ایک بچہ پرائمری سکول لائف میں پڑھائ سے جی چرا چرا کر والدین کو پریشان کرتا رہتا ہے۔ پھر ایلیمنٹری اور سیکنڈری سکول لائف میں تھوڑا سنبھل کر پڑھتا ہے تو کاروباری باپ اس کو مستقبل میں اپنے بزنس ایمپائر کا شہنشاہ بنانے کے لیے
کاروباری تعلیم دلوانے انگلستان بھیجتا ہے مگر انگلستان پہنچ کر اس من موجی لڑکے کو جو حقیقی معنوں میں من کا راجہ تھا اور جسے مستقبل میں کروڑوں دلوں پر راج کرنا تھا کو خوبئ قسمت سے ایسے دوست مل جاتے ہیں جو اسے بار بار برطانوی پارلیمنٹ کی سیر کرانے لے جاتے ہیں ۔
پھر برطانوی پارلیمنٹ میں قانون ساز پارلیمینٹیرینز کے باوقار انداز نشست و گفتار کو دیکھ کر ایسا متاثر ہو جاتا ہے کہ کاروباری تعلیم کو خیر باد کہ کر قانونی تعلیم کے حصول کی راہ پر نکل جاتا ہے پھر وہ لڑکا انگلستان سے ساہوکار محمد علی کی بجائے بیریسٹر محمد علی جناح بن کر واپس آتا ہے۔
پھر وہی من کا راجہ محمد علی جناح برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں کے دلوں پر راج کرتا کرتا قائد اعظم محمد علی جناح بن جاتا ہے۔
ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح
ملت کا جسم و جاں ہے محمد علی جناح
یہ ہوتا ہے ماحول کا اثر ۔ آج ہمارے بچے بھی پڑھائی سے جی چراتے ہیں تو اس میں بچوں سے زیادہ
والدین کی غلط ترجیحات ،اساتذہ کے ناقص انداز تدریس اور صحتمند ماحول کے فقدان کو زیادہ دخل ہوتا ہے۔ جناب قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی سے والدین اور اساتذہ کو خصوصی طور پر سبق لینے کی ضرورت ہے۔ میں بحیثیت معلم تاریخ ساز شخصیات کی زندگیوں کے اسی پہلو کو زیادہ دیکھتا ہوں۔
آج ہمارے معاشرے میں بھی سینکڑوں ذھین و فطین محمد علی والدین کی غلط ترجیحات ، سکولوں میں اساتذہ کے ناقص انداز تدریس اور مؤثر تربیتی ماحول نہ ملنے کے سبب جناح بننے سے قاصر ہیں۔ ہمارے آج کل کے تعلیمی اداروں اور اساتذہ پر شاعر کا یہ شعر صادق آتا ہے:
میراث میں ملی ہے ان کو مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کا نشیمن
قائداعظم محمدعلی جناح خالصتا جمہوری اور سیکولر سوچ کے حامل ایک لبرل سیاسی رہنما تھے۔ جناب محمد علی جناح کے نزدیک پاکستان کے حصول کا مقصد مسلمانان برصغیر کو مساوات پر مبنی معاشی نظام سے مستفید کرانا تھا۔ انکا مطمع نظر سٹیریو ٹائپ(stereotype) کا
کوئی مسلمان معاشرہ بنانا نہیں تھا۔ انہوں نے ایک بڑے جلسہ عام میں نواب حبیب الرحمٰن خان شیروانی بمعروف نواب صدریار بہادر یار جنگ سے جلسے کے تمام حاضرین کے سامنے وعدہ کیا تھا کہ پاکستان کا معاشی نظام سوشلزم ہو گا۔ واضح رہے کہ یہ وہی صدر یار بہادر یار جنگ تھے جنہوں نے اللہ سے اپنی
بقایا عمر قائد اعظم محمد علی جناح کو بخشنے کی دعا کی تھی۔ بابائے قوم محمد علی جناح کے ساتھ سب سے بڑا ظلم یہ ہوا ہے کہ آپ جیسی ایک لبرل اور سیکولر شخصیت کو ایک روحانی و خوابی شخصیت بنا دیا گیا ہے۔ جو شخصیت خود کسی تقدس کی قائل نہیں تھی اسے تقدس کا ایک ایسا لباس پہنا دیا گیا ہے کہ
اس لباس میں ہمیں لبرل ،سیکولر اور روشن خیال مسٹر محمد علی جناح کی جگہ غوث زمان،قطب عالم ،حضرت مخدوم محمد علی جناح نظر آتا ہے۔
پھر محمد علی جناح کی بنائی ہوئی مملکت کا جو حشر ہماری قوم نے کیا ہے وہ ایک الگ ہوش ربا داستان ہے۔دساتیر سے پالیسیوں تک میں ہم نے جو ڈنڈیاں ماری ہیں وہ
محمدعلی جناح کی روح کو اذیت رسانی کی ایک طویل داستان ہے۔ قائد کے فرمان "اتحاد ،ایمان اور تنظیم" کو ہم نے فرقہ واریت، کرپشن اور انتشار میں بدل کر رکھ دیا جبکہ انکی نصیحت "کام،کام اور صرف کام"کو ہماری چھٹیوں کی دلدادہ کام چور قوم نے چھٹی،چھٹی اور صرف چھٹی" میں بدل کے رکھ دیا ہے۔
آخر میں میں بابائے قوم کی ولادت باسعادت کے اس پر مسرت موقع پر پوری قوم کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ ہمیں پاکستان کو قائد اعظم کی امنگوں کا پاکستان بنانے کی ہمت اور توفیق دے۔ آمین۔
کہتے ہیں اللہ تعالیٰ ہر انسان سے اس کی توفیق اور اہلیت کے مطابق ہی امتحان لیتا ہے
قائداعظم کوئی مولوی نہیں تھے، وہ انگریزی زبان بولنے والے، انگریزی سوٹ پہننے والے، سگار پینے والے شخص تھے مگر ان سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام کا کام لیا گیا کیونکہ اللہ کی ذات جانتی تھی کہ
اگر پاکستان بنانے کی اہلیت کسی میں ہے تو وہ صرف اور صرف قائداعظم محمد علی جناح میں ہی ہے
اسی طرح تاریخ کا ایک واقعہ ہے کہ سلطان نورالدین زنگی کے خواب میں آ کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دو لوگوں کی طرف اشارہ کیا کہ یہ دو لوگ مجھے ستا رہے ہیں اور نورالدین زنگی نے
ان دو اجنبی لوگوں کو پکڑنے کا پلان بنایا اور جب وہ دو لوگ گرفتار ہوئے تو معلوم ہوا کہ وہ روضہِ انور کی طرف ایک سرنگ کھود رہے تھے۔ اس قدر بھیانک پلان جب سامنے آیا تو نورالدین زنگی نے ان دونوں بدبختوں کے سر قلم کر دیے
پراسرار رنی کوٹ دنیا کا سب سے بڑا قلعہ ہے۔
اسے #دیوارِسندھ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اسے کس نے اسے تعمیر کیا اور مقصد کیا تھا؟ ان سوالات کے جوابات ہم سب کو چکرا دیتے ہیں۔ #RanikotFort #TheGreatWall of #Sindh) #قلمکار
مصنف ازوبیل شا تحریر کرتی ہیں "قلعہ رنی کوٹ کا حجم تمام وجوہات کی تردید کرتا ہے، یہ ایسی جگہ کے درمیان ہے جہاں کچھ نہیں. پھر یہاں یہ کس چیز کے دفاع کے لیے تعمیر کیا گیا؟"
26کلومیٹر پر پھیلا یہ قلعہ ہے مگر اس کے باوجود حکام یہاں سیاحت کو فروغ دینے میں ناکام رہے ہیں.
کراچی سے اس قلعے تک رسائی نہایت آسان ہے اور قومی شاہراہ کے ذریعے یہاں پہنچا جا سکتا ہے. کراچی سے نکلنے کے بعد دادو کی جانب انڈس ہائی وے پر سفر کریں۔ اس سڑک کی حالت بہترین ہے اور سندھی قوم پرست جی ایم سید کے آبائی قصبے سن تک ایک گھنٹے کا سفر ہے۔ اس قصبے سے کچھ آگے دوراہا آتا ہے
پاکستان کے بہت بڑے عوامی لیڈر اور تین مرتبہ کے منتخب وزیراعظم جو گوالمنڈی لاہور کے ایک چھوٹے سے تنگ و تاریک مکان میں پلے بڑھے جب جمہوریت کی خدمت کرنے کے ارادے سے سیاست میں آئے تو کمال ہی کردیا۔ ان کے ہاتھ اللّٰہ کے فضل و کرم سے بالکل صاف ہیں اور انہوں نے عوام کی خدمت کا
جو معاوضہ وصول کیا ہے اس کی ایک جھلک دیکھنے کو ملی تو شئر کر رہا ہوں اگر کوئی اعتراض ہو تو نیچے دیے گئے پتہ پر نوٹس بھیجا جا سکتا ہے
Please know this also
*نوازشریف پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت سے کیسے مالا مال ہوا شروع سے آخر تک پڑھیں*
نواز صاحب کو کیوں نکالا۔
یہ تمام تفصیل گوگل، لائیکوز، یاہو، وکی لیکس اور وسل بلوئر پر تصدیق کی گئیں ھیں اور جناب مشتاق احمد جو فرانسیسی نژاد ھیں نے پاکستانیوں کے لیے محنت کر کے مرتب کی ھیں۔
رپورٹ درج زیل ھے
پاکستانیو ذرا دیکھ لو آپ کتنے مالدار ہو ذرا دو منٹ لگا کر اپنی دولت کا حساب کر لو۔
"دسمبر او دسمبر... اٹھ جا نکمے دیکھ سات بج گئے ہیں اور ابھی تک تیری صبح بھی نہیں ہوئی اور 5 بجتے ہی تیری رات شروع ہو جاتی ہے، نہ خود کچھ کرتے ہو نہ کسی اور کو کرنے دیتے ہو،، نکمے، کام چور، ہڈ حرام. مئی جون کو دیکھو صبح 4 بجے ہی اٹھ جاتے ہیں، سارا دن کام کرتے ہیں پسینہ بہاتے ہیں
ایک تم ہو مفلر لپیٹ کر اور شال اوڑھے پورا مہنہ گزار دیتے ہو...
جرسیوں کوٹوں کا خرچہ الگ سے کرواتے ہو...ایک جون ہے جو پورا مہینہ نیکر اور بنیان میں گزار دیتا ہے...
ایسا کب تک چلے گا یار، گھر میں دو جوان بہنیں جنوری اور فروری بیٹھی ہیں، انکے ہاتھ پیلے کرنے ہیں..
کچھ تو خیال کرو...
اس بے تکی عاشقی کو چھوڑو اور کسی کام پر لگ جاو... بہنوں کی عمریں نکلی جا رہی ہیں... جنوری تو اکتیس کی ہو چکی ہے، اب تو اسکے بالوں میں بھی چاندی نظر آنے لگ گئی ہے، خیر سے فروری بھی اٹھائیس کی ہو گئی ہے...
تمہیں اپنا نہیں تو بہنوں کا ہی خیال ہونا چاہئے... آخر کب تک
جب ایک خاتون امام مہدی کے پیچھے کراچی کے عوام نے جمعے کی نماز پڑھی ۔
وہ سرکاری مہمان بھی تھیں ( 1970 کا ایک تاریخی واقعہ)
(زہرا فونا امام مهدی کی امی جان )
یہ سن 70 کی بات ہے کہ جب انڈونیشیا میں صدر سوہارتو کی حکومت تھی اور پاکستان میں جنرل یحیٰی خان کا مارشل لاء تھا ،
انڈونیشیا کی ایک خاتون "زہرہ فونا" نے حضرت مہدی ؑ کی والدہ ہونے کا دعویٰ کر دیا۔
اس کا کہنا تھا کہ اس کے رحم میں پرورش پانے والا بچہ حضرت مہدیؑ ہے
پھر یوں ہوا کہ
وہ لوگوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو گئی کیونکہ اسکے پیٹ سے کان لگا کر سننے پر اذان اور تلاوت قران کی آواز آتی تھی
اور پھر کچھ یوں ہوا کہ
یہ خبر پورے انڈونیشیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔
جب یہ خبر انڈونیشی حکام تک پہنچی تو سب سے پہلے انڈونیشیا کے اس وقت کے نائب صدر آدم مالک نے زھرا فونا کو اپنی رہائش گاہ پر مدعو کیا اور دوران ملاقات اس کے پیٹ پر کان لگا کر اذان سننے کا شرف حاصل کیا...
انڈیا کے سی ڈی ایس ہیلی کاپٹر کریش میں انتقال کر گئے ۔۔۔۔۔ ان کے انتقال کے چھ گھنٹے بعد سرکاری طور پر اس کا اعلان کیا گیا۔
لیکن ان چھ گھنٹوں میں کسی بھارتی چینل نے گلا پھاڑ پھاڑ کر یہ نہیں کہا کہ سب سے پہلے ہمارا چینل آپ کو یہ خبر دے رہا ہے کہ جنرل کا انتقال ہو گیا ہے۔
کسی چینل پر رپورٹر اور کیمرہ مین بھاگ کر اس ہسپتال نہیں گئے جہاں گیٹ کے باہر کھڑے ہو کر وہ یہ بتاتے کہ اندر جنرل کا انتقال ہو چکا ہے لیکن حکومت اس خبر کو چھپا رہی ہے۔
حتٰی کہ کسی چینل نے تیسرے درجے کے تجزیہ نگار بٹھا کر یہ نہیں بتایا کہ جنرل کے فلاں فلاں جنرلز/ سیاستدان کے ساتھ
اختلافات تھے (جو کچھ کہ حقیقت میں تھے) اس لیے اس واقعے میں فلاں فلاں پر انگلیاں اٹھ سکتی ہیں۔
کسی سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے دانشوروں نے یہ واویلا نہیں کیا کہ جو فوج اپنے جنرل کے ہیلی کاپٹر کی دیکھ بھال/ حفاظت نہیں کر سکتی، وہ کیا لڑے گی؟
اگر آپ کا خیال ہے کہ وہاں چینلز، صحافی اور