مشہور عرب مفکر اور داعی ڈاکٹر علی طنطاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
وہ کابل میں تھے کہ وزارت خارجہ کی طرف سے حکم ہوا کہ فوری طور پر ایک ضروری کام سے روس چلے جائیں.
وہ تیار ہوئے لیکن یہ پریشانی لاحق ہوئی کہ غیر مسلم ملک ہے👇🏻
وہاں ان کا ذبیحہ مجھ سے تو نہیں کھایا جائے گا گھر میں دو دیسی مرغیاں تھی بیگم نے ذبح کراکے زاد سفر میں یہ کہتے رکھ دیا کہ جب تک ان سے کام چلتا ہے چلانا آگے کا اللہ پاک بندوبست کرے گا.
وہ کہتے ہیں میں تاشقند پہنچا ہی تھا کہ وہاں کے ایک مسلمان شیخ نے گھر دعوت کی،👇🏻
میں ان کے گھر جانے کے لئے نکلا تھا کہ راستے میں ایک غریب عورت بھوک سے نڈھال اپنے بچوں کے ساتھ سڑک کنارے کھڑی تھی،میں نے بے اختیار وہ دونوں مرغیاں انہیں پکڑا دی.
ابھی ایک گھنٹہ نہیں گزرا تھا کہ کابل سے تار آئی کہ وہ کام جس کے لئے آپ کو بھیجا تھا وہ ہوگیا👇🏻
آپ واپسی کی فلائیٹ پکڑ لیں.
شیخ صادق مجیدی کہتے ہیں اس سفر کا مجھے کوئی اور مقصد سمجھ نہیں آیا سوائے اس بات کے میرےگھر دو مرغیاں تھیں جو4 ہزار کلومیٹر دور کسی غریب ماں اور بچوں کا رزق تھی اللہ تعالی نے مجھے اس کام کے لئے افغانستان سے تاشقند بھیج دیا کہ چل اس غریب ماں اور اس کے👇🏻
بھوکے بچوں کو یہ رزق پہنچا آ .
یاد رکھیں آپ کے نصیب کا لقمہ زمین کے جس حصے میں بھی ہوگا اللہ تعالی آپ تک پہنچائے گا.
_سب ایک بار درودشریف پڑھ لیں_
_ایک بار درودشریف پڑھنے سے_
_ﷲ تعالیٰ دس مرتبہ رحمت فرماتے ہے_
سبحان اللہ جزاک اللہ خیر
منقول
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
قصور
تحصیل پتوکی کے نواحی قصبہ حبیب آباد کے گاؤں تھڑہ کا 1976 سے قائم شد دو کمروں پر مشتمل 300 بچوں کی تعداد والا سکول PEF کی طرف سے اساتذہ کو کئی ماہ سے تنخواہیں نا دینے پر بند کر دیا گیا،گورنمنٹ خواب خرگوش کے مزے لینے میں مصروف،بچوں کا مستقبل تاریک،لوگوں کی وزیراعلی👇🏻
پنجاب سے نوٹس کی اپیل
تفصیلات کے مطابق قصور میں نظام تعلیم کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں
تحصیل پتوکی کے نواحی قصبہ حبیب آباد کے گاؤں تھڑہ میں 1976 میں عارضی بلڈنگ بنا کر پرائمری سکول قائم کیا گیا جس کی بلڈنگ 1993 میں محض دو کمروں پر مشتمل تعمیر کی گئی👇🏻
اس سکول میں 300 بچے زیر تعلیم ہیں اور کل عملہ 5 افراد پر مشتمل ہے
اس سکول کو 15_3_2017 کو PEF کے انڈر رجسٹریشن نمبر 35130153 کیا گیا
لوگوں نے بارہا گورنمنٹ کو سکول کی زبو حالی اور اساتذہ کو تنخواہیں نا ملنے بارے درخواستیں دیں مگر بے سود رہا👇🏻
ایمان افروز واقعہ
ایک بزنس مین نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص اس سے کہہ رہا ہے کہ: تمہاری کمپنی کے مین گیٹ کے سامنے جو پھل بیچتا ہے اس کو عمرہ کرا دو۔!!
نیند سے بیدار ہوا تو اسے خواب اچھی طرح یاد تھا، مگر اس نے وہم جانا اور خواب کو نظر انداز کردیا۔!!👇🏻
تین دن مسلسل ایک ہی خواب نظر آنے کے بعد وہ شخص امام کے پاس گیا اور اپنا خواب بیان کیا امام صاحب نے کہا۔!!
'' اس شخص سے رابطہ کرو اور اسے عمرہ کروا دو''اگلے روز بزنس مین نے ایک ملازم سے اس پھل فروش کا نمبر معلوم کرنے کو کہا۔۔!!!!بزنس مین نے فون پر اس پھل فروش سے رابطہ کیا👇🏻
اور کہا کہ:'' مجھے خواب میں کہا گیا ہے کہ میں تمہیں عمرہ کرواؤں۔ لہٰذا میں اس نیک کام کی تکمیل کرنا چاہتا ہوں، پھل فروش زور سے ہنسا اور کہنے لگا:'' کیا بات کرتے ہو بھائی.؟
میں نے تو مدت ہوئی کبھی فرض نماز ادا نہیں کی اور تم کہتے ہو کہ تم مجھے عمرہ کروانا چاہتے ہو..👇🏻
ایک اُبلا انڈا کتنے کا ہے؟” گاڑی روک کر خاتون نے بوڑھے غریب سے پوچھا ۔
15روپے کا ایک بیٹی ۔۔۔ بزرگ نے سردی سے ٹھٹھرتی آواز میں کہا۔
50 کے 4 دیتے ہو تو بولو۔ خاتون بولی۔
لے لو بیٹی بزرگ نے یہ سوچ کر کہا کہ کوئی گاہک تو ملا۔👇🏻
اگلے دن خاتون اپنے بچوں کو لے کر ایک مہنگے ریسٹورنٹ گئی اور سب بچوں کا من پسند کھانا آرڈر کیا، کھانا کھانے کے بعد جب بل 1900 روپے آیا تو پرس سے 2000 روپے نکال کر دیئے اور “Keep the Change” کہہ کر چلی گئی۔
تو گویا اِس خاتون نے فتح اِس میں سمجھی جس بوڑھے بزرگ👇🏻
انڈے بیچنے والے کو زیادہ پیسے دینے چاہئیے تھے تو اس کا حق مار لیا، اور جو پہلے ہی بڑے ناموں کے ریسٹورنٹ بنا کر عوام کو لوٹ رہے ہیں اُن کو 100 روپے زیادہ دے دیئے۔
کبھی اِن غریبوں سے یہ سوچ کر ہی خریداری کر لیا کریں شائد ہم کسی کی مدد کا سبب بن جائیں۔👇🏻
تنہائی میں انٹرنیٹ کا غلط استعمال کرنے والوں کے لیے رہنما تحریر۔
ڈاکٹر نے مجھے بلڈ ٹیسٹ کی رپورٹس بتائیں تو مجھے دھچکا لگا۔ جس کا خدشہ تھا وہی ہوا۔ مجھے لاسٹ سٹیج کا کینسر تھا۔
گھر آتے آتے میں سوچتا رہا۔ بیوی کو کیسے بتاوں گا۔ بچوں کو کیا کہوں گا۔ گھر پہنچ کر میں نے سیف میں👇🏻
سب رپورٹس چھپا دیں۔ بیوی پوچھتی رہی میں نے کچھ بتا کہ کر نہ دیا۔ سب نارمل ہے کہ ٹال دیا۔
رات کھانے کے بعد واک کرنے نکلا تو دل بند سا ہونے لگا۔ کس کا دل کرتا ہو گا یہ چمکتی دمکتی روشنیاں یہ چہل پہل یہ ہنسی قہقہے چھوڑ کر جانے کا۔ پیاری بیوی پیارے پیارے بچے چھوڑ کر کیسے جاوں گا۔👇🏻
ایک لمبی پتلی سی اندھیری قبر میں کیسے رہوں گا۔
میں چلتا رہا اور سوچتا رہا حتی کہ قبرستان آ گیا۔ قبروں کے کتبے جیسے مجھے بلانے لگے۔ میں بیچ کے اونچے نیچے راستے پر چلنے لگا۔ قبریں خاموش تھیں لیکن کیا ان کے اندر واقعی خاموشی تھی؟
ایسا سناٹا پہلے دیکھا ہوتا تو خوف سے میری جان👇🏻
عبداللہ 👈جیل وارڈن
31 اکتوبر 1929ء کو جب غازی علم الدین شہید کو پھانسی ہونا تھی، اس سے ایک روز پہلے میں حسب معمول غازیؒ کی کوٹھڑی کا پہرہ دے رہا تھا۔ پیدل چلتے ہوئے میں کوٹھری سے ذرا فاصلے پر عام قیدیوں کی بیرک کی طرف آ گیا۔ مڑ کر کیا دیکھتا ہوں کہ غازی کا کمرہ خوبصورت👇🏻
اور دلکش روشنیوں سے بھر گیا ہے۔ میں یہ سمجھا کہ شاید غازی علم الدین شہیدؒ نے اپنے کمرے کو آگ لگا لی ہے۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ نور کا ایک بادل ہے جو تیزی سے آسمانوں کی طرف چلا گیا۔ چنانچہ میں بھاگم بھاگ غازیؒ کی کوٹھری کی طرف بھاگا۔ اندر گیا تو کیا دیکھتا ہوں👇🏻
کہ پورا کمرہ بہترین اور مسحور کن خوشبوئوں سے معطر اور منور تھا۔ غازیؒ حالت سجدہ میں زار و قطار رو رہے تھے۔
تھوڑی دیر بعد اٹھے تو میں نے ان کی قدم بوسی کی اور خود بھی بے اختیار رونا شروع کر دیا۔ پھر میں نے عرض کیا، غازی صاحب یہ کیا ماجرا تھا؟ غازی صاحب نے کوئی جواب نہ دیا۔👇🏻