ابوسعید ابوالخیر سے کسی نے کہا: ”کیا کمال کا انسان ھو گا وہ جو ھوا میں اُڑ سکے“
ابوسعید نے جواب دیا: ”یہ کونسی بڑی بات ہے، یہ کام تو مکّھی بھی کر سکتی ہے“
”اور اگر کوئی شخص پانی پر چل سکے اُس کے بارے میں آپ کا کیا فرمانا ہے ..؟
”یہ بھی کوئی خاص بات نہیں ہے
⬇️
کیونکہ لکڑی کا ٹکڑا بھی سطحِ آب پر تیر سکتا ہے“
”تو پھر آپ کے خیال میں کمال کیا ہے ..؟“
”میری نظر میں کمال یہ ہے کہ:
لوگوں کے درمیان رہو اور کسی کو تمہاری زبان سے تکلیف نہ پہنچے“
جھوٹ کبھی نہ کہو
کسی کا تمسخر مت اُڑاؤ
کسی کی ذات سے کوئی ناجائز
فائدہ مت اُٹھاؤ“ یہ کمال ہیں
⬇️
”یہ ضروری نہیں کہ کسی کی ناجائز بات یا عادت کو برداشت کیا جائے، یہ کافی ہے کہ کسی کے بارے میں جانے بغیر کوئی رائے قائم نہ کریں“
”یہ لازم نہیں ہے کہ ہم ایکدوسرے کو خوش کرنے کی کوشش کریں، یہ کافی ہے کہ ایک دوسرے کو تکلیف نہ پہنچائیں۔
”یہ ضروری نہیں کہ ہم دوسروں کی اصلاح کریں،
⬇️
یہ کافی ہے کہ ہماری نگاہ اپنے عیوب پر ہو“
”حتّیٰ کہ یہ بھی ضروری نہیں کہ ہم ایکدوسرے سے محبّت کریں، اتنا کافی ہے کہ ایکدوسرے کے دشمن نہ ہوں“
”دوسروں کے ساتھ امن کے ساتھ جینا کمال ہے“
عرض بس یہ کرنا ہے اسے مخص ایک تحریر سمجھ کر نہ پڑھیں ان اصولوں کو اپنا لیں بےشک چند
⬇️
روز کیلئے ہی سہی پھر آپ بھی کمال کرنے لگے گے۔
ریٹویٹ ضرور کیجیئے
فالو کرکے فالو بیک حاصل کریں @Arshe530
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
1955میں کوٹری بیراج کی تکمیل کے بعدگورنرجنرل غلام محمدنےآبپاشی سکیم شروع کی
4 لاکھ مقامی افراد میں تقسیم کی بجائے یہ افراد زمین کے حقدار پائے
1:جنرل ایوب خان 500ایکڑ
2:کرنل ضیااللہ 500ایکڑ
3:کرنل نورالہی 500ایکڑ
4:کرنل اخترحفیظ 500ایکڑ
5:کیپٹن فیروزخان 243ایکڑ
⬇️
6:میجرعامر 243ایکڑ
7:میجرایوب احمد 500ایکڑ
8:صبح صادق 400ایکڑ
صبح صادق چیف سیکرٹری بھی رہے
1962 میں دریائےسندھ پر کشمور کے قریب گدوبیراج کی تعمیرمکمل ہوئی
اس سےسیراب ہونےوالی زمینیں جن کاریٹ اسوقت پانچ، دس ہزار روپے
ایکڑ تھا عسکری حکام نے صرف 500 روپے ایکڑ کے حساب سے خریدا۔
⬇️
گدو بیراج کی زمین اس طرح بٹی:
1:جنرل ایوب خان 247ایکڑ
2:جنرل موسی خان 250ایکڑ
3:جنرل امراؤ خان 246ایکڑ
4:بریگیڈئر سید انور 246ایکڑ
دیگر کئی افسران کو بھی نوازا گیا
ایوب خان کے عہد میں ہی مختلف شخصیات کومختلف بیراجوں پرزمین الاٹ کی گئی انکی تفصیل یوں ہے:
⬇️
اکتوبر 2012میں فوج کے ایک ریٹائرڈ کرنل انعام رحیم نے بمعہ ثبوت نیب میں درخواست دائر کی جس کیمطابق جنرل مشرف کےخاندان کے نام اربوں روپوں کی دس پراپرٹیاں ہیں اس کے علاوہ جنرل مشرف نے دفاع کے نام پر حکومت سے لئے گئے ہزاروں پلاٹ
⬇️
ملک و قوم کےعظیم تر مفاد میں اپنے من پسند افسروں کو تحفے کے طور پر الاٹ کئے نیب نے2012میں کرنل امام کی درخواست پر کاروائی کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ فوجی افسران کے خلاف کاروائی نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں۔ نیب کے انکار کے بعد کرنل امام سپریم کورٹ چلاگیا بالآخر 2018 میں
⬇️
نیب نے یہ کیس لے لیا
کرنل انعام نےنیب کو بتایا کہ مشرف نےایک انوکھی پالیسی متعارف کرائی کہ بطور آرمی چیف نوکری کی آخری تاریخ کوجب آخری خط پر دستخط کریں تو اس کیساتھ خاص پلاٹ کا الاٹمنٹ لیٹر بھی ہونا چاہیےجو گُڈ سگنیچر یا آخری دستخط پلاٹ کہلاتا اسطرح انکے بعد آنے والےجنرل کیانی
⬇️
ایک شاگرد اپنے استاد سے الجھ پڑا. اس کو مخمصے کا مطلب سمجھ نہیں آیا تھا، استاد نے کافی تشریح کی مگر شاگرد مطمئن نہ تھا، پھر استاد نے کہا کہ میں تم کو ایک واقعہ سناتا ہوں شاید تمہیں مخمصے کی سمجھ آجائے.
واقعہ یہ ہے کہ: ناظم آباد میں AO کلینک کے سامنے والی سڑک
⬇️
پر ایک باپ اور اسکا بیٹا موٹر سائیکل پر جارہے تھے، ان کے آگے ایک ٹرک تھا جس میں فولادی چادریں لدی تھیں، اچانک ٹرک سے ایک فولادی چادر اڑی اور سیدھی باپ بیٹے کی گردن پر آئی اور دونوں کی گردن کٹ گئی، لوگ بھاگم بھاگ دونوں دھڑ اور کٹے ہوئے سر لیکر ڈاکٹر محمد علی شاہ کے پاس پہنچے،
⬇️
ڈاکٹر شاہ نے سات گھنٹے کے طویل آپریشن کے بعد کٹے ہوئے دونوں سر دھڑوں سے جوڑ دیئے۔ دونوں زندہ بچ گئے۔دو ماہ تک دونوں باپ بیٹا انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رہے.گھر والوں کو بھی ملنے کی اجازت نہیں تھی،دو ماہ بعد وہ گھر آئے تو ایک ہنگامہ مچ گیا. باپ کا سر بیٹے کے دھڑ پر اور بیٹے کا
⬇️
کتنے پیسے بھیجوں بیٹا؟ میں نے اپنی ریڑھی سے آلو اٹھاکر ہوا میں اچھالتے ہوئے پوچھا۔ دوسرے ہاتھ میں فون تھا جس پر میرا بیٹا مجھ سے بات کر رہا تھا
ابو ایک سو روپے بھیجیں گے تو ہمیں ایک ماہ کیلئےکافی ہیں بیٹے نے جواب دیا
100روپے کے کتنے ڈالر بنتے ہیں ۔۔؟
⬇️
میں نے سوال کیا۔
"بیس ہزار ڈالرز ابو" بیٹے نے جواب دیا۔ میں امریکہ سے بسلسلہ روزگار پاکستان آیا تھا میں نے امریکہ سے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں PHD کیا تھا لیکن پاکستان میں میری ڈگری BA کے برابر تھی اور یہاں ہر کوئی PHD تھا اس لیے نوکری نہ ملی
تو سبزی کی ریڑھی لگا لی، میرا تعلق
⬇️
کیلیفورنیا سے ہے پاکستان میں آیا تو پتہ چلا یہاں انگریزی زبان پر پابندی ہے اس لیے مجھے اردو سنٹر میں داخلہ لیکر اردو سیکھنا پڑی۔ اس دوران مجھے بیروزگاری الاؤنس کے تحت ماہانہ اتنے پیسے مل جاتے کہ تین ماہ میں میری فیملی نے واشنگٹن میں اپنا ذاتی گھر خرید لیا۔
بیٹا اتنے کم پیسے مت
⬇️
اپنی کتاب میں تراب الحسن نےجنگ آزادی کےحالات پر روشنی ڈالی ہے جس کیمطابق اس جنگ میں جن خاندانوں نےجنگ آزادی کے مجاہدین کےخلاف انگریز کی مدد کی مجاہدین کو گرفتار اور قتل کیا، کرایا ان کو انگریز نے بڑی بڑی جاگیریں مال و دولت اور خطابات سےنوازا اور سرکاری
⬇️
وظائف جاری کئے یہ خاندان آج بھی جاگیردار ہیں اور انگریز سرکار کے جانے کے بعد ہر حکومت میں شامل نظر آتے ہیں
Griffin punjab chifs Lahore ;1909
سے حاصل کردہ ریکارڈ کیمطابق یوسف رضا گیلانی کے بزرگ نور شاہ گیلانی کو انگریز سرکار نے انکی خدمات کےعوض300 روپے خلوت اور سند عطا کی تھی
⬇️
Proceeding of the Punjab Political department no 47, June 1858
کیمطابق دربارحضرت بہاؤالدین زکریا کے سجادہ نشین شاہ محمود قریشی کے اجداد نے مجاہدین آزادی کے خلاف انگریز کا ساتھ دیا امہیں ایک رسالہ کیلئے20 آدمی اور گھوڑے فراہم کئے اسکے علاوہ25آدمی لیکر خود بھی جنگ میں شامل ہوئے
⬇️
ایک آدمی ایک ویران جنگل میں جا رہا تھا کہ اسے اچانک ایک چراغ نظر آیا۔
آدمی چونکا اور فوراً چراغ اٹھا کر رگڑنا شروع ہوگیا۔
مگر جن نمودار نہ ہوا۔
آدمی نے دوبارہ چراغ رگڑا کچھ نہ ہوا، آدمی نے تیسری بار چراغ رگڑا تو کچھ نہ ہوا۔
⬇️
اس نے مایوس ہو کر چراغ پھینکا اور دائیں دیکھا تو حیرت اور خوشی سے اچھل پڑا۔
ایک جن اس کے پاس کھڑا اس کو گھور رہا تھا۔
آدمی نے فوراً خود پر کنٹرول کیا اور غصے سے بولا:
تمھیں میں نے چراغ سے آزادی دلائی اور تم ادھر کھڑے مجھے گھور رہے ہو، بولے کیوں نہیں ۔۔؟
⬇️
جن بولا:
پہلے میرے ایک سوال کا جواب دو پھر میں بتاتا ہوں۔۔!
آدمی پوچھو:
جن: ووٹ کس کو دیا تھا ..؟
آدمی: ”کپتان کو“
جن: اب میں سمجھا۔۔۔
میں ادھر سے اڑ کر گزر رہا تھا تو تمھیں چراغ رگڑتے دیکھ کے رک گیا۔۔۔
میں نے سوچا کہ یہ کون ہو سکتا ہے جو اس جدید دور میں بیوقوفوں کی
⬇️