نوابزادہ اعظم خان،نواب آف کالا باغ فیملی کےچشم و چراغ تھے، عمران خان کےکلاس فیلو اور جگری یار تھے نوابزادہ اعظم خان اور عمران خان نے یہ دوستی کالج لائف کے بعد بھی خوب نبھائی۔نوابزادہ صاحب عمران خان کو ہر سال اپنے خرچے پر شکار کھیلنے لے جاتے
⬇️
چارعشرے قبل کا واقعہ ہے۔ نوابزادہ اعظم خان نے اپنے جگری یار عمران خان کو شکار پر بلایا شکار کے دوران ہی نوابزادہ صاحب کو دل کا دورہ پڑا اور وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ عمران اپنے جگری دوست کی لاش جنگل میں ہی چھوڑ کر صحت افزا تفریح کیلئے کسی اور طرف نکل گئے شکار جیسی سرگرمی چھوڑ
⬇️
کر دوست کی لاش کے پاس بیٹھنا، ڈیڈ باڈی کو اسکے گھر تک پہنچانا یا بعدازاں جنازہ پڑھنے جیسے بور کام کیلئےخان صاحب کے پاس وقت نہیں تھا۔
مشہور پنجابیATVکمپیئر دلدار پرویز بھٹی،عمران کے لاڈلے دوستوں میں سرفہرست تھے دلدار بھٹی فوت ہو گئے عمران خان اس روز انکی جنازہ گاہ سے صرف 300 گز
⬇️
کے فاصلے پر موجود تھے دوست کی لاش کو کندھا دیا نہ نماز جنازہ پڑھنے کا تکلف کیا۔
90کی دہائی کے وسط میں عمران نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ کرکٹ کے دور کےانکے کچھ پرستاروں کے علاوہ کوئی انکا ساتھ دینے کو تیار نہ ہوا۔سیاسی قد کاٹھ والی شخصیات تو درکنار یونین کونسل کا کوئی چیئرمین
⬇️
یا ممبر لیول کا آدمی بھی جماعت میں شامل ہونے کو تیار نہ ہوا ایسی لاچارگی کے عالم میں عمران خان کے ایک پرانے دوست نعیم الحق نے عمران کا ہاتھ تھاما اور پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔نعیم الحق نے اپنا وقت اور عمر بھر کی جمع پونجھی اپنے دوست عمران کی جھولی میں ڈال دی۔2018 کے الیکشن میں
⬇️
پارٹی کے الیکشن بورڈ نے کراچی کے ایک حلقے سے نعیم الحق کو پارٹی ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا۔ نعیم الحق نے یہ کہہ کر الیکشن لڑنے سے انکار کر دیا کہ انکے پاس الیکشن لڑنے کیلئے پیسے نہیں ہیں کیونکہ وہ اپنی جمع پونجی تحریک انصاف کی بنیادوں میں دفن کر چکے ہیں نعیم الحق کا یہ جواب یقیناً
⬇️
انکے دوست عمران کے کانوں تک بھی پہنچا ہوگا۔ عمران نیازی اپنے اربوں کے سرمائے میں سے کروڑ، آدھا کروڑ نعیم الحق کو دے دیتے تو وہ غربت کی وجہ سے الیکشن سے باہر نہ ھوتے۔
دو سال پہلے اسی نعیم الحق کا انتقال ہوگیا عمران ان کا چہرہ دیکھنے اور نہ جنازہ پڑھنے گئے بعد میں انہوں نے اپنے
⬇️
سیکریٹری سے نعیم الحق کے لواحقین کو فون کروا کر بنی گالہ طلب کروا لیا تاکہ وزیراعظم پاکستان ان سے تعزیت کر سکیں لواحقین کو اسلام آباد طلب کرنے کی خبر جب پارٹی کارکنوں اور دیگر قیادت تک پہنچی تو انہوں نے دانتوں تلے انگلیاں دبا دیں اور عمران کی اس حرکت پر احتجاج شروع کردیا لیکن
⬇️
لواحقین کو تعزیت بنی گالہ آ کر ہی وصول کرنی پڑی۔
کسی دور میں عمران، نوازشریف کے مریدہواکرتے تھے۔انھوں نے بطور وزیر اعلیٰ نوازشریف سے یہ درخواست کرکے ایک پلاٹ لیا کہ سائل ایک بے گھر آدمی ہے عمران نے میاں صاحب سے شوکت خانم ہسپتال کیلئے ناصرف اراضی منظور کرائی بلکہ ان سے چندے کی
⬇️
مد میں50کروڑ کی رقم بھی اینٹھی۔
مشرف کے اقتدار مے اوائل میں نیازی صاحب مشرف کھ بڑے فرمانبردار مرید بن گئے تھے لیکن جب مشرف سے انہوں نے قومی اسمبلی کی90سے 100سیٹیں مانگی تو جنرل صاحب کا ہاسا نکل گیا اور یہیں سے مشرف بھی برے ہو گئے۔آجکل نواز شریف اور مشرف کے متعلق عمران کے کیا
⬇️
عقائد ہیں کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ پچھلے چند سال سے اگر عمران اپنے کسی دوست یا عزیز کے نماز جنازہ میں شریک ہوئے ہوں تو مجھے مطلع کر کے شکریہ کا موقع دیں لیکن اپوزیشن کےلانگ مارچ اور عدم اعتماد کی شُرلی نے رشتوں سے کٹے عمران خان کو دو دن میں سوشل کر دیا۔ دو دنوں میں وہ دو مرتبہ
⬇️
جہانگیرترین کی خیرخیریت دریافت کرچکے ہیں، انہیں جہانگیر ترین کی صحت کی فکر سونے نہیں دیتی۔ پرویزالٰہی اورMQMتو کسی گنتی میں آتےہی نہیں یہاں توPTI کےاپنے اراکین پارلیمینٹ کو شکوہ ہے کہ وہ تین سال سے عمران سے ایک ملاقات کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا چکے ہیں لیکن دِلی ہنوز دور است !
⬇️
گذشتہ دو دنوں سے خان صاحب MQM اراکین سے ملنے کو بیتاب ہیں۔ وہ شخص جو ڈاکٹر قدیر, نعیم الحق اور دلدار بھٹی سےنوابزادہ اعظم خان تک سانسیں نکلنےکےبعد تعلق نہ نبھا سکا وہ گذشتہ روز زندہ چوہدری شجاعت کی تیمارداری کیلئےانکے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔ چوہدری شجاعت نے جب عمران کو
⬇️
بیٹھنے کا اشارہ کیا تو بیٹھتے ہوئے انہوں نے پاس موجود پرویز الٰہی کو سرگوشی کی کہ اگر میرے خلاف عدم اعتماد کا حصہ بنے تو میں آپکو پھر سے پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہنا شروع کر دوں گا۔
آج میری نظر جب چوہدری شجاعت کے سامنے ہاتھ باندھے عمران خان پر پڑی تو میرا جسم کانپنا شروع ہوگیا
⬇️
مجھے خان صاحب کا 29 سال قبل دیا گیا وہ انٹرویو یاد آ گیا کہ ”میں سیاست میں کبھی نہیں آوں گا، میں سیاست پر لعنت بھیجتا ہوں، مجھے عجیب لگتا ہے کہ میں سیاست میں آ کر دو دو ٹکے کے لوگوں سے ووٹ کی بھیک مانگوں“
مجھے نہیں پتہ کہ سیاست میں دو دو ٹکے کے لوگوں کی چاپلوسی کرنی پڑتی ہے یا
⬇️
نہیں لیکن اتنا معلوم ہو چکا ہے کہ سیاست عمران نیازی جیسے نان سوشل آدمی کو بھی 48 گھنٹوں کے اندر مکمل طور پر سوشل بنا سکتی ہے۔۔
منقول: ”سردار منیر ایڈووکیٹ“
ریٹویٹ ضرور کریں
مجھے فالو کرکے فالو بیک لیں @Arshe530
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
حوالاجات کی سلاخوں کےپیچھے سے میں اسےنماز پڑھتا دیکھ رہا تھا وہ 25 ,26سال کاخوبصورت نوجوان قتل کے مقدمے میں دو دن پہلے ہی یہاں لایا گیا تھاچند عدالتی کاروائی کےبعد اسےجیل منتقل کیاجانا تھا اس کےخلاف کیس کافی مضبوط تھا اس لیےگمان غالب تھا کہ ایک دو پیشیوں کے بعد ہی
⬇️
اسے سزائے موت سنا دی جائے گی
میں ایک پولیس والا ہوں اور پہلے دن سے ہی میرا رویہ اور لہجہ اس کے ساتھ کافی سخت رہا تھا لیکن اس کے لبوں پر ہمیشہ ایک دل موہ لینے والی مسکراہٹ ہوتی تھی اور ہمیشہ وہ مجھے بڑا سمجھتےہوئے ادب سے اور نرم لہجےمیں بات کرتا تھا مجھ جیسا سخت انسان بھی دو دن
⬇️
میں ہی اس کے اچھے اخلاق کے سامنے ہار گیا تھا
اب وہ سلام پھیرنے کے بعد دعا مانگ رہا تھا میں اسے دیکھتا ہی رہ گیا وہ اس طرح خشوع و خضوع سے دعا مانگ رہا تھا کہ یوں لگتا تھا جیسے وہ جس سے مانگ رہا ہے وہ اس کے بالکل سامنے بیٹھا ہو
دعا کے بعد اسکی نظر مجھ پر پڑی تو اس کے لبوں پر پھر
⬇️
قدیم روم اور عمران نیازی
معلومات اور چھترول ایکساتھ
قدیم روم میں پیشاب پہ ٹیکس اور پیشاب کا دانت صاف کرنے اور کپڑے دھونے کیلئے استعمال
قدیم روم جسے یورپ کے قدیم عروج کی علامت سمجھا جاتا ہے، اس کے عروج کی حقیقت کیا تھی، وہ اس بات سے ظاہر ہے کہ وہاں پیشاب ٹوتھ پیسٹ اور صابن کے
⬇️
طور پہ استعمال کیا جاتا تھا۔
Pecunia Non Olet’:
یہ جملہ رومی زبان کا ہے اور اس کا معنی ہے کہ رقم کبھی نہیں ڈوبتی آپ سوچ رہے ہوں گے کہ رقم کسطرح نہیں ڈوبتی اور ہر طرف سے پیسہ کسطرح کمایا جاسکتا ہے تو اس کیلئے آپ کو آج سے دو ہزار سال پیچھے تاریخ روم میں جانا پڑے گا۔ آپ کو
⬇️
معلوم ہوگا کہ یہ جملہ رومی شہنشاہ ویسپاسین کا قول ہے جو70 میں روم کا حکمران تھا۔اسےاپنے شاہی معاملات چلانے کیلئے رقم کی ضرورت تھی اور اس نے پیسہ حاصل کرنے کیلئے ہر چیز پہ ٹیکس لگا دیا۔ اس نے ٹیکس بڑھا دیے خواہ عوام دے سکتی تھی یا نہیں دے سکتی تھی مصر پہ بھی جس پہ اس وقت رومی
⬇️
بھارت میں شائع ہونے والی کتاب
کالکی اوتار نے دنیا بھر ہلچل مچادی ہے جسمیں بتایا گیا ہے کہ ہندووں کی مذہبی کتابوں میں جس کالکی اوتار کا تذکرہ ملتا ہے وہ کوئی اور نہیں آخری رسول محمدﷺ بن عبداﷲ ہی ہیں۔اس کتاب کا مصنف اگر کوئی مسلمان ہوتا تو وہ اب تک جیل میں ہوتا
⬇️
اور اس کتاب پر پابندی لگ چکی ہوتی مگر اس کے مصنف ”پنڈت وید پرکاش“ برہمن ہندو ہیں وہ الہ آباد یونیورسٹی سے وابستہ اور سنسکرت زبان کے ماہر، معروف محقق اسکالر ہیں۔
پنڈت وید پرکاش نے کالکی اوتار کی بابت اپنی اس تحقیق کو ملک کے آٹھ مشہور و معروف محقق پنڈتوں کے سامنے پیش کیا۔
⬇️
جو اپنے شعبے میں مستند گرادنے جاتے ہیں ان پنڈتوں نے کتاب کے بغور مطالعے اور تحقیق کے بعد يہ تسلیم کیا ہے کہ کتاب میں پیش کيے گئے حوالے جات مستند اور درست ہیں
برہمن پنڈت ویدپرکاش نے اپنی اس تحقیق کا نام ”کالکی اوتار“ یعنی تمام کائنات کے رہنما رکھا ہے۔ ہندووں کی اہم مذہبی کتب
⬇️
ایک ںچہ دس روپے لے کر پلاؤ والے کے پاس آیا، رہڑی پر ٹھہرے ہوئے لڑکے نے چاول دینے سے انکار کر دیا۔ میں کہنے ہی والا تھا کہ بچے کو چاول دے دو باقی پیسے میں دوں گا کہ اتنے میں پلاؤ والا خود آ گیا اور بچے سے دس روپے لے کر اسے بہت پیار سے شاپر
⬇️
میں ڈال کر دیئے۔ میں نے سوال پوچھا:”مہنگائی کے اس دور میں دس روپے کے چاول؟“
کہنے لگے: بچوں کیلئےکیسی مہنگائی؟ بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں میرے پاس پانچ روپے لے کر بھی آتے ہیں اور میں ان بچوں کو بھی انکار نہیں کرتا جب کہ پانچ روپے تو صرف شاپر اور سلاد کے بھی نہیں لیکن ہر جگہ منافع
⬇️
نہیں دیکھا جاتا۔ میں چھوٹی چھوٹی چکن کی بوٹیاں بھی دیگ میں ڈالتا ہوں اور وہ ان بچوں کیلئے ہی ہوتی ہیں جو پانچ یا دس روپے لے کر آتے ہیں۔ وہ چاول کے ساتھ یہ چھوٹی سی بوٹی دیکھ کر جب مسکراتے ہیں تو مجھے لگتا ہے میری نمازیں اب قبول ہوئی ہیں۔ آج کے دور میں امیروں کے بچے پانچ دس
⬇️
جب یورپ میں سر درد کو بدروحوں کا چمٹنا کہا جاتا تھا اور ان بدروحوں کو نکالنے کیلئے چرچ لے جا کر سر میں کیلیں ٹھونکیں جاتی تھی اس وقت مسلمان عراق میں بیٹھے جدید کیمسٹری اور ادویات کی ترقی کی بنیاد رکھ رہے تھے
جہاں ابن سینا ”القانون فی الطب“ کو تحریر کررہا تھا جسے آگے جاکر
⬇️
ایک ہزار سال بعد اکیسویں صدی میں بھی پڑھا جانا تھا، وہیں جابر بن حیان وہ کتاب لکھ رہا تھا جسے اگلے سات سو سال تک کیمسٹری کی بائیبل کا خطاب ملنا تھا، وہ اس وقت ایسا تیزاب (Salphuric acid) بنا رہا تھا، جس کی پیداوار کسی ملک کی صنعتی ترقی کی عکاسی کہلانی تھی،
⬇️
وہیں مسلمان سیاح دنیا گھوم رہے تھے، مسلمان ماہر فلکیات (Astrologist) اپنا حصہ ڈال رہے تھے، کبھی اسپین کو صاف ترین شہر بنا رہے تھے، تو کبھی بغداد کو علم کا گہوارا بنا رہے تھے، تو کہیں نئے علاقے فتح ہورہے تھے،اس ترقی کی وجہ ان کا اپنے نصاب یعنی قرآن و حدیث کی ⬇️
دھوبی کی بیوی جس کا نام مَنُوں تھا، ملکہ سلطنت نے پوچھا کہ آج تم اتنی خوش کیوں ہو؟
دھوبن نے کہا کہ آج دَھنُوں پیدا ہوا ہے۔ ملکہ نے اسکی خوشی میں خوش ہوتے ہوئے اسے مٹھائی پیش کرتے ہو کہا، ما شاء اللہ
دَھنُوں کی پیدائش کی خوشی میں کھاؤ۔ اتنے میں بادشاہ بھی کمرے
⬇️
میں داخل ہوا، ملکہ کو خوش دیکھ کر پوچھا: آج آپ اتنی خوش کیوں ہیں کوئی خاص وجہ ہے؟
ملکہ نے کہا: سلطان یہ لیں مٹھائی کھائیں, آج دَھنُوں پیدا ہوا ہے اس لیئے خوشی کے موقع پہ خوش ہونا چاہیے۔بادشاہ کو بیوی سے بڑی محبت تھی, بادشاہ نے دربان کو کہا کہ مٹھائی ہمارے پیچھے پیچھے لے آؤ۔
⬇️
بادشاہ باہر دربار میں آیا تو بہت خوش تھا۔ وزیروں نے جب بادشاہ کو خوش دیکھا تو واہ واہ کی آوازیں گونجنے لگی، ظلِ الہٰی مزید خوش ہوئے اور کہا سبکو مٹھائی بانٹ دو
مٹھائی کھاتے ہوئے بادشاہ سے وزیر نے پوچھا! بادشاہ سلامت! یہ مٹھائی آج کس خوشی میں آئی ہے؟
بادشاہ نے کہا: کہ آج دھنوں
⬇️