زندگی کرنے کے دو ہی راستے ہیں
پہلا نظام سے مصالحت کرکے یس سر ، یس میم کہتے کہتے خود سر یا میم بن جانے کا
دوسرا غیر درست نظام سے منہ موڑ کے، غلط کو غلط کہہ کے سوال کرتے ہوئے احمق، لاابالی، ان فٹ کہلاتے مگر انسان بنے رہنے کا
جس میں ہمت ہو وہ دوسری راہ چنتا ہے
وفا کریں گے، نباہیں گے، بات مانیں گے
تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا
ہر اک سے کہتے ہیں کیا داغؔ بےوفا نکلا
یہ پوچھے ان سے کوئی وہ غلام کس کا تھا
داغؔ دہلوی #NewProfilePic
تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا
رہا نہ دل میں وہ بیدرد اور درد رہا
مقیم کون ہوا ہے مقام کس کا تھا
نہ پوچھ گچھ تھی کسی کی وہاں نہ آؤ بھگت
تمہاری بزم میں کل اہتمام کس کا تھا
تمام بزم جسے سن کے رہ گئی مشتاق
کہو وہ تذکرۂ ناتمام کس کا تھا
+
وہ قتل کرکے ہر کسی سے پوچھتے ہیں
یہ کام کس نے کیا ہے یہ کام کس کا تھا
ہمارے خط کے تو پرزے کیے پڑھا بھی نہیں
سنا جو تو نے بدل وہ پیام کس کا تھا
اٹھائی کیوں نہ قیامت عدو کے کوچے میں
لحاظ آپکو وقتِ خرام کس کا تھا
گزرگیا وہ زمانہ کہوں تو کس سے کہوں
خیال دل کو مرے صبح وشام کسکا تھا
کیا آپ نے اس عورت کے بارے میں سنا جسے شکایت تھی کہ اسکے گھر کے پاس سے گزرنے والی ہر ٹرین اسکے بستر کو اسطرح سے جھنجوڑ دیتی ہے کہ اسکے لیے دو گھڑی کا سونا بھی محال ہوکر رہ گیا ہے
ناممکن!
عورت کی شکایت پر اسٹیٹ ایجنٹ کے منہ سے نکلا تھا
عورت نے اسی ایجنٹ کی
++
رہنمائی میں کچھ عرصہ قبل ریلوے لائن کے پاس مکان کرائے پر لیا تھا اب وہ بضد تھی کہ وہ سچ کہہ رہی ہے
اس نے ایجنٹ سے استدعا کی کہ وہ اسکے ساتھ گھر چل کر خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لے
جب وہ عورت کے گھر آیا تو اس نے اک چوہے دان دیکھا جس میں مچھلی کا اک ٹکڑا لگا تھا
اس نے اس بارے میں
++
دریافت کرنا چاہا مگر اس نے سنی ان سنی کردیا کہ وہ اس پر بعد میں بات کرے گی
کچھ ہی دیر میں ٹرین آنے والی ہے
میں چاہتی ہوں کہ تم بستر کی جھنجھناہٹ کا خود مشاہدہ کرو!
وہ دونوں بیڈ روم میں داخل ہوئے
ایجنٹ نے پھر کہا میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ گزرتی ٹرین سے آپکا بستر ہل کر رہ جاتا ہے
+
دیوانے جس کی خاک اُڑاتے ہیں رات دن
صحرا کی وہ زمیں ہو، غزل کی زمیں نہ ہو
اے جوشؔ کہہ رہا ہے کلامِ جنابِ داغؔ
وہ شاعری نہیں جو حیات آفریں نہ ہو
جوشؔ ملسیانی #NewProfilePic
ڈر ہے کہ پھر مرا دلِ مُضطر حزیں نہ ہو
اِس ہاں سے بھی مراد تمہاری نہیں نہ ہو
کیوں انتظارِ حشر ہو آپس کی بات پر؟
کیوں فیصلہ ہمارا تمہارا یہیں نہ ہو؟
کوئی چمن میں، کوئی بیاباں میں جا رہا
وہ کیا کرے کہ جس کا ٹھکانا کہیں نہ ہو؟
جوشؔ ملسیانی
وعدہ تمہارا اور یہ قسمیں بجا سہی
لیکن وہ کیا کرے جسے اب بھی یقیں نہ ہو؟
یا ربّ! کوئی اصولِ نوازش تو چاہیے
یہ کیا کہ تیرا فیض کہیں ہو، کہیں نہ ہو؟
رہنا پڑا ہے مہر بہ لب ہی تمام عمر
اِتنا بھی کوئی دردِ نہاں کا امیں نہ ہو
دیوانے کی جنت
میرا یہ خواب کہ تم میرےقریب آئی ہو
اپنےسائے سے جھجھکتی ہوئی گھبراتی ہوئی
اپنے احساس کی تحریک پہ شرماتی ہوئی
اپنے قدموں کی بھی آواز سے کتراتی ہوئی
اپنی سانسوں کے مہکتے ہوئے انداز لئے
اپنی خاموشی میں گہنائے ہوئے راز لئے
اپنے ہونٹوں پہ اک انجام کا آغاز لئے
وسیم بریلوی
دل کی دھڑکن کو بہت روکتی سمجھاتی ہوئی
اپنی پائل کی غزل خوانی پہ جھلّاتی ہوئی
نرم شانوں پہ جوانی کا نیا بار لئے
شوخ آنکھوں میں حجابات سے انکار لئے
تیز نبضوں میں ملاقات کے آثار لئے
کالے بالوں سے بکھرتی ہوئی چمپا کی مہک
سرخ عارض پہ دمکتے ہوئے شالوں کی چمک
وسیم بریلوی
دورِ ماضی کی بد انجام روایات لئے
نیچی نظریں وہی احساسِ ملاقات لئے
وہی ماحول، وہی تاروں بھری رات لئے
آج تم آئی ہو دہراتی ہوئی ماضی کو
میرا یہ خواب کہ تم میرے قریب آئی ہو
کاش اک خواب رہے ، تلخ حقیقت نہ بنے
یہ ملاقات بھی دیوانے کی جنت نہ بنے
اک ترقی پسند شاعر
شراب کے بے حد رسیا
فراق صاحب کے گھر پہنچے
پریشان صورت بناکر بولے
فراق صاحب! بات عزت پر آگئی ہے میں بہت پریشان ہوں کسی طرح 30 روپیہ ادھار دے دیجیے
فراق کچھ کہنے والے تھے کہ وہ بولے
دیکھیے انکار نہ کیجیے گا میری آبروخطرے میں ہے
فراق نے 30 روپے حوالے کردیئے
++
وہ روپیہ پاتے ہی فوراً رخصت ہوگئے
تھوڑی دیر کے بعد فراق کے گھر کے سامنے اک تانگہ سے وہی شاعر برآمد ہوئے
آتے بولے
آپ فورا اس تانگہ میں بیٹھ جائیے
ارے بھائی معاملہ کیا ہے
زیر لب بڑبڑاتے ہوئے فراق تانگہ میں بیٹھ گئے
تانگہ سیدھا اک شراب خانہ پر پہنچا
فراق گورکھپوری
++
جہاں فراق کی خاطر تواضع انہیں کے روپوں سے کی گئی
شراب کباب کے دور کے بعد انکو اسی تانگہ میں بٹھاکر واپس ان کے گھر پہنچادیا گیا
دوسرے دن فراق نے دوست سے بڑے مصیبت زدہ لہجے میں شکوہ کیا
میرے 30روپے گئے میں کس منہ سے اسکو مانگوں گا وہ سب اس نے میرے ہی اوپر خرچ کردیئے
جب منگول سپاہ نے بخارا کا محاصرہ کرلیا تو اہل شہر کو سپاہ سالار نے پیغام بھیجا
”جو ہمارا ساتھ دے اسے امان ہے“
اہل بخارا میں نفاق پیدا ہوگیا اک گروہ نے اصرار کیا کہ ہم شہر کے تحفظ کے لیے آخری سانس تک لڑیں گے
دوسرے گروہ نے بربادی کے خوف سے ہتھیار رکھنے کی صلاح دی
مورخ ابن اثیر
++
منگول سپاہ سالار نے مصالحت پسند گروہ کو پیغام بھیجا کہ اگر تم مزاحمت پر کمربستہ گروہ کو زیر کرنے میں ہاتھ بٹاؤ تو تمہیں اس شہر کی قیادت بخش دی جائے گی
چنانچہ خانہ جنگی شروع ہوگئی اور منگول اطمینان سے تماشا دیکھتے رہے
جب وفادار گروہ غالب آ گیا تو منگولوں نے اسے ہی سب سے پہلے غیر مسلح کرکے تلوار کی دھار پر رکھ لیا
سپاہ سالار نے کہا اگر یہ لوگ اک اجنبی کے بھروسے پر اپنے ہی بھائیوں کا گلا کاٹ سکتے ہیں تو پھر یہ کسی کے بھی کام کے نہیں