مغرب میں اٹھارہ سالہ لڑکی کے تین سے زیادہ ریلیشن شپ اور بریک اپس ہو چکے ہوتے ہیں۔ پندرہ سال کی عمر کے بعد وہ بےبئ سٹنگ اور برگر شاپ پر کام کر کے پیسے کمانا سیکھ چکی ہوتی ہے۔ اور کالج یونیورسٹی میں جانے سے اسکا ایکسپوژر آسمان پر ہوتا ہے۔ ان میں سے ساٹھ فیصد کالج ٹرپ پر بیرون ملک
کا چکر لگا چکی ہوتی ہیں۔ اور ہر طرح کے ماحول کو ڈیل کر لیتی ہیں۔
اسی مغرب سے متاثرہ ذہن والی خواتین اور انکے ہمدرد مرد ہمیں بتاتے ہیں کہ پاکستان میں اٹھارہ بیس سال کی "بچی" کو کیا پتہ کہ گھر کیسے سنبھالنا ہے، بڑوں سے بات کیسے کرنی ہے۔ اپنی عادات کے ساتھ ایڈجسٹ کیسے کرنا ہے۔...
حالانکہ حقیقت میں یہ طبقہ اپنی بچیوں کو ہڈحرامی اور لاڈ پیار کے ساتھ اس قدر بگاڑ چکا ہوتا ہے کہ وہ کسی کا گھر بسانا تو دور کی بات خود کو سنبھالنے لائق بھی نہیں رہتیں۔ ایسے میں ساس سسر یا خاوند کوئی بات سمجھائے تو سیدھا خلع پر بات جاتی ہے کہ افوہ ۔ ۔ ۔ یہ تو بچی کو جینے بھی۔۔۔۔
نہیں دے رہے۔
رہی سہی کسر ہائپر ایکٹو اسلامی تشریح والے پوری کر دیتے ہیں کہ بیوی پر یہ بھی فرض نہیں اور وہ بھی فرض نہیں۔ ۔ انکو نہ نبیﷺ کی ازدواج کے پکائے کھانے، مہمانداری کی روایات نظر آتی ہیں، اور نہ ہی خاتون جنت فاطمہ ؓ کے ہاتھوں پر چکی کی مشقت سے بنے نشان۔
مجھے آپ ہی۔۔۔۔۔
بتائیے، کون سے معاشرے میں عورت کا یہ روپ قابل قبول ہے؟ کہ جہاں سارے جہان کے حقوق تو آپ کی جھولی میں ڈال دیے جائیں مگر فرائض کے متعلق آپ کو کچھ نہ کہا جائے؟
اسلام ، مغرب، پاکستانی معاشرہ، چائنیز معاشرہ ۔ ۔ آپ کسی ایک پر انگلی تو رکھیں۔ ۔ اور اسکو مکمل اڈاپٹ کر لیں۔ ۔ مگر یہ کیا
کہ شتر مرغ کی طرح نہ آپ اڑنے پر راضی ہیں، نہ بوجھ ڈھونے پر۔
محمودفیاض کی عطاء
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
یہ ہیں مشہور زمانہ امریکی مصنف و ادیب جناب واشنگٹن ارونگ (Washington Irving) اور یہ ہے ان کی شہرہ آفاق کتاب Mahomet and His Successors۔ واشنگٹن صاحب اس کتاب میں رقمطراز ہیں:
"ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے تمام فیصلے ذاتی انا سے بالا خالص امت مسلمہ کے مفاد میں ہوتے تھے۔ دنیوی مفاد
ان کے قریب بھی نہ پھٹک سکا۔ وہ حب مال و جاہ، لالچ، عیش و عشرت سے کوسوں سے دور تھے۔ اپنی خدمات کے عوض ایک پائی بھی وصول نہیں کی۔ بس اتنی مقدار میں بیت المال سے وظیفہ لیتے تھے، جس سے بمشکل گزر بسر ہوتا تھا۔ اگر وظیفہ سے قوت لایموت کے بعد کچھ بچ جاتا تو اسے جمعہ کے دن تقسیم کر دیا
کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ اپنا مال اہل اسلام پر لٹاتے رہے۔" (صفحہ: 21، 22)
دائرۃ المعارف بریٹانیکا British Encyclopaedia یاEncyclopædia Britannica دنیا کی ایک مستند دستاویز ہے۔ جو سو سے زائد بار شائع ہو چکی ہے۔ اسے 4 ہزار سے زائد بین الاقوامی مسلمہ علمی شخصیات نے لکھا ہے۔ جن میں سے 101
ایسے جنسی تعلق میں کیا دخل ہے جہاں طرفین راضی ہوں.
#تنویری(سائنسی مریض):
اس بے چاری قوم کی کوئی غلطی نہیں، یہ کام وہ جینیاتی خلل کی وجہ سے کرتے تھے.
#جمہوری_اسلامی_فلاحی_ریاست:
ہم جنس پرست بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں ہم سب کو ان کا احترام کرنا چاہیے اس کام کی پریکٹس کرنے کے
لیے ان کو ان کا حق ملنا چاہیے بلکہ پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی ہونی چاہیے.
#اسلام:
لوط علیہ السلام اس رذالت کو ہاتھ سے روکنے کی قدرت نہ ہونے کے باوجود زبان سے اس کو روکنے کی کوشش کی قوم کو نصیحت کی دل میں اس کو برا سمجھا باز نہ آنے پر اللَّهُ کے حکم سے اس علاقے سے نکل گئے پھر
امتحانات سب مشکل ہوتے ہیں لیکن طِب کے امتحان کا کیا دباؤ ہوتا ہے یہ طِب والے ہی جانتے ہیں- اس سال امتحان میں ایک عجیب الجھن دور ہو گئی- ہم پڑھائی کرتے ہوتے ہیں- یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ کورس جتنا کرنا تھا اس کو پورا کیا ہے- پڑھائی کے باوجود پانچ وقت کی نمازیں سب اپنے وقت میں ہی
پابندی سے ادا کرتے ہیں- اور پورے اخلاص کے ساتھ دعاء کرتے ہیں کہ خدایا پڑھا تو ہے لیکن تو اپنا رحم فرمائے- اس وقت ہم میں سے کوئی یہ نہیں کہتا کہ چلو مڑا کتابیں رکھ لو تقدیر میں جو لکھا ہے وہی ہونا ہے- کوئی یہ نہیں کرتا کہ مڑا دعاء کیوں کرتے ہو آپ نے تو لفظ لفظ یاد کیا ہے اب بھلا
دعاء کرنے کی کیا ضرورت- پیپر کا دن ہوتا ہے- پیپر سے دو منٹ قبل امتحانی ہال میں بیٹھے بیٹھے بھی خدا سے آسانی کی دعائیں مانگتے ہیں حالانکہ یہ علم ہوتا ہے کہ اب تو پیپر آیا ہے اور کچھ بدلتا نہیں ہے۔ یہی اصل رویہ ہے کہ اس دنیا یعنی دارالاسباب میں آپ اسباب بھی استعمال کرتے ہیں. لیکن۔۔