یقینِ کامل

حوالاجات کی سلاخوں کےپیچھے سے میں اسےنماز پڑھتا دیکھ رہا تھا وہ 25 ,26سال کاخوبصورت نوجوان قتل کے مقدمے میں دو دن پہلے ہی یہاں لایا گیا تھاچند عدالتی کاروائی کےبعد اسےجیل منتقل کیاجانا تھا اس کےخلاف کیس کافی مضبوط تھا اس لیےگمان غالب تھا کہ ایک دو پیشیوں کے بعد ہی
⬇️
اسے سزائے موت سنا دی جائے گی
میں ایک پولیس والا ہوں اور پہلے دن سے ہی میرا رویہ اور لہجہ اس کے ساتھ کافی سخت رہا تھا لیکن اس کے لبوں پر ہمیشہ ایک دل موہ لینے والی مسکراہٹ ہوتی تھی اور ہمیشہ وہ مجھے بڑا سمجھتےہوئے ادب سے اور نرم لہجےمیں بات کرتا تھا مجھ جیسا سخت انسان بھی دو دن
⬇️
میں ہی اس کے اچھے اخلاق کے سامنے ہار گیا تھا
اب وہ سلام پھیرنے کے بعد دعا مانگ رہا تھا میں اسے دیکھتا ہی رہ گیا وہ اس طرح خشوع و خضوع سے دعا مانگ رہا تھا کہ یوں لگتا تھا جیسے وہ جس سے مانگ رہا ہے وہ اس کے بالکل سامنے بیٹھا ہو
دعا کے بعد اسکی نظر مجھ پر پڑی تو اس کے لبوں پر پھر
⬇️
وہی مسکراہٹ نمودار ہوئی وہ اٹھ کر میرے پاس آیا اور ہمیشہ کیطرح میرا حال احوال پوچھا
آج خلاف معمول میرا لہجہ کافی نرم تھا باتوں کے دوران میں نے اس سے پوچھا کہ کیا واقعی اس نے قتل جیساجرم کیا ہےکیونکہ مجھے اس کی معصومیت سےنہیں لگ رہا تھا کہ وہ قتل جیسا جرم کر سکتا ہے
”ایک انسان
⬇️
کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے تو پھر میں ایسا گھناونا جرم کیسے کرسکتا ہوں؟“
اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
تو پھر؟ میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
”جب اللہ اس دنیا میں کسی کو اختیارات دیتا ہے نا تو اکثر لوگ بھول جاتے ہیں کہ یہ اختیارات اللہ کی طرف سے امانت ہیں وہ ان سب کو
⬇️
اپنا کمال اور حق سمجھ بیٹھتے ہیں
میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، ہمارے علاقے کے ایک بااثر انسان نے قتل کر دیا اور اتفاق سے میں وہاں سے چند قدم ہی دور تھا اس نے الزام مجھ پر لگا دیا جھوٹے گواہ بھی تیار کرلیے گئے اور میں یہاں آگیا“
مجھے دکھ سا ہوا،
تمہارے گھر والوں نھ کچھ نہیں کیا ؟
⬇️
گھر والوں نے اپنی سی کوشش کی لیکن وہی بات اس معاشرے میں لوگ بھی ڈر کے مارے اسی کا ساتھ دیتے ہیں جو طاقتور ہو
وہ پھر سے مسکرایا تھا
مجھے اس کے سکون کو دیکھ کر حیرت ہوئی
تمہیں ڈر نہیں لگتا کہ ہو سکتا ہے کچھ دنوں تک تمہیں موت کی سزا سنا دی جائے؟
ان شاء اللہ مجھے کچھ نہیں ہوگا میں
⬇️
نے اس کے آگے اپنی عرضی رکھ دی ہے جس کے سامنے بڑے سے بڑے بادشاہ کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔
اس نے پر یقین لہجے میں جواب دیا
میں نے پھر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا
میں اپنے اللہ کی بات کررہا ہوں، اسے میری بےگناہی کا علم ہے اور وہ مجھے کچھ نہیں ہونے دیگا
اس کےہر لفظ سے محبت ٹپک رہی تھی
⬇️
تمہیں یقین ہے کہ دعا سے کام ہوجائے گا ؟ اگر نہ ہوا تو ؟
میں نے پوچھا۔
جب اس سے مانگا جاتا ہے نا تو پھر شک میں نہیں پڑتے کہ وہ قبول نہیں کرے گا بس سب کچھ اس پر چھوڑ کر انتظار کرتے ہیں۔
اس کے لہجے میں یقین ہی یقین تھا، میں بس اس کے چہرے کو تکتا رہ گیا کہ اس سے پہلے اللہ پر اتنا
⬇️
کامل یقین شاید ہی کسی میں دیکھا ہو۔۔۔
تین دن مزید گزر گئے اس دوران اس کے گھر والے بھی اس سے ملنے آئے تھے وہ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا ماں کا رو رو کر برا حال تھا لیکن اس کے سکون میں کوئی کمی نہیں آئی تھی وہ مسلسل سمجھاتا رہا کہ میں نے اللہ کے سامنے عرضی رلھ دی ہے اسے پتا
⬇️
ہے میں بے گناہ ہوں دیکھ لیجئے گا وہ مجھے کچھ نہیں ہونے دے گا۔
میں نے اللہ پر اتنا یقین اس سے پہلے صرف پڑھا ہی تھا لیکن کبھی نہیں دیکھا تھامیرے دل میں اب اس کیلئے عقیدت کے جذبات پیدا ہونا شروع ہوگئے تھے شاید اللہ کی محبت ہوتی ہی ایسی ہے جو پتھر دل کو بھی پگھلا دیتی ہےپھر جب اسے
⬇️
عدالت میں پیش کیا جانا تھا اس سے ایک دن پہلے ہی عجیب واقعہ ہوا۔
جس شخص نے خود قتل کرکے الزام اس پر لگایا تھا وہ اپنی بیوی اور اکلوتے بچے کے ساتھ گاڑی میں کہیں جا رہا تھا کہ اسے حادثہ پیش آیا جس کے نتیجے میں اس کی بیوی بچہ تو موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے جبکہ اسے شدید زخمی حالت میں
⬇️
ہسپتال منتقل کیا گیا، کافی گھنٹوں بعد ہوش میں آنے پر اسے بیوی بچے کے مرنے کی خبر ملی تو اسکی حالت بگڑ گئی اسی جان کنی کے عالم میں اسےکچھ یاد آیا،اس نے چیخ کر قریب موجود ڈاکٹر کو اس کی ویڈیو بنانے کا کہا، بار بار اصرار پر ڈاکٹر نے نرس کو ویڈیو بنانے کا اشارہ کیا تو اس نے ویڈیو
⬇️
میں بڑی مشکل سے اپنے جرم کا اعتراف کیا اور اس نوجوان کو بیگناہ قرار دیکر ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی اس نے ڈاکٹر سے وعدہ لیا کہ وہ یہ ویڈیو ضرور پولیس سٹیشن لیکر جائے گا، شاید بیوی بچے کے مرنے کے بعد اور اپنی حالت کا علم ہوجانے کے بعد وہ اس گناہ کو ساتھ لے کر مرنا نہیں چاہتا تھا۔
⬇️
ادھر ویڈیو پولیس سٹیشن پہنچی ادھر وہ آدمی مر گیا، آج عدالت میں اس کی پیشی تھی، عدالت کے سامنے اس کی بیگناہی کا ناقابل تردید ثبوت ویڈیو کی شکل میں موجود تھا لہذا اسے باعزت بری کر دیا گیا
میں کمرہ عدالت میں کھڑا گم سم سا سوچ رہا تھا کہ اللہ ان بندوں کی جو صحیح معنوں میں اس پر
⬇️
ایمان لاتے ہیں ان کی ایسے بھی مدد کرسکتا ہے اسکی ہتھکڑیاں کھول دی گئی تھیں ماں روتے ہوئے اس سے لپٹ گئی تھی باپ کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے،آج اس کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے شاید اس وجہ سے کہ اللہ نےاسے ان حالات میں تنہا نہیں چھوڑا تھا اور اسطرح سے اس کی مدد کی تھی جس کا کسی کو
⬇️
وہم و گمان تک نہ تگا اور مجھےیاد ہے مجھ سے ملنے کے بعد جب وہ جانے لگا تھا تو میں نے اسے کہا تھا کہ وہ کوئی ایسی بات بتا کر جائے جسے میں ہمیشہ یاد رکھوں
تو اس کے الفاظ تھے
”اللہ سے بڑھ کر کوئی ہمدرد اور دوست نہیں, جب بھی کوئی مشکل پیش آئے اسی سے مانگیں اور پھر یقین بھی رکھیں کہ
⬇️
وہ ضرور قبول کرے گا، وہ محض کسی سوچ یا تصور کا نام تو ہے نہیں بلکہ وہ تو ایک زندہ حقیقت ہے، وہ اس وقت بھی ہمارے ساتھ ہے شہ رگ سےبھی قریب، وہ ہمیں دیکھتا رہتا ہے کہ مشکل میں ہمارا رد عمل کیا ہوگا اور جو اس سے مانگ کر شک میں نہیں پڑتے، اللہ بھی انھیں کبھی تنہا نہیں چھوڑتا، ایسے
⬇️
طریقوں سے اس کی مدد کرتا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے“
وہ اب واپس جارہا تھا اور مجھے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے میں آج ہی مسلمان ہوا ہوں یا جیسے میں نے آج اپنے اللہ کو پالیا ہے۔

ریٹویٹ ضرور کریں
مجھے فالو کرکے فالو بیک لیں
@Arshe530

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with Arshad Mehmood ( Defender Of Pakistan ) ™®

Arshad Mehmood ( Defender Of Pakistan ) ™® Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @Arshe530

Mar 4
عمران نیازی ماضی و حال کے آئینے میں

نوابزادہ اعظم خان،نواب آف کالا باغ فیملی کےچشم و چراغ تھے، عمران خان کےکلاس فیلو اور جگری یار تھے نوابزادہ اعظم خان اور عمران خان نے یہ دوستی کالج لائف کے بعد بھی خوب نبھائی۔نوابزادہ صاحب عمران خان کو ہر سال اپنے خرچے پر شکار کھیلنے لے جاتے
⬇️
چارعشرے قبل کا واقعہ ہے۔ نوابزادہ اعظم خان نے اپنے جگری یار عمران خان کو شکار پر بلایا شکار کے دوران ہی نوابزادہ صاحب کو دل کا دورہ پڑا اور وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ عمران اپنے جگری دوست کی لاش جنگل میں ہی چھوڑ کر صحت افزا تفریح کیلئے کسی اور طرف نکل گئے شکار جیسی سرگرمی چھوڑ
⬇️
کر دوست کی لاش کے پاس بیٹھنا، ڈیڈ باڈی کو اسکے گھر تک پہنچانا یا بعدازاں جنازہ پڑھنے جیسے بور کام کیلئےخان صاحب کے پاس وقت نہیں تھا۔
مشہور پنجابیATVکمپیئر دلدار پرویز بھٹی،عمران کے لاڈلے دوستوں میں سرفہرست تھے دلدار بھٹی فوت ہو گئے عمران خان اس روز انکی جنازہ گاہ سے صرف 300 گز
⬇️
Read 16 tweets
Mar 3
قدیم روم اور عمران نیازی
معلومات اور چھترول ایکساتھ

قدیم روم میں پیشاب پہ ٹیکس اور پیشاب کا دانت صاف کرنے اور کپڑے دھونے کیلئے استعمال
قدیم روم جسے یورپ کے قدیم عروج کی علامت سمجھا جاتا ہے، اس کے عروج کی حقیقت کیا تھی، وہ اس بات سے ظاہر ہے کہ وہاں پیشاب ٹوتھ پیسٹ اور صابن کے
⬇️
طور پہ استعمال کیا جاتا تھا۔
Pecunia Non Olet’:
یہ جملہ رومی زبان کا ہے اور اس کا معنی ہے کہ رقم کبھی نہیں ڈوبتی آپ سوچ رہے ہوں گے کہ رقم کسطرح نہیں ڈوبتی اور ہر طرف سے پیسہ کسطرح کمایا جاسکتا ہے تو اس کیلئے آپ کو آج سے دو ہزار سال پیچھے تاریخ روم میں جانا پڑے گا۔ آپ کو
⬇️
معلوم ہوگا کہ یہ جملہ رومی شہنشاہ ویسپاسین کا قول ہے جو70 میں روم کا حکمران تھا۔اسےاپنے شاہی معاملات چلانے کیلئے رقم کی ضرورت تھی اور اس نے پیسہ حاصل کرنے کیلئے ہر چیز پہ ٹیکس لگا دیا۔ اس نے ٹیکس بڑھا دیے خواہ عوام دے سکتی تھی یا نہیں دے سکتی تھی مصر پہ بھی جس پہ اس وقت رومی
⬇️
Read 8 tweets
Mar 2
کالکی اوتار

بھارت میں شائع ہونے والی کتاب
کالکی اوتار نے دنیا بھر ہلچل مچادی ہے جسمیں بتایا گیا ہے کہ ہندووں کی مذہبی کتابوں میں جس کالکی اوتار کا تذکرہ ملتا ہے وہ کوئی اور نہیں آخری رسول محمدﷺ بن عبداﷲ ہی ہیں۔اس کتاب کا مصنف اگر کوئی مسلمان ہوتا تو وہ اب تک جیل میں ہوتا
⬇️
اور اس کتاب پر پابندی لگ چکی ہوتی مگر اس کے مصنف ”پنڈت وید پرکاش“ برہمن ہندو ہیں وہ الہ آباد یونیورسٹی سے وابستہ اور سنسکرت زبان کے ماہر، معروف محقق اسکالر ہیں۔
پنڈت وید پرکاش نے کالکی اوتار کی بابت اپنی اس تحقیق کو ملک کے آٹھ مشہور و معروف محقق پنڈتوں کے سامنے پیش کیا۔
⬇️
جو اپنے شعبے میں مستند گرادنے جاتے ہیں ان پنڈتوں نے کتاب کے بغور مطالعے اور تحقیق کے بعد يہ تسلیم کیا ہے کہ کتاب میں پیش کيے گئے حوالے جات مستند اور درست ہیں
برہمن پنڈت ویدپرکاش نے اپنی اس تحقیق کا نام ”کالکی اوتار“ یعنی تمام کائنات کے رہنما رکھا ہے۔ ہندووں کی اہم مذہبی کتب
⬇️
Read 15 tweets
Mar 1
انسانیت ( بہترین انویسٹمنٹ)

ایک ںچہ دس روپے لے کر پلاؤ والے کے پاس آیا، رہڑی پر ٹھہرے ہوئے لڑکے نے چاول دینے سے انکار کر دیا۔ میں کہنے ہی والا تھا کہ بچے کو چاول دے دو باقی پیسے میں دوں گا کہ اتنے میں پلاؤ والا خود آ گیا اور بچے سے دس روپے لے کر اسے بہت پیار سے شاپر
⬇️
میں ڈال کر دیئے۔ میں نے سوال پوچھا:”مہنگائی کے اس دور میں دس روپے کے چاول؟“
کہنے لگے: بچوں کیلئےکیسی مہنگائی؟ بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں میرے پاس پانچ روپے لے کر بھی آتے ہیں اور میں ان بچوں کو بھی انکار نہیں کرتا جب کہ پانچ روپے تو صرف شاپر اور سلاد کے بھی نہیں لیکن ہر جگہ منافع
⬇️
نہیں دیکھا جاتا۔ میں چھوٹی چھوٹی چکن کی بوٹیاں بھی دیگ میں ڈالتا ہوں اور وہ ان بچوں کیلئے ہی ہوتی ہیں جو پانچ یا دس روپے لے کر آتے ہیں۔ وہ چاول کے ساتھ یہ چھوٹی سی بوٹی دیکھ کر جب مسکراتے ہیں تو مجھے لگتا ہے میری نمازیں اب قبول ہوئی ہیں۔ آج کے دور میں امیروں کے بچے پانچ دس
⬇️
Read 5 tweets
Feb 28
جب یورپ میں سر درد کو بدروحوں کا چمٹنا کہا جاتا تھا اور ان بدروحوں کو نکالنے کیلئے چرچ لے جا کر سر میں کیلیں ٹھونکیں جاتی تھی اس وقت مسلمان عراق میں بیٹھے جدید کیمسٹری اور ادویات کی ترقی کی بنیاد رکھ رہے تھے
جہاں ابن سینا ”القانون فی الطب“ کو تحریر کررہا تھا جسے آگے جاکر
⬇️
ایک ہزار سال بعد اکیسویں صدی میں بھی پڑھا جانا تھا، وہیں جابر بن حیان وہ کتاب لکھ رہا تھا جسے اگلے سات سو سال تک کیمسٹری کی بائیبل کا خطاب ملنا تھا، وہ اس وقت ایسا تیزاب (Salphuric acid) بنا رہا تھا، جس کی پیداوار کسی ملک کی صنعتی ترقی کی عکاسی کہلانی تھی،
⬇️
وہیں مسلمان سیاح دنیا گھوم رہے تھے، مسلمان ماہر فلکیات (Astrologist) اپنا حصہ ڈال رہے تھے، کبھی اسپین کو صاف ترین شہر بنا رہے تھے، تو کبھی بغداد کو علم کا گہوارا بنا رہے تھے، تو کہیں نئے علاقے فتح ہورہے تھے،اس ترقی کی وجہ ان کا اپنے نصاب یعنی قرآن و حدیث کی ⬇️
Read 8 tweets
Feb 27
بیچارے یوتھیۓ

دھوبی کی بیوی جس کا نام مَنُوں تھا، ملکہ سلطنت نے پوچھا کہ آج تم اتنی خوش کیوں ہو؟
دھوبن نے کہا کہ آج دَھنُوں پیدا ہوا ہے۔ ملکہ نے اسکی خوشی میں خوش ہوتے ہوئے اسے مٹھائی پیش کرتے ہو کہا، ما شاء اللہ
دَھنُوں کی پیدائش کی خوشی میں کھاؤ۔ اتنے میں بادشاہ بھی کمرے
⬇️
میں داخل ہوا، ملکہ کو خوش دیکھ کر پوچھا: آج آپ اتنی خوش کیوں ہیں کوئی خاص وجہ ہے؟
ملکہ نے کہا: سلطان یہ لیں مٹھائی کھائیں, آج دَھنُوں پیدا ہوا ہے اس لیئے خوشی کے موقع پہ خوش ہونا چاہیے۔بادشاہ کو بیوی سے بڑی محبت تھی, بادشاہ نے دربان کو کہا کہ مٹھائی ہمارے پیچھے پیچھے لے آؤ۔
⬇️
بادشاہ باہر دربار میں آیا تو بہت خوش تھا۔ وزیروں نے جب بادشاہ کو خوش دیکھا تو واہ واہ کی آوازیں گونجنے لگی، ظلِ الہٰی مزید خوش ہوئے اور کہا سبکو مٹھائی بانٹ دو
مٹھائی کھاتے ہوئے بادشاہ سے وزیر نے پوچھا! بادشاہ سلامت! یہ مٹھائی آج کس خوشی میں آئی ہے؟
بادشاہ نے کہا: کہ آج دھنوں
⬇️
Read 8 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Don't want to be a Premium member but still want to support us?

Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal

Or Donate anonymously using crypto!

Ethereum

0xfe58350B80634f60Fa6Dc149a72b4DFbc17D341E copy

Bitcoin

3ATGMxNzCUFzxpMCHL5sWSt4DVtS8UqXpi copy

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!

:(