مسجد نبویﷺ کی تاریخ
مدینہ (سعودی عرب)__622ء
(Al-Nabvi Mosque, Madina Saudi Arabia)
مدینہ منورہ کے قلب میں واقع مسجد نبویﷺ مسجدِ قباء کے بعد دوسری بڑی مسجد جو مسلمانوں کے آخری پیغمبر محمدﷺ کے گھر کا صحن تھی۔
مسجد کی تعمیر 7 ماہ میں مکمل ھوئی۔ سنگ بنیاد آپﷺ نے #Islamic #History
اپنے اصحاب کیساتھ مل کر رکھا۔ کچی دیوار کی ایک چھوٹی عمارت جس کی پیمائش تقریباً 30.5 میٹر × 35.62 میٹر (100.1 فٹ × 116.9 فٹ) تھی۔
مکہ کے بعد مسلمانوں کیلئےدوسرا مقدس ترین سمجھاجانے والا مقام دراصل دو یتیم بھائیوں سہل اور سہیل کی کہانی بیان کرتا ھے۔ یہ زمین انکی ملکیت تھی جو انہوں
نے بطور تحفتاً رضاکارانہ دے دی۔
ابتداء یہ ایک ھوا دار عمارت تھی جسے کمیونٹی سنٹر، کورٹ آف لاء، قرآن کی تدوین اور روحانی اسکول کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ محمدﷺ کے لیے جمعہ کے دن خطبہ کے لیے ایک منبر یا چبوترہ بنایا گیا۔
عہد نبویﷺ میں اسکے تین دروازے تھے__رحمت کا دروازہ، گیٹ
آف جبریل اور خواتین کا گیٹ جو بالترتیب مسجد کے جنوب، مغرب اور مشرق میں واقع تھے۔
اس وقت قبلہ کی دیوار کا رخ شمال یروشلم (موجودہ فلسطین) طرف تھا اور الصفہ بھی شمالی دیوار کے ساتھ ہی تھا۔
628ء میں جنگ خیبر (7 ھجری) کے بعد مسجد کی توسیع کی گئی۔ مغربی دیوار کے ساتھ ساتھ کالموں کی تین
قطاریں بنائی گئیں جو عبادت گاہ بن گئیں۔ دوم خلیفہ راشدین حضرت عمرؓ بن الخطاب کے عہد میں اس میں سب سے زیادہ تبدیلیاں ھوئیں۔
مسجد کی پشت پر "جنت البقیع" واقع ھے جس میں آپﷺ کے 10,000 اصحاب اور بیبیاں آرام فرما ہیں۔
گزرتے وقت کیساتھ عہد اموی خلیفہ الولید میں، عہد عباسی خلیفہ المہدی
میں، عہد عثمانی میں، عہد سعود بن عبدالعزیز میں مسجد میں تعمیراتی اور نمائشی تبدیلیاں بڑھتی ہی چلی گئیں۔
گنبد کا سبز رنگ جو دنیا بھر میں اس عمارت کی شناخت ھے، 1837 میں کیا گیا اور ساتھ ہی اسے "گنبد خضریٰ" (سبز گنبد) کانام بھی دے دیا گیا۔
1992 میں مسجد میں ایسکلیٹرز اور 27 صحن شامل
کیے گئے۔ مسجد کے رقبے کو جدید طرز پر پھیلانے کے لیے ستمبر 2012 میں 6 بلین ڈالر کے منصوبے کا اعلان کیا گیا۔
مسجد نبویﷺ دنیا کی واحد عبادت گاہ ھے جس کی تاریخ میں ہر عہد اور ہر زمانے میں تزئین و آرائش کی بہت سی جاذب نظرتبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔
آج مسجد کا رقبہ تقریباً 1.7 ملین مربع
فٹ پرپھیلاھواھےاوراس میں ایک وقت میں0.6 تا1ملین افرادسماسکتےہیں۔
آج مسجدنبویﷺ کروڑوں مسلمان کےدل کی دھڑکن، آنکھوں کی ٹھنڈک اورعقیدےکی پختگی کامرکزھے۔
دیکھاجائےتواس مسجدنےباقی تاریخی مقامات کےمتضادسب سےزیادہ تبدیلی کاسفرکیاھے۔ @threadreaderapp Unroll it. #Muslim #Islamic #History
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
#Indology
#Rajhastan
#architecture
گلتاجی مندر(جےپور، راجھستان)
Galtaji Temple 🛕(Jaipur)
جہاں "Engineering"ختم ھوتی ھے،وھاں سے "فن تعمیر"شروع ھوتاھے۔
اس حقیقت کو15ویں صدی میں جےپورمیں گلابی ریت اورسرخ اینٹوں سےبنائےگئے "گلتاجی مندر" نےثابت کیاجوخالص راجھستانی تعمیراتی حسن اوڑھے
7مقدس تالابوں اورچشموں سےگھرا ایک قدیم دیوہیکل کمپلیکس ھےجسے بندروں کی بھرمار کیوجہ سے "گلوار باغ" کہاجاتاھے۔
مندر کاکمپلیکس گویاکئی مندروں کا ایک جھرمٹ ھےجنہیں اراولی کی پہاڑیوں میں ایک پہاڑی درے کی ایک تنگ شگاف کے اندر بنایاگیا ھے۔
درختوں اورپہاڑوں کےبیچ کسی عظیم الشان شاہی محل
کی مانند مندر اپنےعقیدت مند ھندوؤں کیلئے "اشنان" (نہانے/Showering) یعنی گناہ دھونے کا ذریعہ ھے۔7 مقدس تالابوں میں سے گلتاکنڈ سب سےمقدس ھےکیونکہ یہ حوض کبھی خشک نہیں ھوتا۔
بھگوان کرشنا، بھگوان رام اور بھگوان ہنومان کیلئےوقف مندر آج ایک اہم ھندو زیارت گاہ ھے۔
گلتاجی کمپلیکس کے اندر
#ancient
#geology
#Iran
زگروس پہاڑ (عراقی کردستان، #ایران)
Zagros Mountains ⛰️(Iraqi Kurdistan)
ایران، تاریخ اور ثقافت سے مالا مال ایک قدیم اور ان "زگروس پہاڑوں" کاملک جہاں 9000 قبل مسیح کی انسانی رہائش اور زراعت کےٹھوس ثبوت موجود ہیں۔
زگروس پہاڑوں کی تاریخ اتنی سادہ نہیں!
کیونکہ
ان پہاڑوں نےایران میں تہذیبوں کی ترقی میں نہایت اہم کردار اداکیا۔
وہ ایسےکہ پہاڑوں کیطرف سےفراہم کردہ قدرتی رکاوٹوں نےحملوں کیخلاف تحفظ کاکام کیااورمختلف ثقافتوں اوربرادریوں کی نشوونماکوفروغ دیا۔ایلمائٹ(Elamites Empire/3200 BC-539 BC) ایران کی قدیم ترین تہذیبوں میں سےایک زگروس کے
دامن میں ہی پروان چڑھی۔ بعد میں اچمینیڈ سلطنت (Achaemenid Empire/500 BC) جس کا دارالحکومت پرسیپولیس میں تھا، نے دفاع اور وسائل کیلئے زگروس پر انحصار کیا۔
زگروس پہاڑ جنوب مشرقی ایران میں واقع کرسٹل چٹانوں کی ایک پٹی پرمشتمل ھے۔
یہ پہاڑ ترکی سےخلیج عمان تک 1500 کلومیٹر سے زیادہ تک
#ancient
#HistoryBuff
کندوان کے غار نما گھر(کندوان، تبریز)
Kandovan Cave Houses 🏘(Tabriz, #Iran)
کیا کبھی انسان بھی مکھیوں کے چھتوں (Hives) میں رھے ہیں؟
کندوان___ایران کےمنجمد کر دینے والےپہاڑی سلسلےسہند میں واقع شہد کےچھتےکی مانند نوکیلے یعنی عجیب وغریب شکلوں والےگھروں پر مشتمل
ایک پرامن قدرتی گاؤں جو اپنےمنفرد پتھر سے کٹے خصوصا آتش فشانی چٹانوں سے تراشے فن تعمیر کےباعث مشہور ھےجو آج دنیامیں بچ جانےوالے چند دیہاتوں میں سے ایک ھے۔
آتش فشاں جو آج غیر فعال ھے 11 ملین سال سے زیادہ عرصے سےسرگرم تھا۔ کندوان گاؤں کو "Iranian cappadocia" کہاجائےتو بےجانہ ھو گا۔
ماہرین آثار قدیمہ (#Archeologists) کا کہنا ھے کہ لوگ 3000 سال پہلےبھی غاروں میں رہتے تھے۔ تاہم کندوان میں رہنےوالے لوگوں کے مطابق موجودہ گاؤں 800 سال پرانے گاؤں کے پہلے باشندے خوارزم کے پناہ گزین تھے، جو منگول فوج سے بھاگے تھے۔ وہ چھپنےکی غرض سے انہی غاروں میں ٹھہرے کیونکہ غار سے
#Indology
#architecture
سورلا مسجد (گوا، بھارت)
Surla Mosque (Goa, India)
سولہویں صدی میں ھندو-مسلم اتحاد کی واحدنمائندہ مسجد
سرخ مٹی سےبنی دریائےمنڈووی کےآبی پھیلاؤ اور سرسبز وشاداب جنگل کے درمیان واقع مختصر سی "سورلا مسجد" گوا کی قدیم ترین بچ جانےوالی مساجدمیں سے ایک جوعادل شاہ
کے دور کی تعمیر ھے۔
کئی دہائیوں سے اس کا واحد مسلمان نگراں ایک ہی خاندان چلا آ رہا ھے۔ یہ ذمہ داری ان کے خاندان کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ھوتی رہی ھے۔
دریا سےمتصل ایک درگاہ مسجد کےپیچھےبنی ھوئی ھے۔ اس درگاہ پر پڑی باقیات ایک پیر صاحب کی ہیں جو پرتگالی دور سے پہلے کے ھندوؤں
اور مسلمانوں کےدرمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے گوا آئے تھے۔ ان کے نام آج تک معلوم نہیں ہیں.
مقامی لوگوں کے مطابق پرانےزمانے میں مسجد تک جانے والی کوئی سڑک نہیں تھی۔ اس کے احاطے میں صرف کاجو اور آم کا گھنا جنگل تھا۔ آخر کار پہاڑی کے نیچے ایک تاریک سڑک بنائی گئی، جس سے زائرین کیلئے
#Indology
#architecture
فیروز مینار(کانپور، بھارت)
Firoz Minar (West Bangal, Kanpur)__1485ء
ہرھندوستانی کی سماعت سےتلنگنہ(حیدرآباد) کا"چار مینار"،مہرولی(دہلی)کا"قطب مینار" یاشیخوپوری "ہرن مینار" توضرورٹکرایا ھوگامگرحبشی سلطنت(Habshi Dynasty) کےسیکیولر دلیرسلطان سیف الدین فیروزشاہ
کا "فیروز مینار" یقینا ایک اجنبی مینار ھو گا۔
اس مینار کی انفرادیت اس کاحبشی سرپرست فیروز شاہ تھا جو پیدائشی طور پر تو ایتھوپیا کاباشندہ تھا مگرسلطنت میں غلام رہنےکے بعد اقتدار کی بلندی پر پہنچا اور بنگال کےحکمرانوں میں سب سےقابل احترام ٹھہرا۔
شاید 14ویں صدی ہی میناروں کی صدی تھی
جوطاقت اور دولت کا نشان سمجھے جاتے تھے۔
اس تاریخی نشان کو "پیر آشا مینار" یا "چراغ دانی" کے نام سےبھی جانا جاتا ھے۔ مینار سلطان سیف الدین فیروز شاہ نے 4سال کے دوران اپنی باربک شاہ کیخلاف فتح کے نشان کے طور پر تعمیرکروایا تھا۔
قطب مینار سےاپنی حیرت انگیز اپنی سرخ رنگت کیساتھ مشابہ
#Church
#Architecture
بور گند سٹیو چرچ (بورگند، ناروے)
Borgund Stave Church ⛪️ (Borgund, #Norway)___1180 AD
کسی کارٹون یا ڈراؤنے منظر کی مانندسیاہ کیتھولک گرجاگھر
پادری اسٹیو کیلئےبورگند کے چھوٹے سےگاؤں میں کنگز روڈ کیساتھ بنایا گیا "اسٹیو چرچ" ناروے کے بہترین اور اب تک غیرمعمولی
طور پر محفوظ گرجا گھروں میں سے ایک ھے۔
اس ناقابل یقین اور شاہکار چرچ کی نمایاں خصوصیت اس کا ماحول اور تکونی چھتیں (Vertical Staves/Ceilings) ہیں۔
چرچ مکمل لکڑی اور نہایت مختصر مدت میں تعمیر کیا گیا تھا۔
اسکے دلکش بیرونی حصے میں عام ڈریگن کے سروں اور گیلریوں کے ساتھ ساتھ ٹائر والی
چھت کےساتھ ساتھ پیچیدہ نقش ونگار والے پورٹلز ہیں۔ سجاوٹ اندر سے بھی اتنی ہی تفصیلی اور دلکش ھےجتنی کہ باہر سے۔
14ستونوں پر بنایاگیا چرچ کا آغاز میں تعمیری رقبہ نہایت چھوٹا تھا جسے 1800کی دہائی میں ناروے قوانین کیمطابق "Society for the Preservation of Ancient Norwegian Monuments"