ٹیڑھا مینار، پیسا (Leaning Tower, Pisa) (1173-1370)
اٹلی کی پہچان
183 فیٹ بلند پیسا (اٹلی) کا جھکا ھوا ٹاور دنیاکی مشہور عمارتوں میں سےایک جس کی بلند سائیڈ 56.67 میٹر، چھوٹی سائیڈ 55.86 میٹر، 251سیڑھیاں اور وزن 14,500ٹن ھے۔
رومن طرزتعمیر پر مبنی پیسا کا ٹیڑھا مینار جس کے #History
آرکیٹیکٹ بونینو پسانو (Bonanno Pisano)، Gherardo di Gherardo, Giovanni Pisano, Giovanni di Simone تھے، دراصل ایک کیتھولک چرچ ھے۔
1173ء میں، پیسا میں کیتھیڈرل کمپلیکس کے لیے سفید سنگ مرمر کے گھنٹی ٹاور پر اسکی تعمیر شروع ھوئی، جو وسطی اٹلی کے شہر ٹسکنی (Tuscany) میں آرنو (Arno)
اور سرچیو (Serchio) دریاؤں کے درمیان واقع ھے۔
پانچ سال بعد پلان کے مطابق معماروں نے 8 منازل میں سے 3 تعمیر کر لیں تو ٹاور کی بنیاد مٹی، ریت اور گولوں کی وجہ سے نیچے کی زمین غیر مساوی ھونا شروع ھو گئی۔ نتیجتاً، ڈھانچہ بظاہر جنوب کی طرف جھکنا شروع ھو گیا۔ اس کے فوراً بعد، پیسا اور
جینوا کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔
تقریباً ایک صدی تک تعمیراتی کام رک گیا۔ اس تاخیر نے فاؤنڈیشن کو مزید مستحکم کرنے کی اجازت دی۔
جب تعمیردوبارہ شروع ھوئی، چیف انجینئر جیوانی ڈی سیمون نےشارٹ سائیڈ میں اضافی چنائی شامل کرکےبیلنس کرنےکی کوشش کی، لیکن اضافی وزن کی وجہ سےڈھانچہ مزیدجھک گیا۔
یہ ٹاور باضابطہ طور پر 1370 کو مکمل ھوا۔
اگلی چھ صدیوں میں اس کا جھکاؤ صرف بڑھتا ہی گیا۔
اسے مضبوط بنانے کی مختلف کوششوں کے باوجود، پیسا کا ٹاور ہر سال تقریباً 0.05 انچ کی شرح سے نیچے آتا رہا، جس سے اسے گرنے کا خطرہ بڑھتا گیا۔ 1990 تک یہ کھڑا سے 5.5 ڈگری (یا کچھ 15 فٹ)جھک رہا تھا
جو اب تک کاسب سےانتہائی زاویہ ھے۔ اس سال اسےسیاحوں کیلیےبند کردیا گیا۔
جدیدسائنسی کوششوں سے ٹاور کو مزید سیدھا کرنے میں معماراور انجینیئرز خاصی حد تک کامیاب بھی ھوئے ہیں۔
2001 میں ٹاور کے دوبارہ کھلنے کے بعد سیدھاھوناجاری رہا، اور2008 میں سینسرز نےظاہر کیاکہ 19انچ کی مجموعی بہتری
کے بعد، سبسائڈنگ موشن رک گئی ھے۔ انجینئرز اب یقین رکھتے ہیں کہ پیسا کا جھکاؤ والا ٹاور تقریباً 200 سال تک مستحکم رھے گا، سوائے زلزلے یا دیگر غیر متوقع تباہی کے۔
اس ٹاور کا جاذب نظر جھکاءو باقائدہ پلاننگ کا حصہ نہیں بلکہ تعمیراتی نقص ھے مگر یہاں تسلیم کرنا
#IslandVibes
#HistoryBuff
ہرمز جزیرہ (خلیج فارس، #ایران)
Hormuz Island 🏝 (Persian Gujf, #Iran)
نمک کےپہاڑوں کاجزیرہ
پرتگالی کنگ مینوئل اول کا قابض سپاٹ
پرتگالی قلعے کا مسکن
خوبصورتی میں قوس قزح کی سرزمین
صدیوں کی تاریخ لیےخلیج فارس میں واقع ایران کا چھوٹاساسحرانگیز ہرمز جزیرہ جو
اپنی متحرک، رنگین مٹی اورشاندار مناظر کیلئے نمایاں ھے، "اسے رنگوں کا جزیرہ" بھی کہاجاتا ھے۔
یرمز اہم ثقافتی اور تاریخی اہمیت کا حامل ھے۔ ہرمز جزیرے کی سطح تلچھٹ، آتش فشاں اور نمک کی تہوں سےڈھکی ھوتی ھے۔
گرم اور مرطوب اب و ہوا کا امتزاج لیے ہرمز جزیرہ تزویراتی طور پر آبنائےہرمز کے
داخلی راستے پر واقع ھے جو عالمی سطح پر سب سے اہم آبی گزرگاہوں میں سے ایک ھے۔
ہرمز جزیرہ دراصل نمک کا ایک فعال مرکز ھے۔ ہرمز کی سرزمین میں نمک کی مضبوط موجودگی نے اسے پودوں کے لحاظ سے کمزور کیا ھے۔ یہ شاہراہ ریشم کے تاجروں کے لیے خاص طور پر مسالوں کی تجارت کے دوران ایک اہم اسٹاپ
#VillageVibe
#architecture
#Iran
گاؤں مزر(ڈسٹرکٹ بجستان،، صوبہ خراسان)
Mazar Village (District Bejestan, Province Khorasan)
2600سالہ قدیم گاؤں___قبل از اسلام کے شاہی مقبرے کا مسکن
"مزرِ شاہ" نام کا براہِ راست ترجمہ "بادشاہ کا مقبرہ" سے عبارت ھےجو اس علاقےمیں شاہی شخصیات کی تاریخی
موجودگی کی نشاندہی کرتاھے۔
ایران کےصوبے خراسان میں مزرشاہ کاگاؤں اسلیےاہم ھےکہ اس میں قبل ازاسلام کاشاہی مقبرہ ھے۔
مزرگاؤں میں دلچسپی کامقام یہی'خانقاہ' یا 'مرقد' ھےجوایک قدیم زیرزمین کمپلیکس ھےاورچٹان میں کھداھواھے۔ایک قدیم زیرزمین ڈھانچہ جسےاچیمینیڈ(Achaemenid/330 BC -650 BC)
دور یا اس سے پہلے کاایک متھرازم مندر (Mithraism Temple) سمجھاجاتاھےجو سیک قدیم فارسی مذہب تھا۔
آثار قدیمہ کی قدر: کمپلیکس کا زیر زمین فن تعمیر، جس میں راہداری اور پتھر کےستون نمایاں ہیں، اسے قدیم ایرانی مذہبی طریقوں اورفن تعمیر کوسمجھنے کیلئے ایک اہم مقام بناتاھے۔
مزر گاؤں بلاشبہ
#Lahore
#Railway
#Pakistan
لاھور ریلوے اسٹیشن (1859)___تاریخ سےچند اوراق
لاھور ریلوے اسٹیشن__لاھور کےقلب میں واقع ھندوستان کا اولین ریلوےجنکشن
لاھور ریلوے اسٹیشن__ھندوستان میں برٹش ریل روڈز (British Rail-Roads)کا آغاز یہیں سےھوا تھا۔برصغیر پاک وھند (لاھور)میں ریلوےٹریک بچھانے کا
خیال سب سے پہلےسول انجینئر کے دفتر سے 3 فروری 1853 کولاھور کرانیکل اخبار (Lahore Chronicle Newspaper) میں لکھے گئے خط میں پیش کیا گیا۔ 15 جولائی 1857 کو چیف انجینئر ولیم برنٹن نے سکند ریلوے کمپنی کو آرکیٹیکچرل ڈیزائن پیش کیا۔
لاھور ریلوے اسٹیشن__سے قبل 1857 کےبعد کی بغاوت کےدوران
سیکورٹی ایک بڑی تشویش بن گئی تھی، اس لیے یہ اسٹیشن موٹی دیواروں، برجوں اور بڑےسوراخوں سے گھرا ھوا تھا تاکہ برطانوی سلطنت کیخلاف مستقبل میں ھونےوالی ممکنہ بغاوتوں کامقابلہ کیاجا سکے۔
لاھور ریلوے اسٹیشن__کا قیام 1859 میں "معاہدہ امرتسر" کے بعد امن مں لایا گیا اور لاھور سے پہلی ٹرین
#FlagAdoptionDay
(گذشتہ سے پیوستہ)
پرچم پر "Stars" اور "Moon" والےممالک
Countries those have "Stars & Moon" Flags
دنیا کے جھنڈوں پربنی علامتیں یونہی نہیں ھوتیں۔ یہ خاموشی سے بےشمارمفہوم اورقدیم عقیدےسےجڑے ھوتی ہیں جواقوام کواسیر کرتی ہیں۔
اس وقت مخصوص
ستارہ وہلال کی علامت10ممالک کےبینرزکی زینت ہیں جو دنیابھر میں متنوع ثقافتی،روحانی اورتاریخی شناختوں کی عکاس ھے۔
-تنیشیا(Tunisia)کےپرچم کی لال زمین پر ایک سفیددائرے میں بنا لال ہلال اور ستارہ عثمانی ڈیزائن کےاسلامی ورثے کوظاہر کرتاھے جبکہ سرخ رنگ ملکی تاریخ کےشہداءکےخون کاامیں ھے۔
-موریطانیہ کے پرچم کی سبز زمین پر بنا سنہرا چاند اور ستارہ اسلام اور صحرا کی علامت ھے جبکہ اوپر نیچے کی سرخ پٹیاں آزدی کی خاطر قربان ھونے والوں کی یادگار ہیں۔
#Mauritania
#Indology
#architecture
طاقتور خواتین حکمرانوں سے منسوب 5 ھندوستانی قلعے
5 Historic #Indian #forts Honoring Powerful Women Rulers
خواتین سے منسوب عمارات میں اولین نام "تاج محل" (آگرہ) کا آتا ھے مگر وہ "قلعہ" نہیں بلکہ مغل شہنشاہ شاہجہاں کی ان گنت ازواج میں آخری ملکہ کا مقبرہ ھے۔
قلعوں کی کہانی کچھ یوں ھے۔
رانی محل(جھانسی، اترپردیش)
Rani Mahal(Jhansi, Uttarpardesh)__1857
کمپلیکس نماقلعہ کی دیواروں کےاندرہی رانی محل یعنی ملکہ کامحل نظرآتاھے۔معمولی لیکن باوقار رہائش گاہ کسی زمانےمیں رانی لکشمی بائی کاگھر تھی،جنہوں نے1857کی بغاوت کےدوران انگریزوں کیخلاف مسلح
مزاحمت کی۔ آج بھی یہ ڈھانچہ اپنی طاقت وعروج کوبرقراررکھےھوئےھے۔
کتورقلعہ(بیلاگوی ڈسٹرکٹ، کرناٹک)
Kittur Fort(Belagavi District, Karnataka)___1824
اسےاصل میں دیسائی حکمرانوں نےتعمیرکیاجوبعدازاں رانی چنمما(Rani Chennamma) کےنام سےجڑگیا۔1824میں اس نےبرطانوی قبضےکیخلاف اپنابینراٹھایا
#MemoriaHistorica
#Pakistan
مینار پاکستان___Tower of Pakistan
"نشان پاکستان"___1960-1968
فلک شگاف مینارپاکستان__لاھورمنٹو پارک میں صرف مسلمانان ھند کےمستقبل طےکرنےکا مقام اور یادگار ہی نہیں تعمیراتی کمال بھی ھےاور اسکے ساتھ ساتھ برصغیرکےمسلمانوں کی آزادی اورمزاحمت کااستعارہ بھی۔
مینار پاکستان__کو لاھور کے قلب میں مختلف النوع خالص پاکستانی سنگ مرمر کی مدد سے 1960 میں گراونڈ بریکنگ کی گئی اور اس تاریخی ہیڈ اسٹون کی تعمیرنیں آٹھ سال لگے۔
مینار پاکستان__کے پورے منصوبے کی لاگت تقریباً 10 کروڑ روپے تھی جسے مغربی پاکستان کے گورنر اختر حسین کی درخواست پر فلم اور
گھڑدوڑ(Horse-Racing)کےٹکٹس پراضافی ٹیکس لگاکر اکٹھاکیاگیا۔
مینار پاکستان__عصری ڈیزائن کیساتھ اسلامی اورمغل فن تعمیرکابھی عکاس ھے۔
مینار پاکستان__کےمعمار (#architect)روسی نژادپاکستانی نصیرالدین مرات خان (Nasreddin Murat Khan)تھے۔
مینار پاکستان__کاخوبصورت ڈیزائن پھول کی پنکھڑیوں سے