سورج مندر (گجرات, بھارت)
(Sun Temple, 1050 CE)
ملتان (پاکستان) میں واقع سورج مندر جو ھندوستان میں سورج بنسی کےپجاریوں کا سب سےقدیم، اولین اور بڑا مرکز تھا۔ بھارتی ریاست گجرات کاسورج مندر اسی سلسلے کی ایک کڑی ھے۔
سورج مندر (بھارت) حیدراباد سے100کلو میٹر کےفاصلے پر #Temple #History
ضلع مہسنہ (Mehsana) کے مودھیرا گاؤں میں واقع شمسی دیوتا سوریا کے لیے وقف ایک ہندو مندر ھے۔ دریائے پشپاوتی کے کنارے واقع یہ مندر سائنسی اور ثقافتی لحاظ سے یہ مثال آپ ھے۔
سورج مندر چاؤلوکیہ خاندان کے حکمراں بھیم اول کے عہد میں 1026-27 عیسوی کے بعد تعمیر کیا گیا۔چاؤلوکیہ اپنے خاندان
کو اسی سوریا (سورج) کی اولاد تصور کرتے تھے۔
مندر میں سونے کے زیورات سے جڑا بت رکھا گیا تھا اسی بت پر سورج کی پہلی کرنیں پڑتی ہیں۔ اصل چھت اہرام مصر کی مانند تھی جو اب نہیں رہی۔
مندر کے احاطے میں تین بنیادی اجزاء ہیں: گدھا منڈپا (مزار ہال)، کنڈا (پانی کا ذخیرہ) اور سبھا منڈیا
کو اسی سوریا (سورج) کی اولاد تصور کرتے تھے۔
مندر میں سونے کے زیورات سے جڑا بت رکھا گیا تھا اسی بت پر سورج کی پہلی کرنیں پڑتی ہیں۔ اصل چھت اہرام مصر کی مانند تھی جو اب نہیں رہی۔
مندر کے احاطے میں تین بنیادی اجزاء ہیں: گدھا منڈپا (مزار ہال)، کنڈا (پانی کا ذخیرہ) اور سبھا منڈیا
(اسمبلی ہال)۔
صرف یہ دیکھیں کہ سورج مندر کے معماروں نے کس طرح ایک ہزار سال پہلے کمپیوٹر ڈیزائن یا ٹیکنالوجی کی مدد کے بغیر یہ کارنامہ انجام دیا تھا جو آج بنیادی گھروں کی تعمیر میں معمہ بنا ھوا ھے۔
اب یہاں کوئی عبادت نہیں کی جاتی اور ہندوستان کا آثار قدیمہ
#Indology
#architecture
سورلا مسجد (گوا، بھارت)
Surla Mosque (Goa, India)
سولہویں صدی میں ھندو-مسلم اتحاد کی واحدنمائندہ مسجد
سرخ مٹی سےبنی دریائےمنڈووی کےآبی پھیلاؤ اور سرسبز وشاداب جنگل کے درمیان واقع مختصر سی "سورلا مسجد" گوا کی قدیم ترین بچ جانےوالی مساجدمیں سے ایک جوعادل شاہ
کے دور کی تعمیر ھے۔
کئی دہائیوں سے اس کا واحد مسلمان نگراں ایک ہی خاندان چلا آ رہا ھے۔ یہ ذمہ داری ان کے خاندان کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ھوتی رہی ھے۔
دریا سےمتصل ایک درگاہ مسجد کےپیچھےبنی ھوئی ھے۔ اس درگاہ پر پڑی باقیات ایک پیر صاحب کی ہیں جو پرتگالی دور سے پہلے کے ھندوؤں
اور مسلمانوں کےدرمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے گوا آئے تھے۔ ان کے نام آج تک معلوم نہیں ہیں.
مقامی لوگوں کے مطابق پرانےزمانے میں مسجد تک جانے والی کوئی سڑک نہیں تھی۔ اس کے احاطے میں صرف کاجو اور آم کا گھنا جنگل تھا۔ آخر کار پہاڑی کے نیچے ایک تاریک سڑک بنائی گئی، جس سے زائرین کیلئے
#Indology
#architecture
فیروز مینار(کانپور، بھارت)
Firoz Minar (West Bangal, Kanpur)__1485ء
ہرھندوستانی کی سماعت سےتلنگنہ(حیدرآباد) کا"چار مینار"،مہرولی(دہلی)کا"قطب مینار" یاشیخوپوری "ہرن مینار" توضرورٹکرایا ھوگامگرحبشی سلطنت(Habshi Dynasty) کےسیکیولر دلیرسلطان سیف الدین فیروزشاہ
کا "فیروز مینار" یقینا ایک اجنبی مینار ھو گا۔
اس مینار کی انفرادیت اس کاحبشی سرپرست فیروز شاہ تھا جو پیدائشی طور پر تو ایتھوپیا کاباشندہ تھا مگرسلطنت میں غلام رہنےکے بعد اقتدار کی بلندی پر پہنچا اور بنگال کےحکمرانوں میں سب سےقابل احترام ٹھہرا۔
شاید 14ویں صدی ہی میناروں کی صدی تھی
جوطاقت اور دولت کا نشان سمجھے جاتے تھے۔
اس تاریخی نشان کو "پیر آشا مینار" یا "چراغ دانی" کے نام سےبھی جانا جاتا ھے۔ مینار سلطان سیف الدین فیروز شاہ نے 4سال کے دوران اپنی باربک شاہ کیخلاف فتح کے نشان کے طور پر تعمیرکروایا تھا۔
قطب مینار سےاپنی حیرت انگیز اپنی سرخ رنگت کیساتھ مشابہ
#Church
#Architecture
بور گند سٹیو چرچ (بورگند، ناروے)
Borgund Stave Church ⛪️ (Borgund, #Norway)___1180 AD
کسی کارٹون یا ڈراؤنے منظر کی مانندسیاہ کیتھولک گرجاگھر
پادری اسٹیو کیلئےبورگند کے چھوٹے سےگاؤں میں کنگز روڈ کیساتھ بنایا گیا "اسٹیو چرچ" ناروے کے بہترین اور اب تک غیرمعمولی
طور پر محفوظ گرجا گھروں میں سے ایک ھے۔
اس ناقابل یقین اور شاہکار چرچ کی نمایاں خصوصیت اس کا ماحول اور تکونی چھتیں (Vertical Staves/Ceilings) ہیں۔
چرچ مکمل لکڑی اور نہایت مختصر مدت میں تعمیر کیا گیا تھا۔
اسکے دلکش بیرونی حصے میں عام ڈریگن کے سروں اور گیلریوں کے ساتھ ساتھ ٹائر والی
چھت کےساتھ ساتھ پیچیدہ نقش ونگار والے پورٹلز ہیں۔ سجاوٹ اندر سے بھی اتنی ہی تفصیلی اور دلکش ھےجتنی کہ باہر سے۔
14ستونوں پر بنایاگیا چرچ کا آغاز میں تعمیری رقبہ نہایت چھوٹا تھا جسے 1800کی دہائی میں ناروے قوانین کیمطابق "Society for the Preservation of Ancient Norwegian Monuments"
#ancient
#Palestine
#Israel
جھیل طبریہ (اسرائیل)
Tiberian Lake (#Israel)
تنازعات اور مذہب کی تاریخ سمیٹے #اسرائیل کی سب سےبڑی میٹھےپانی کی جھیل 'طبریہ" جسکو "بحیرہ تبریاس" یا "بحیرہ گیلیلی" (Sea of Galilee) کےنام سے بھی جاناجاتا ھے۔ اسے اسرائیل کی کہنا تو غلط ھو گا کیونکہ اسرائیل
تو باقائدہ کوئی ریاست نہیں ھے۔ اصل سرزمین قدیم #فلسطین ھےمگر مغرب کی مکاری نے ایک خطہ جبرا یہودیوں کےنام کیاجس میں یہ جھیل بھی شامل تھی۔
بحیرہ مردار (Dead Sea) اور نمکین جھیل (Salt Lake) کےبعد یہ دنیا کی دوسری چھوٹی ھے جس کی لمبائی صرف 21کلومیٹر (13 میل) ھے، کل رقبہ 33 میل اور یہ
صرف 43 میٹر (141 فٹ)گہری ھے۔
جھیل کےپانی کامکمل سورس گریٹ رفٹ ویلی کےدریائےاردن کےزیر زمین چشمےہیں اوردریائے اردن میں پانی دریائےیرموک سے آتا ھے۔
ہ وہ جھیل ھے جس کے خشک ھونے کا دجال انتظار کر رہا ھے۔ دجال وہ فتنہ عظیم ھےجس نے قیامت (Day of Judgement) سےپہلے زمین پر نمودار ھوناھے۔
#Church
#Greece
#architecture
پناگیہ چرچ (فولی گینڈروس، یونان)
Church of Panagia (Chora, Folegandros)____1600 CE
فولی گینڈروس میں ایک چٹان پر بنایا گیا زگ زیگ راستہ لیے سفید ملکوتی حسن اوڑھے دوشیزہ مریم کیلئے جزیرے سائیکلیڈز (Cyclades) کا سب سے بڑا چرچ جس کا سفر صدیوں پر محیط ھے۔
یہ چرچ ایک قدیم مندر کی جگہ پر کیا گیا تھا۔
پاونڈہ اسکوائر چورا (Pounda Square Chora) سے پتھر کا ایک ٹیڑھا راستہ تقریباً 15 منٹ کی پیدل سفر میں چرچ تک لے جاتا ھے۔ یہی راستہ اور سفیدی مائل حسن چرچ کو قابل دید اور منفرد بناتا ھے۔ چرچ کی تعمیر کا صحیح سال معلوم نہیں۔
صحن اور چرچ کے
اندرونی حصے میں قدیم نوشتہ، مجسمے اور رنگین پینٹنگز (Frescoes) دیکھے جا سکتے ہیں۔ مندر ایک زمانے میں ایک راہبہ کا ھوا کرتا تھا۔
یہاں 1687 کا ایک سنگ مرمر کا ٹکڑا (ایپیگراف، Epigraph) موجود ھے جو مندر کی تزئین و آرائش کا حوالہ دیتا ھے۔ چرچ نے اپنی موجودہ شکل 1816 کے دوران
#Indology
قلعہ پرتاب گڑھ (راجپوتانہ، مہاراشٹر)
Pratabgarh Fort (Rajputana, #Maharashter)___1656
تاریخ، ثقافت اور فطرت کا بہترین امتزاج اور ساتھ ہی جنگ کا مقام بھی کیونکہ یہ مہاراجہ شیواجی کی بہادری،حکمت اورعقیدت کاگواہ ھے۔
کھڑی پہاڑیوں، گھنے جنگلات، آس پاس وادیوں اور دریاؤں
کےنظارے سے گھرا 15 لاکھ کی خطیر رقم سے تعمیر کردہ قلعہ پرتاپ گڑھ مراٹھا بادشاہ چھترپتی شیواجی کا وہ حکم امتناعی ھے جو الہامی ثابت ھوا۔
قلعے کا مضبوط اور پائیدار ڈھانچہ کسی بھی حملے کا مقابلہ کر سکتا تھا۔ اس کے دو حصے تھے: اوپر والا قلعہ اور نیچےوالا قلعہ۔ پہاڑ کی نوک پر بنا اوپری
قلعے میں کئی عمارتیں تھیں جیسے محلات، مندر، سٹور روم اور واچ ٹاور۔ پہاڑ کی ڈھلوان پر بنایا گیا زیریں قلعے میں کئی گڑھ، دیواریں، دروازے اور توپیں تھیں۔ قلعہ میں فرار کا ایک خفیہ راستہ بھی تھاجس کیوجہ سے ایک قریبی گاؤں کمبھارگھر جاتا تھا۔
پہاڑ کی نوک پر بیٹھی اس تعمیر نےصرف تین سال