بلوچستان پاکستان کے کل رقبےکا 43 فیصد ہے آبادی 4۔1 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ زمین قابل کاشت ہے لیکن پانی نہ ہونیکی وجہ سے ہر2سال بعد خشک سالی کا سامناکرناپڑتاہے۔ قدرت کی بے شمار نعمتوں کےباوجود لوگ انتہائی پسماندگی کی زندگی گزار رہے ہیں۔👇
سالانہ 1کروڑ 30 لاکھ ایکڑ فٹ پانی کے برابربارش ہوتی ہے یہ مقدار دو تربیلا ڈیمز کے برابر ہے۔لیکن اس میں سے صرف37 فیصد پانی محفوظ کرنیکی گنجائش ہے۔ 63 فیصد پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں 200 ڈیمز کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا۔ تاہم منصوبے کو جلد حقیقت کا روپ دینےکے لئے👇
تعداد100 تک محدودکردی گئی۔ کمزور سیاسی اور خراب سیکورٹی حالات کیوجہ سے منصوبہ تاخیر کا شکار ہوگیا۔پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس منصوبے پر عملی کام آغاز کیا۔ ڈیمز کی تعمیر کو 5 فیز میں تقسیم کیا گیا۔
پہلا فیز 20 ڈیمز پر مشتمل تھا جس پرکام کا آغاز2009 ہوا جو 2015 میں 2.4 ارب روپے کی👇
لاگت سے مکمل ہواجس سے44000 ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنیکی قابلیت پیدا ہونے26000 ایکڑ رقبہ قابل کاشت بنا۔
فیز 2 میں26 ڈیمز کی تعمیرکا آغاز2013 میں ہوا جو 2 سال کی تاخیر سے2020 میں 4.8 ارب روپے کی لاگت سے مکمل ہوا۔ ان ڈیمز کی گنجائش 78000 ایکڑ فٹ ہےجس سے24000ایکڑرقبہ سیراب ہورہاہے۔👇
فیز 3 کے تحت 20 ڈیمز کی تعمیر کا آغاز2018 میں ہوا جو 8۔8 ارب روپے کی لاگت کا منصوبہ ہے۔ ابتک 18 ڈٰیمز مکمل ہوچکے ہیں۔ جبکہ بقیہ 2 بھی رواں برس مکمل ہوجائیںگے۔ ان ڈیمز کی پانی ذخیرہ کرنیکی مجموعی گنجائش 2 لاکھ ایکڑ فٹ ہے۔جبکہ58000 ایکڑ رقبہ سیراب ہورہاہے👇
فیز 4 کے تحت 23 اور5 میں 11 ڈیمز بننے ہیں۔ فیز 4 حتمی منظوری کے لئے پیش کردیا گیا ہے جبکہ 5 کی اسوقت فزیبیلٹی جاری ہے۔ 100 ڈیمز میں سے ابتک 64 مکمل ہوچکے ہیں۔ جس سے 500 سے زائد روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں بلکہ جو لوگ خشک سالی کیوجہ سے نقل مکانی کرچکے تھے وہ واپس اپنے گھروں کو👇
لوٹ رہے ہیں۔ BBC اردو نے مشکل حالات کے باوجود کام کرنیوالے اسٹاف کو خراج تحسین پیش کیا۔ ڈیمز کی مکمل تفصیلات Google سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔
بلوچستان کو خوشحال بنانےکاجنرل مشرف کا یہ احسن اقدام تھا جسے آنیوالی تمام وفاقی/صوبائی حکومتیں تمام تر مشکلات کے باوجود جاری رکھےہوئےہیں۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
صدر مملکت نے ورچول تقریب کے ذریعے دنیا کی دوسری بڑی سمارٹ فونز بنانیوالی کمپنی Xiaomi کے مینوفیکچرنگ پلانٹ کا افتتاح کردیا ہے. لاہور میں کوٹ لکھپت کے مقام پر یہ پلانٹ 400 ملین ڈالرز کی لاگت سے مختلف فیزز میں مکمل ہوگا. فیز 1 👇
میں کمپنی ماہانہ 4 لاکھ موبائل بناے گی جسے رواں سال کے اختتام تک ساڑھے 5 لاکھ تک لے جایا جائے گا. جبکہ 2023 سے سالانہ پیداوار 30 لاکھ ہوگی.30 لاکھ میں سے 10 لاکھ سے زائد برآمد کئے جائیں گے. کمپنی نے 3 ہزار پاکستانیوں کو روزگار دیاہے. یہ چینی نیشنل کمپنی اسوقت دنیا کی دوسری بڑی 👇
سمارٹ فون اور 500 بڑی کمپنیوں میں 334 ویں نمبر پر ہے. گزشتہ برس اس نے 19 کروڑ سمارٹ فونز بناے تھے. پاکستان میں اس کمپنی کا آنا نہائت ہی خوشی کا باعث ہے. انشاء اللہ یہ کمپنی میڈ ان پاکستان سمارٹ فونز کی مہم کو چار چاند لگاے گی. موجودہ حکومت نے 2019میں پہلی موبائل پالیسی منظور سے👇
سیمی کنڈکٹر کی عالمی تجارت کاحجم 500 بلین ڈالر سے زائدہے. تائیوان چین جاپان جنوبی کوریا ملائشیا اور امریکہ مینوفیکچرز ہیں. اکیلا تائیوان کل پیداوار کا 80 فیصد بناتا ہے. امریکہ اور چین کے درمیان تائیوان پر اختلاف کی اصل وجہ سیمی کنڈکٹر انڈسٹری پر قبضہ رکھناہے👇
کیونکہ دونوں ممالک الیکٹرانک ڈیوائسز کے میجر پروڈیوسر ہیں. جبکہ ہر الیکٹرانک ڈیوائس سیمی کنڈکٹر کی محتاج ہے. افغانستان میں سیمی کنڈکٹر میں استعمال ہونے والے لیتھئم کے پہاڑوں کی گنتی کرنا مشکل ہے. اگر وہاں حالات نارمل ہوجائیں تو افغانستان دنیا کا اگلا تائیوان بن سکتا ہے. چین 👇
اور پاکستان انہی کوششوں میں مصروف ہیں. وزیراعظم پاکستان کے حالیہ دورے میں چینی کمپنی گلوبل سیمی کنڈکٹر کا 40 ملین کی لاگت سے پاکستان میں سیمی کنڈکٹر ٹیسٹنگ سینٹر قائم کرنے کے ساتھ ساتھ افرادی قوت تیار کرنیکا معاہدہ کرنا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے. چونکہ پاکستان بھی موبائل فون 👇
1. چائینہ مشینری انجنئرنگ کارپوریشن حکومتی سطح پر پاکستان میں ایگریکلچرل سائنس و ٹیکنالوجی سینٹر قائم کریگا. جہاں فصلوں کی پیداوار بڑھانےسمیت بیج کوبہتر بنانے پر کام کیا جائےگا. جبکہ اسی کمپنی نے LNG ٹرمینل لگانےبھی میں دلچسپی ظاہر کی ہے👇
2. یہی کمپنی گوادر فری زون میں پیپر اور میٹل کا پراسسنگ اور ری سائیکلنگ پارک قائم کریگی. جو برآمدی مقاصد کیلئے ہوگا. 4.5 بلین ڈالر کا یہ منصوبہ 2 سے 3 سال میں کام شروع کردیگا. 40 ہزار افراد کو روزگار ملےگا.
3. زینگ بینگ گروپ فوجی فرٹیلائزر کے ساتھ ملکر حیوانات اور پولٹری فیڈ👇
کی پیداوار پر کام کریگا. جبکہ مکئی اور سویابین کی پیداوار بڑھانے کیلئے اقدامات بھی اٹھائے جائیں گے.
4. رائل گروپ 50 ملین ڈالرز کی لاگت سے بڑے پیمانےپر 4 ڈیری فارمز بناےگا. جن میں 80 ہزار بھینسوں سے سالانہ 16 ملین لیٹر دودھ حاصل ہوگا. جبکہ بھینسوں کی بیماریوں پر تحقیق بھی ہوگی.👇
جیوجیکل سروے آف پاکستان نے 1991 میں بتایا کہ تھرپارکر میں 9 ہزار مربع کلومیٹر پر کوئلے کے ذخائر ہیں. حجم 175 ارب ٹن لگایا گیا. جو سعودی عرب اور ایران کے تیل کے مجموعی ذخائر کے برابر ہیں. یہ اتنی بڑی مقدار ہے کہ اس سے 👇
300سال تک 1 لاکھ میگاواٹ بجلی پیداکی جاسکتی ہے. یہ دنیا کے 29 ویں بڑے ذخائر ہیں. لیکن حکمرانوں کی نااہلی دیکھئےکہ ہم3000سے زائد MW کے حامل کوئلے کے پلانٹس اور سیمنٹ کی ضرورت پوری کرنیکےلئےسالانہ2 ارب ڈالرکا کوئلہ امپورٹ کرتےہیں. دنیاکی باتوں پر اعتبارکیاکہ ہمارا کوئلہ ناقص ہے👇
بی بی شہید کی بڑی خواہش تھی کہ تھر کے کوئلے کو ٹیسٹ کیا جائے جوحقیقت نہ بن سکی. 2008 میں سندھ کی صوبائی حکومت نے ذخائر کو 12 بلاکس میں تقسیم کیا اور ابتدائی طور پر 4 کی نیلامی کا عمل شروع کیا. 2012 میں جب بجلی کا شارٹ فال 6 ہزار MW تک پہنچ گیا توسندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی نے👇
وزارت خزانہ نے دنیا کی بہترین کنسلٹنٹ کمپنی انٹرنیشنل ائیر ٹرانسپورٹ اتھارٹی IATA کو PIA کا خسارہ ختم کرکے منافع بخش بنانے کا پلان ترتیب دینے کی درخواست کی تھی جسے کمپنی نے تیار کرکے منظوری کے لئے فنانس ڈویژن کو بھجوا دیا ہے. اس 5 سالہ 👇
کے مطابق 2024 سے ادارہ منافع بخش ہوجاے گا. 1. جہازوں کی موجودہ تعدادکو 29 سے بڑھا کر 49 کیا جائے گا. جس میں 16 بڑے 27 چھوٹے جبکہ 6 ٹربو ٹیکنالوجی کے حامل ہونگے.
2. مسافروں کی سالانہ تعداد 5 ملین سے بڑھکر 9 ملین ہوجائیگی. ادارے کے اثاثے 1.1 بلین سے بڑھ کر 2.8 بلین ہوجائینگے.👇
3. 10 سے زائد نئے روٹس پر فلائٹ چلائی جائینگی. ہفتہ وار فلائٹس کی تعداد 359 سے بڑھکر 581 ہوجائیگی. سالانہ ریونیو 1.7 بلین ڈالرہوجائیگا.
4. کارگو فلائٹس کا دائرہ کار بھی بڑھایا جائے گا.
کمپنی کے مطابق پلان تبھی کامیاب ہوگا جب حکومت پاکستان مندرجات پر نیک نیتی سے عمل کریگی.👇
پشاور تا کراچی 1772 کلومیٹر نیا 2 طرفہ ریلوے ٹریک بنناہے. 3 ہزار سے زائد اسٹیشنز بھی اپ گریڈ ہونے ہیں. منصوبے کا نام ML1 ہے. اسکی تکمیل سے ٹرین کی رفتار 60 سے 160 کلومیٹر فی گھنٹہ ہونے سےلاہور تا کراچی کا سفر 6 سے 7 گھنٹےکاہوجاےگا👇
سی پیک کے تحت اس منصوبے کی لاگت گزشتہ دور حکومت میں 9.1 بلین ڈالر بتائی گئی. جسکا موجودہ حکومت نے ازسر نو جائزہ لیا تو لاگت 6.8 بلین ڈالر سامنے آئی. چناچہ چین کے ساتھ دوبارہ مذاکرات شروع ہوے. دونوں ممالک اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے. تاہم دسویں اجلاس میں چین نے نئی لاگت کو تسلیم 👇
کرلیا. اب وزیراعظم کے دورہ چین میں قرض کی جلد فراہمی سمیت درج ذیل شرائط پر بات چیت ہوگی.
پاکستان سود کی شرح ایک فیصد جبکہ چین 2.8 فیصد چاہتا ہے.
چین قرض کی مدت 15 سال جبکہ پاکستان 25 سال تک رکھنا چاہتا ہے.
چین تمام رقم اپنی کرنسی جبکہ پاکستان 50 فیصد ڈالرز میں لیناچاہتاہے👇