا جوڑ توڑ کی موجد اور خود کو خود ہی تجربہ کار کہہ کر عمران خان اور اس کی حکومت کو نا تجربہ کاری کا طعنہ دینے والی اپوزیشن کیلیے
یہ کام کوئی مشکل نہیں تھا دو چار نسلوں کو اور بھی گروی رکھیں گے اور اپنے بعد اس مغلوب قوم پر اپنے بچوں کو بھی حاکم بنائیں گے
ان کے ارادے اور پلاننگ تو بے جھول تھی مگر نیلی چھتری والے کی پلاننگ کچھ اور ہی تھی، سب کچھ بخوبی جاننے والے تجربہ کار ترین زرداری اور شریف برادران صرف یہی
ایک بات نہ جان سکے
کہ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے کھڑے کیے ہوئے مصیبتوں کے پہاڑ اٹھا کے ان کے وزن تلے دب کے خود ہی ختم ہونے کے لیے جس عمران خان کو اپنی حکومت بنانے کا موقع دیا تھا وہ عمران خان مشکل میں اور بھی زیادہ اچھا کھیلتا ہے، تندئِ بادِ مخالف کے سامنے
اور بھی زیادہ اونچی اڑان بھرتا ہے
اپنا بویا ہمیں کاٹنا بھی خود ہی ہے اسلیے ہمیں چند سال مزید مہنگائی بھی برداشت کرنی پڑے گی جس کی وجوہات میں اوپر بیان کر چکا ہوں، یقین صرف اس بات پر رکھیں کہ آج یہ ملک اور قومی خزانہ بالکل محفوظ ہاتھوں میں ہے اور یہ مہنگائی کسی حاکم کے بچوں کے
بیرون ملکی اثاثوں اور جائدادوں کی خریداری کے لیے نہیں بلکہ تین عشروں سے چوروں اور لٹیروں کو ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنائے رکھنے کا وہ خمیازہ ہے
جو ہمیں چاہتے نہ چاہتے بھگتنا ہی بھگتنا ہے، اگر آج ہم نہیں بھگتیں گے تو ہمارے بچوں کو سود سمیت بھگتنا پڑے گا
یا پھر (میرے منہ میں خاک) جن اہداف کے لیے ہمیں مقروض کیا گیا انہیں پورا کرنے کے لیے عالمی قوتیں ہمارے فیصلے کر رہی ہوں گی، یعنی پاکستان کی ایٹمی طاقت اور بذاتِ خود پاکستان کے فیصلے وہ کر رہے ہوں گے جنہیں یہ دونوں ہی ایک آنکھ نہیں بھاتے
تیس سال لٹیروں پر اعتماد کیا ہے،
10 سال عمران خان پر بھی اعتماد کریں، میرا ایمان ہے کہ پاکستان عمران خان جیسے محفوظ ہاتھوں میں صرف 10 سال بھی رہا تو نہ صرف حکومتی راہداریوں کے وہ چور راستے ہمیشہ کیلیے بند ہو جائیں گے جن سے گزر کے چور لٹیرے ہم پر بار بار مسلط ہوتے رہے بلکہ ہم چند سال کی تکالیف کے بعد
ان شاء اللہ راحت کے مستقل دن بھی ضرور دیکھیں گے
اللہ عمران خان کو صحت سلامتی کے ساتھ پاکستان پر سب سے طویل حکمرانی عطا فرمائے، الٰہی آمین یا رب العالمین
پاکستان، عمران خان، پاک فوج اور پاکستانی قوم زندہ باد و پائندہ باد۔۔
#قلمکار
اس کے گھر میں کچھ چیزیں حیران و پریشاں کر دینے والی تھیں.
پریشان کر دینے والی بات یہ تھی کہ قرآن کا ایک نسخہ کچن میں رکھا تھا جس پر تیل کے نشانات نمایاں تھے ۔اسے بار بار جیسے گیلے ہاتھوں سے پکڑا گیا ہو،
دوسرا نسخہ باہر باغیچہ کے ایک کونے میں لگی تختی پر رکھا تھا،
اس کے اوراق بھی پژ مردہ سے تھے،ایک نسخہ اس کے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر تھا، تو ایک لاونج میں،
"یقینا کئی دفعہ پیٹھ ہو جاتی ہو گی، بے ادبی ہوتی ہوگی".
اسے زرا احساس نہیں، دل میں غبار سا اٹھا، چہرہ متغیر ہو گیا، اس نے شاید بھانپ لیا تھا تبھی بولی، دراصل بچے چھوٹے ہیں اور بڑا خاندان ہے،
بے تحاشا مصروفیات میں ایک جگہ بیٹھ کر قرآن سے استفادہ کا موقع نہیں ملتا اس لئے جگہ جگہ قرآن رکھ دیئے ہیں جہاں زرا گنجائش ملتی ہے ، اٹھاکرپڑھ لیتی ہوں ، دراصل باجی مسئلے بھی تو دن میں ہزاروں طرح کے پیش آتے ہیں اور حل اسی میں ملتا ہے.
میں کچھ سمجھ نہیں پائی.وہ گویا ہوئی
جب پہلی بار پرہیزی کھانا اباجی کے سامنے آیا... تو کافی دیر تک ٹھوڑی تلے ہاتھ رکھے ٹرے کو تکتے گے...
جانے کیوں یہ منظر میرے دل پر بوجھ بڑھاتا چلا گیا....
ایک ایسا شخص جو ساری زندگی خوش خوراک رہا ہو
اور اپنی پروفیشنل لائف میں بھی
جب جب موقع ملا ، کوکنگ کی ہو اس کے لئے ابلی ہوئی سبزی کھانا حوصلے کی بات تھی...
اگلی رات انھیں اس طرح سے کھانا دینے کی ہمت نہ ہوئی...
ٹرے میں ان کی پلیٹ کے ساتھ ایک پلیٹ کا اور اضافہ ہوا.... اس کے دو فائدے ہوئے ایک تو وہ کیفیت دوبارہ نہیں دیکھی جو کھانا رکھنے پر سامنے آئی تھی....
اور دوسرا اب وہ کھانے لگے تھے کیونکہ میں بھی ان کے ساتھ وہی ابلی سبزی/ دال کھا رہی تھی
یہ اعتراف ضرور ہے کہ پہلے لقمے پر چودہ طبق میرے بھی روشن ہوئے...اور ابا نے حیرت سے بھی دیکھا...
" یہ کیوں ؟"
"بہت مزے کا ہے ابا جی.... اس لیے کھا رہی...."
دو نوجوان عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں “یا عمر یہ ہے وہ شخص”
عمر رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے ہیں ” کیا کیا ہے اس شخص نے ؟”
“یا امیر المؤمنین ۔ اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے”
عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں "کیا کہہ رہے ہو۔ اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے؟"
عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں ” کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے ؟
وہ شخص کہتا ہے “ہاں امیر المؤمنین ۔ مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ
عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں ” کس طرح قتل ہوا ہے؟
وہ شخص کہتا ہے “یا عمر ۔ انکا باپ اپنے اُونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا ۔ میں نے منع کیا ۔ باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا ”
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ” پھر تو قصاص دینا پڑے گا ۔ موت ہے اسکی سزا ”
#قلمکار
آج کے معاشرے کو دیکھتے ہوئے نہایت ہی غور طلب تحریر👇😭
میں پیریڈ پڑھانے کے بعد اپنے کمرے داخل ہوا تو وہاں برقعے میں ملبوس ایک عورت کو اپنا منتظر پایا۔ پوچھنے پر اس نے مختصراً اپنا تعارف کرایا اور وقت ضائع کئے بغیر اس نے کہا؛ "میں آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ "
جی فرمائیے!
میں نے نہایت شائستگی سے کہا۔
میرے پاس وقت بہت کم ہے، وہ لوگ مجھے مار دینا چاہتے ہیں، اس نے اپنا ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔
کون لوگ آپ کو مار دینا چاہتے ہیں؟ میں نے نہایت نرمی سے پوچھا۔
اب اس کا وقت گزر چکا، وہ بہت جلد مجھ تک پہنچ جائیں گے، میں آپ کو کچھ اہم باتیں بتانا چاہتی ہوں،
براہ مہربانی ان باتوں کو غور سے سنیں اور اسے امانت سمجھ کر آگے بڑھا دیجئے گا۔
جی فرمائیے ! میں نے اُن سے کہا ۔۔۔
اس نے کہنا شروع کیا۔۔۔
یہ میری زندگی کی داستان ہے، میں نے صوم و صلوۃ کے پابند ایک خاندان میں آنکھ کھولی تھی، میری تربیت مکمل ایک مشرقی ماحول میں ہوئی، میٹرک کے امتحان
آج میں نماز فجر کے بعد واک پر تھا تو مجھے سعودی عرب کے ایک نمبر سے فون آیا اور ایک خاتون نے کہا کہ انکل بشیر میں خانہ کعبہ کے بالکل سامنے بیٹھی ہوں اور آپکے لیے دعا کر رہی ہوں ۔ میں نے خوشی سے کہا بیٹا شکریہ مگر آپ ہو کون ؟ جب اس بچی نے مجھے ایک
واقعہ یاد کروایا تو مجھے اپنی 4 سال پرانی Tuesday Stories یاد آ گٸیں ۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ریٹاٸرمنٹ کے بعد میں Syed Iqbal Haider Zaidi ڈی جی EOBI کے کہنے پر انکے Disability Pension System کو دیکھنے پر راضی ہوگیا کیونکہ اس میں بھی خلق خدا کی خدمت کا ایک پہلو نکلتا تھا ۔
میں ہر منگل کو یہ کام کرنے عوامی مرکز EOBI کے آفس جاتا تھا ۔ 24 جنوری 2017 بروز منگل EBOI عوامی مرکز کراچی کے دفتر میں فرسٹ فلور پر بیٹھا میں معذوری پینشن بورڈ کے پریزیڈنٹ کی حیثیت سے معذوروں کو چیک کر رہا تھا کہ دو بچیاں نقاب لگاٸے کالے عبایوں میں میرے آفس میں داخل ہوٸیں اور کہا
1. انکی والدہ ہر مہینے جناح ہسپتال کے سامنے کلینکس میں دل کی دوائیاں خرید کر رکھ دیتی ہیں کہ جو ضرورت مند آئے اُسے فری میں دے دیں۔ راشن والا کام ہمارے گھر میں اور دو لوگ کرتے ہیں۔ جنہوں نے تین سے چار لوگوں کے گھر کا خرچ اُٹھایا ہوا ہے
2. میں ایک کلرک ہوں۔ میری تنخواہ پچیس ہزار روپے ہے۔ میں ہر ماہ اپنی تنخواہ میں سے محلے کے قصاب سے چھ سو روپے کا آدھا کلو چھوٹا گوشت لے کر اپنے کسی عزیز رشتے دار کے گھر بھیج دیتا ہوں۔ یہ گوشت ہماری طرف سے صدقہ ہو جاتا ہے۔
3. میرا ایک چھوٹا سا کریانہ سٹور ہے۔ میں روزانہ پچاس روپے
کاروبار سے نکال کر گولک میں ڈال دیتا ہوں۔ میں ہر ماہ پندرہ سو روپے اپنے محلے کی ڈسپینسری میں دے آتا ہوں۔ وہاں معائنہ فیس پچاس روپے کے عوض مریضوں کو ادویات دی جاتی ہے۔ میری طرف سے ایک مہینے میں تیس مریضوں کا علاج ہو جاتا ہے۔