آپ کسی اک پوائنٹ پر نہ رہنے کی اتنی عادی ہیں کہ اپ بلاک پر بھی قائم نہیں رہتیں
بہرحال میری طرف اس پہلے اور تاحیات بلآک کو ہر جگہ سے اپنے لیے مکمل بلاک سمجھئیے گا
میں رشتہ کسی سے نہیں بناتی دوست بناتی ہوں
اپ سے دل سے رشتہ بنایا اور فیملی سمجھا تھا
اپنی لائف کے چار سال اپکو دیئے
چار سال کی دوستی کو اپ نے ان لوگوں کے لیے لات مار دی جن کو اپ شائد پرسنلی جآنتی تک نہی تھیں
یہ آپ کی عادت ہے مخلص لوگوں کو لات مار کر پرے کرنے کی
مگر میں نہ عدیلہ ہوں نا بٹ صاحب جو لات کھا کر خاموشی سے لحاظ کرجآؤں
میں لحاظ مروت کا یک طرفہ بوجھ ہرگز نہیں اٹھاونگی
آپ کے مجھ پر بیشمآر آحسآنات ہیں جو میں کبھی نہ بھلا پاؤنگی
بہت کچھ بہترین آپ سے سیکھا بھی
مگر ہر آنسان میں خامیاں بھی ہوتیں اور آپکی خامیاں آپکا منافق ہونا ہے
آپکا انتہائی امیچؤر ہونا ہے
آپکو بلاک کرنے کی واحد وجہ پہ ہےکہ اب میں نہ مستانی ہوں نہ چلغوزہ
اب میں اپکےلیے مس لبرا ہوں
اب میں اپکے لیے مس لبرا ہوں اور آپ اک رینڈم خآتون
اور میں نہیں چاہتی کہ کوئی ایسا ٹئوئٹر پر موقع آئے کہ مجھے مس لبرا بن کر آپ سے بآت یا کوئی جواب دینا پڑے
جس کی آپ یقینا عادی نہیں ہیں
میری طرف سے نیک خواہشات
اور اک بہترین ذندگی کی دعا کے ساتھ
اللہ حافظ
ہم نکالیں گے سن اے موج ہوا بل تیرا
اس کی زلفوں کے اگر بال پریشاں ہوں گے
عمر تو ساری کٹی عشق بتاں مومن
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
مومن خان مومن #NewProfilePic
دفن جب خاک میں ہم سوختہ ساماں ہوں گئے
فلس ماہی کے گل شمع شبستان ہوں گئے
ناوک انداز جدھر دیدہ جاناں ہوں گئے
نیم بسمل کئی ہوں گئے کئی بے جاں ہوں گئے
تاب نظارہ نہیں آئنہ کیا دیکھنے دوں
اور بن جائیں گئے تصویر جو حیراں ہوں گئے
مومن خان مومن
تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانا کر لے
ہم تو کل خواب عدم میں شب ہجراں ہوں گئے
ناصحا دل میں تو اتنا تو سمجھ اپنے کہ ہم
لاکھ ناداں ہوئے کیا تجھ سے بھی ناداں ہوں گے
کرے زخمی مجھے نادم ہو یہ ممکن ہی نہیں
گر وہ ہوں گے بھی تو بے وقت پشیماں ہوں گے
کابل میں ہوئی دہشت گردی سے متعلق جان کرگیارہ سالہ بیٹے نے مجھ سے سوال کیا " دہشت گرد بالآخر پیدا ہی کیوں کیے گئے ؟"
بچے کے اس سوال سے یہ تو واضح ہوگیا کہ بچوں تک کوعلم ہو چکا ہے کہ دہشت گرد بنتے نہیں بلکہ بنائے جاتے ہیں ہاں البتہ بیرون ملک میں بڑے ہوئے اس بچے
بیرون ملک میں بڑے ہوئے اس بچے کو یقینا" یہ معلوم نہیں کہ پاکستان جیسے ملک میں اب مزید دہشت گرد پیدا کیے جانے کی ضرورت نہیں رہی ہے کیونکہ لوگ انفرادی طورپردہشت گردی کا مرتکب ہونے والوں کو بھی سر آنکھوں پہ بٹھا لیتے ہیں
چاہے وہ گورنر کو سفاکانہ طور پر قتل کرنے والا اس کا محافظ ہو
جسے قانون نے بطور مجرم سزائے موت سناکے تختہ دار پہ چڑھادیا ہو
یا اک چھوٹے شہر میں مذہب بارے بےعلم بینک گارڈ جس نے بینک مینیجر کو یہ کہنے پر موت کے گھاٹ اتار دیا کہ پیغمبر بھی اللہ کے محتاج ہوتے ہیں
یاحال ہی میں اک کالعدم تنظیم کےکارکن جنھوں نے کئی پولیس والوں کو بہیمانہ قتل کیا
میں بچپن سے اب تک جنگ اتوار میں ضرورت رشتہ کے اشتہارات لازمی دیکھتی ہوں
مجھے نہ اشتہار کے ذریعے بیاہ کرنا تھا/ نا ہے مگرحالات کا ضرور پتہ لگتا
29 اکتوبر کے اخبار میں شائع شدہ یہ اشتہار دیکھ لیجیے
عمر 35 سال، انٹر، اردو سپیکنگ،آئل فیلڈ میں نچلے درجے کی ملازمت
شادی شدہ #society
🔽
شادی شدہ، بیوی 2 بچے ساتھ، آسٹریلیا، ترکی یا پاکستان میں اچھی ملازمت کے حصول کے لیے دوسری شادی کا خواہشمند ہوں
ترجیح معذور کسی بھی قسم کی، یا بیوہ وغیرہ، حقائق پر یقین رکھنے والے رابطہ کریں معرفت روزنامہ جنگ بکس نمبر
کیا معاشرتیات کی اک پوری کتاب نہیں لکھی جاسکتی اس پر؟
🔽
آئیے اس اشتہار کا تجزیہ کرتے ہیں
شروع میں ہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ اشتہار جھوٹ بھی ہوسکتا سچ بھی
اگر جھوٹ ہے تو کسی سادہ لوح خوشحال معذور بیوہ وغیرہ کو پھانسنے کے لیے ہوگا
گر سچا اشتہار ہے تو یہ امید کی بجائے ناامیدی مایوسی کا اشتہار ہے
جب تک نوجوانوں کوخود بر چننے کی آزادی
🔽
ابھی سے اپنا دل تھامے ہوئے کیوں لوگ بیٹھے ہیں
ابھی تو حشر اٹھنے کو تری محفل میں باقی ہے
ابھی سے تونے قاتل میان میں تلوار کیوں رکھ لی
ابھی تو جان تھوڑی سی تن بسملؔ میں باقی ہے
بسمل الہ آبادی #NewProfilePic
یہ کیسی آگ ابھی اے شمع تیرے دل میں باقی ہے
کوئی پروانہ جل مرنے کو کیا محفل میں باقی ہے
ہزاروں اٹھ گئے دنیا سے اپنی جان دے دے کر
مگر اک بھیڑ پھر بھی کوچۂ قاتل میں باقی ہے
ہوئے وہ مطمئن کیوں صرف میرے دم نکلنے پر
ابھی تو اک دنیائے تمنا دل میں باقی ہے
بسمل الہ آبادی
🔽
🔼
ہوا تھا غرق بحر عشق اس انداز سے کوئی
کہ نقشہ ڈوبنے کا دیدۂ ساحل میں باقی ہے
کہاں فرصت ہجوم رنج و غم سے ہم جو یہ جانچیں
کہ نکلی کیا تمنا کیا تمنا دل میں باقی ہے
وہاں تھے جمع جتنے مرنے والے مر گئے وہ سب
قضا لے دے کے بس اب کوچۂ قاتل میں باقی ہے
آج کے دن عصمت چغتائی کو مرنے کے بعد جلا دیا گیا تھا کیونکہ عصمت نے اس عمل کی خواہش اور وصیت کی تھی
عصمت چغتائی کے اس روئیے کو ترقی پسند گروہ رسومات سے بھرے معاشرے کے خلاف کا نام دیتا ہے باوجود اس کے کہ عصمت چغتائی کا ناول کوئی ترقی پسند اپنی بیٹی کو پڑھنے کے لئے نہیں دے سکتا
🔽
🔼
جہاں تک اس معاشرے سے بغاوت کی بات ہے تو یہ معاشرہ ادیبوں ترقی پسند شاعروں کا ہی بنایا ہُوا ہے
عصمت کو انکی وصیت کے مطابق اک شمشان بھومی میں نذر آتش کیا گیا
جب یہ خبر چھپی تو خود ترقی پسند مسلمان ادیب شاعر حیرت زدہ رہ گئے
عصمت اپنے مخصوص اسلوب باغیانہ خیالات اور حقیقت نگاری
🔽
🔽
کیوجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی رہی ہیں
انہوں نے مرد کی برتری کو کبھی نہیں مانا
عصمت اترپردیش کے شہر بدایوں میں 21اگست 1915 کو پیدا ہوئیں
ممبئی میں 24 اکتوبر 1991 کو انتقال ہوا
1976 میں پدم بھوشن سے نوازا گیا
پرورش جودھپور میں ہوئی
جہاں انکے والد مرزا قسیم بیگ سول ملازم تھے