لاہور، ملتان، حیدرآباد کے مخصوص بازاروں کا پس منظر رکھنے والی اداکارائیں جب اپنی ولدیت کے خانے میں کسی سید یا راجپوت کا نام لکھتی ہیں تو اتنی حیرت نہیں ہوتی جتنی کرپشن زدہ سیاستدانوں کو قائد اعظم یا فاطمہ جناح سے تعلق جوڑتے دیکھ کر ہوتی ہے۔ کہاں یہ آفشور👇🏻
اور بے نامی جائیدادوں والے لٹیرے اور کہاں وہ دیانت و امانت کے پیکر۔
"وکٹوریہ روڈ کے دوسرے نکڑ پر ایک بہت عمدہ ریسٹورینٹ "کیفے گرینڈ" تھا جہاں اتوار کو بڑی رونق ہوتی تھی۔ بہترین کیک پیسٹری اور وہ بھی اتنے مناسب داموں میں کہ گھریلو بجٹ میں ڈینٹ نہ پڑے۔ اس کے مینیجر نے👇🏻
ہمیں بتایا کہ گورنر ہاؤس کو کنفیکشنری کیفے گرینڈ ہی سے سپلائی ہوتی تھی۔ 1947 کے بعد گورنرجنرل ہاؤس کو بھی ڈبل روٹی وغیرہ کیفے گرینڈ ہی سپلائی کرتا تھا۔ ایک دن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا فون آیا کہ جو فٹ بھر لمبی ڈبل روٹی آپ روزانہ بھیجتے ہیں، وہ ضائع ہو جاتی ہے،👇🏻
اس لیے کہ ناشتے پر صرف ہم دو ہوتے ہیں۔ آپ چھوٹی ڈبل روٹی بھیجا کریں جو بس ہم دونوں کے لیے کافی ہو۔
مینیجر نے جواب دیا، میڈم ہمارے ہاں توبرس ہا برس سے اسی سٹینڈرڈ سائز کی ڈبل روٹی بیک کرنے کا ایک ہی سانچا استعمال ہوتا ہے۔
"تو آج ہی چھوٹا سانچا بنوا لو۔ You see my point?"👇🏻
مینیجر نے وہ چھوٹا سانچا ہمیں دکھایا جس میں صرف ایک منی سی ڈبل روٹی بنتی تھی۔
قائد اعظم کی رحلت کے بعد روزانہ ایک وین میں اٹا اٹ بھری کنفیکشنری حسب دستور قدیم بھیجی جانے لگی۔
میں ادب اور پوری سنجیدگی سے یہ تجویز پیش کرنا چاہوں گا کہ حکومت اس تاریخی اور متبرک👇🏻
سانچے کو حاصل کر کے میوزیم میں تبرکاً و تیمناً سجائے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ یہ تھا ہمارا قائد اور ایسی تھی اس کی زیرک اور سلیقہ شعار بہن۔"
(مشتاق احمد یوسفی ۔۔۔۔۔ شام شعر یاراں صفحہ 29)
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
لاہور میں موجود نواز شریف کی رہائش گاہ کو رائیونڈ محل کہا جاتا ہے۔ یہ نواز شریف کی والدہ کے نام پر ہے۔
رائونڈ محل کا احاطہ 1700 ایکڑ یا 13600 کنال ہے (ملحقہ خریدی گئی زمین بھی شامل کی جائے تو 25000 ہزار کنال سے زائد )۔ یہاں جانے کے لیے👇🏻
ایک خصوصی گیٹ بنایا گیا ہے جس پر نواز شریف کی والدہ بیگم شمیم شریف اور بیٹی مریم نواز کے نام بڑے بڑے حروف میں کندہ کیے گئے ۔ شاہی رہائش گاہ میں 3 باورچی خانے، 3 ڈرائینگ روم، ایک سوئمنگ پول ، ایک مچھلی فارم ، ایک چھوٹا سا چڑیا گھر اور ایک جھیل شامل ہے۔👇🏻
اس علاقے میں میاں شریف نے جو زمین خریدی اس کو قومی خزانے سے پیسے خرچ کر کے جدید سہولیات سے آراستہ کیا گیا۔
اس رہائش گاہ میں تقریباً 1500 ملازمین کام کرتے ہیں جنکی مجموعی ماہانہ تنخواہ کروڑوں روپے بنتی ہے۔
وزیراعطم نواز شریف جب دوسری بار وزیرآعظم بنے تب انہوں نے👇🏻
اللہ پاک اپنے بندوں کے گمان کے ساتھ ہے اس لیے اللہ پاک سے ہمیشہ اچھا گمان رکھو....
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے، کہا ہم سے اعمش نے، کہا میں نے ابوصالح سے سنا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے👇🏻
فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں اور جب وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور جب وہ مجھے مجلس میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اس سے بہتر فرشتوں کی مجلس میں اسے یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے ایک بالشت قریب آتا ہے👇🏻
تو میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے ایک ہاتھ قریب آتا ہے تو میں اس سے دو ہاتھ قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کے پاس دوڑ کر آ جاتا ہوں
(صحیح بخاری۔ کتاب التوحید:حدیث نمبر 7405)👇🏻
پلیز متوجہ ہوں....
بھرپور 🧐 توجہ طلب اسٹوری👇 ہے...
تاحیات سبق آموز بھی ہو سکتی ہے
,پلیز جنہیں سبق حاصل ہو جائے وہ دوسروں کو بھی ضرور سبق دیں یہ فرض آپ ہی نبھاسکتےہیں ..💐 والسلام حمیرا راجپوت....
ایک بادشاہ نے اپنے قابل وزیر کو کہا کہ سب سے👇🏻
زیادہ پانچ احمقوں کو ایک مہینہ میں تلاش کرنے کے لیے پیش کیا جائے۔
وزیر اعظم نے صرف دو احمقوں کو پیش کیا۔
بادشاہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ تو پانچ احمقوں کو پیش کرنے کا کہا تھا۔
۔۔۔وزیر نے کہا کہ مہاراج، مجھے ایک کمپیوٹر احمقوں کو پیش کرنے کی اجازت دی گئی۔👇🏻
وزیر اعظم نے پہلے احمق پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ بڑا احمق اس کے لیے ہے۔
انہوں نے کہا کہ بیل گاڑی میں سوار ہونے کے لیے اس نے سامان اپنے سر پر رکھا ہوا تھا' دوسرے احمق نے اس شخص کو گھر کی چھت پر کھڑا کرتے ہوئے کہا کہ ان کی وجہ سے چھت پر گھاس آگئی ہے۔ بیل کو بیل کی👇🏻
یہ ستمبر 1948 کی بات ہے. جب ہندوستان نے ریاست جونا گڑھ پر
یہ کہہ کر قبضہ کرلیا کہ ریاست کا حکمران (نواب مہابت خان) لاکھ مسلمان سہی مگر ریاستی عوام کی اکثریت تو ہندو ہے جب کہ اس استعماری ریاست نے جموں و کشمیر پر قبضہ کرتے ہوئے۔۔۔👇🏻
خیر قصہ مختصر یہ کہ جونا گڑھ پر بھارتی قبضہ کے بعد
نواب مہابت خان بروقت تمام اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی جان بچا کر اور مختصر ضروری سامان لے کر کسی نہ کسی طرح پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوگئے یہاں انہوں نے اُس
وقت کے دارالحکومت کراچی کے مشہور علاقے کھارادر میں قیام کیا.👇🏻
یہ وہی علاقہ ہے جہاں کی ایک سڑک پر وزیر مینشن نام کی وہ سہ منزلہ عمارت واقع ہے جسے قائد اعظم کی جائے پیدائش ہونے کا اعزاز حاصل ہے
نواب صاحب اپنے سرکاری خزانے میں 48 من سونا چھوڑ آئے تھے اور وہ ایسی جگہ پر محفوظ تھا جس کا علم نواب صاحب کے سوا کسی کو نہیں تھا.👇🏻
دو مریض اسپتال کے بستروں پر لیٹے ہوئے تھے
ایک شخص بیٹھنے کے قابل تھا،اس کابستر کمرے میں موجود کھڑکی کے پاس تھا
جب کہ دوسرا شخص پورا دن اپنے بستر پر لیٹ کر گزارتا تھا
کھڑکی والا شخص بیٹھ کر اپنے پڑوسی کو سب بتاتا جو👇🏻
اسے کھڑ کی سے نظر آتا تھا
دوسرا شخص وہ سب سننے کا انتظار کیاکرتا تھا
کھڑکی سے ایک باغ نظرآتا تھا،جس میں خوبصورت نہر بھی تھی
اس نہر میں بچے کھلونا کشتیاں چلاتےتھے، منظر بہت دلفریب تھا
کھڑکی کے نزدیک والا برابر لیٹے ہوئے شخص کو تمام تفصیلات بتاتا اور لیٹا ہوا شخص تصور کی👇🏻
دنیا میں کھو جاتا تھا
ایک دن نرس کمرے میں داخل ہوئی اور کھڑکی والے شخص کو مردہ پایا
دوسرے شخص نے اپنا بستر کھڑکی کے پاس لگانے کی فرمائش کی،نرس نے ایسا ہی کیا اور کمرے سے چلی گئی
اس شخص نے کہنیوں کے بل بمشکل اٹھنے کی کوشش کی تاکہ کھڑکی سے جھانک سکے👇🏻
اللہ پاک ملک پاکستان اور مخلص قیادت کی مدد فرمائیں🤲آمین
بیسٹ آف لک 💐کپتان۔۔۔
زرعی ماہرین اور سپارکو کی مدد سے پاکستان کے 22 کروڑ ایکڑ رقبے یعنی مکمل رقبے کو جیولیجکل سروے کے زریعے مختلف زونز میں تقسیم کیا گیا ہے عمران خان کو دی گئی بریفنگ میں بتایا گیا کے پاکستان اب👇🏻
تک صرف ساڑھے 5 کروڑ ایکڑ زمین ہی اپنے استعمال میں لا سکاجبکہ 17 کروڑ ایکڑ زمین میں دو ملین ایکڑ پر گلیشئرز اور پانی موجود ھے باقی زمین ملکی زرعی پیداوار میں صفرفیصدحصہ شامل کر رہی ھے
عمران خان نے زراعی ماہرین کو پاکستان میں قابل کاشت زرعی اجناس پھلدار درختوں اور👇🏻
کارآمد لکڑی کے جنگلات کے لیے 17 کروڑ ایکڑ رقبے کا سروے کرنے کا کہا جو اب مکمل ھو چکا ھے
صرف بلوچستان میں ایک کروڑ ایکڑ رقبہ زیتون کی کاشت کے لیے بہترین قرار دیا گیا ھے۔ جبکہ 32 میں سے 24 اضلاع میں ہر قسم کی دالیں پیدا ھو سکتی ہیں ہیں جو ملکی ضروریات کے لیے کافی ہیں👇🏻