تاریخ آکسفورڈ (Oxford History)__800ء
شہر یا جامعہ؟
شہر بھی جامعہ بھی بلکہ خانقاہ بھی
آکسفورڈ نام ھے ایک خانقاہ سےورلڈ نمبرون جامعہ بننےکےسفرکا
آکسفورڈ یونیورسٹی مذہبی اورسیاسی سرگرمیوں کا اکھاڑہ تھی۔ برطانیہ کےشہر لندن سے56 میل کی دوری پرواقع آکسفورڈ برطانوی شہر #British #History
اور اس میں واقع یونیورسٹی جسے شہر کی مناسبت سے ہی آکسفورڈ نام دیا گیا۔
آٹھویں صدی میں ایک خانقاہ سے منسلک سینٹ وائیڈ کا کلیسا آکسفورڈ میں بنایا گیا۔مٹی کے برتن، بُنائی اور ٹیننگ ابتدائی آکسفورڈ کے اصل کاروبار تھے تاھم علماء کے علاؤہ زمیندار، پتھر بنانے والے، کاغذ بنانے والے، کتاب
ساز، کاتب، پرنٹرز، درزی اور موچی بنانے والے بھی یہاں آنا شروع ھوئے۔
جامعہ کا باقاعدہ قیام 1096ء میں عمل میں لایا گیا۔ 12رہویں صدی میں علماء اور عوام کی لڑائی، خونریزی سے عدالت کو قانونی پیچیدگیوں کاسامنا کرنا پڑا اور یہی جامعہ کے عروج کا دور تھا۔
1530میں مذہبی بغاوت اور خانہ جنگی
سے خانقاہ کے کانونٹس (Convents) تباہ ھو گئے۔
آکسفورڈ مذہبی اور سیاسی تنازعات کا شکار رہی، لائبریریز توری گئیں، کتابیں بیچی گئیں اور تباہ کی گئیں۔
1642-49 میں برطانوی سول وار کے دوران اسکی reformation کی گئی۔
18رویں صدی میں Popsاور سیاسی جھگڑوں میں آکسفورڈ نےنمایاں کردار ادا کیا۔
1586 میں یونیورسٹی کو کتابیں چھاپنے کا استحقاق دیا گیا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس اب دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی پریس ھے۔
آکسفورڈ کے پاس حیران کن طلباء کی فہرست ھے جن میں 58 نوبل پرائز ونر (جنہوں نے جامعہ سے پڑھا یا پڑھایا), 27 برطانوی وزرائے اعظم اور بےشمار ادبی و فنون لطیفہ کی اھم
شخصیات ہیں۔
یہ دنیا کی وہ واحد درسگاہ ھے جس نے پہلے دن سے آج تک اپنا تعلیمی برقرار رکھا ھوا ھے۔ یہ آج بھی دنیا کی نمبرون یونیورسٹی ھے۔
#لاھورنامہ
#Heritage
#Sikhs
#ਪੰਜਾਬ
سردارجوالاسنگھ حویلی (پڈھانہ لاھور، پنجاب)
Sardar Jwala Singh Haveli (Padhana, #Pakistan)
نانک شاہی چھوٹی اینٹ سےتعمیرشدہ جوالا سنگھ حویلی کےکھنڈرات لاھور کےمضافات میں پاک-بھارت سرحد پر واقع پڈھانہ نامی گاؤں میں ایک ایکڑ رقبےپر اپنےپر پھیلانےہیں
300سالہ پرانایہ مینشن پدھانہ سکھ سرداروں کےفخر اور جٹ برادری کےسپوت سردار جوالاسنگھ سندھو کی یادگارھےجو جٹ پنجاب کے قدیم ترین سرداروں میں سے ایک تھا۔
حویلی کا راستہ تھوڑامشکل ھے۔
حویلی اپنے وقتوں میں رہائشی کوارٹرز کا ایک کمپلیکس اورمجسٹریٹ کی عدالت ھوا کرتی تھی۔
حویلی کافن تعمیر
اور ڈیزائن مغل اور سکھوں سے متاثر ھے۔ اندازہ کریں کہ حویلی کے تین منزلہ ڈھانچےکے اندر کچھ جگہیں ملبے کے "Dump Yard" کے طور پر استعمال ھو رہی ہیں۔. اینٹوں سےبنی عمارتیں کثیرالمنزلہ عمارت کوسمیٹے ھوئے ھے۔
جوالا سنگھ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا قابل اعتماد ساتھی اور رشتے میں سالا تھا یعنی
#HistoryBuff
#Geology
ایمپوننگ (Mponeng)
دنیا کی سب سےگہری سونے کی کان (گوتنگ جوہانسبرگ، جنوبی افریقہ)
World's Deepest Gold Mine (City Gauteng Johannesburg, South Africa)
ایمپوننگ__جنوبی افریقہ میں سونے کےذخائر سے بھری ایک سرنگ
سرنگوں کےبارے میں یہ خیال کیاجاتا ھےکہ یہ خام ڈھانچے
لکڑی کے شہتیروں سے بنی ھوں گی اور گیس کی لالٹینوں سے روشن ھوں گے لیکن گوتنگ میں واقع ایمپوننگ سرنگ چندھیا دینے والی چمک اوڑھے ھے۔
ایمپوننگ دنیاکاسب سے گہرا زیرزمین لیول شافت ھے جس کی گہرائی ڈیٹم سے3891 میٹر اور سطح سمندر سے2062 میٹرنیچےھے۔ کان کی کہانی 1986میں شروع ھوئی۔
ایمپوننگ
جس کے زیرزمین elevators کی لمبائی چار برس خلیفہ (دبئی) سے زیادہ ھے اور دیواریں مضبوط کنکریٹ سے بنی ھوئی ہیں۔
ایمپونینگ سونے کی کان کی عمودی گہرائی 2.5 میل سے زیادہ ھے۔ کان کے سب سے نچلے حصے تک پیدل سفر کیاجاتا ھے جس میں نیچے کا سفر مکمل ہونے میں ایک گھنٹے سےزیادہ کا وقت لگتا ھے۔
#HistoryBuff
#Mughal
#architecture
ادھورےخواب____
تاج محل،بادشاہی مسجد، ہرن مینار
مغل بادشاہوں کےوہ نادر،تعمیراتی سچےخواب ہیں جن کاحقیقت کاروپ لینےکی دیرتھی کہ وہ دنیاکےصف اول کےعجوبہ بن گئے۔
مگرمغل عہدکےشہنشاہوں کی چند ایسی خواہشات بھی ہیں جوخواب سےحقیقت تک کاسفرنہ کرسکیں۔
جیسے؛
- سیاہ سنگ مرمری تاج محل (Black Marble Taj Mahal)
عمارتوں کےدلدادہ بادشاہ اور دنیاکےصف اول کے عجوبہ "تاج محل" کے خالق شاہجہاں نےاپنی دوسری بیگم ممتاز محل کے اعزاز میں آگرہ میں ہی تاج محل کےمتوازی "سیاہ تاج محل" تعمیر کرنےکامنصوبہ بنایالیکن صرف تعمیراتی لاگت اوراسی کےبیٹے اورنگزیب
کی مخالفت کی وجہ سے یہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔
- ھمایوں کا وسیع مقبرہ (Humayun's Mausoleum Expansion)
مغل شہنشاہ ھمایوں نے اپنے ہی تعمیر کردہ مقبرے سے زیادہ وسیع مقبرہ بنانے کا پلان کیا مگر ادھورے تعمیراتی ذرائع کے باعث یہ پلان بھی ادھورا رہ گیا۔
#HistoryMatters
#GeologyPage
ایل پینن ڈی گواتاپے(پینول گواتاپے، کولمبیا)
El Penón de Guatape(Penol Guatepe, #Columbia)
کبھی کبھی زمین کی تشکیل اس قدرحیران کن ھوتی ھےکہ وہ پوری کائنات کی ریڑھ کی ہڈی کی شکل اختیارکرلیتی ھےجیسےماءونٹ ایورسٹ،نیاگرافال وغیرہ
ایسی ہی چٹانی سنگ تراشی کی
ایک ہنگامہ خیز مثال آسمان تک جاتی کولمبیا کی عجیب و غریب سیڑھیاں ہیں جو انسانی مداخلت اور قدرتی خوبصورتی کا ایک دلکش امتزاج ہیں۔
لاکھوں سالوں سے کھڑی چٹان پر سرکاری سفر کا باقائدہ آغاز 1954 میں ھوا۔ اس چٹان کی ایک اھم خصوصیت یہ تھی کہ اس میں اوپر تک ایک عمودی شفاف تھاجس کی وجہ سے
سیڑھیاں بنانےمیں آسانی رہی۔
1954میں دو دوست Ramón اور Pedro نے اس چٹان کومہم جوئی کیلیے منتخب کیااور وہ اس میں 5 دن میں لاٹھیوں کی مدد سےچڑھنے میں کامیاب بھی ھوئے۔ وہیں سےاس چٹان پرسیڑھیاں بنانےکاخیال ابھرا۔
چٹان کےسب سے اوپر سرےپر سیاحوں کی سہولت کیلئےایک 3منزلہ "Look Out Tower"
#Indolody
#ancient
#HistoryBuff
دیوپریاگ(ڈسٹرکٹ تہری گرھ وال،اترکھنڈ)
Devprayag(District Tehri Garhwal, Uttarkhand)
اترکھنڈ توکیاپورےھندوستان میں ھندوؤں کی یاتراکا، زیارت کامقدس ترین مقام جہاں 5پریاگ ملتےہیں:دیوپریاگ، وشنوپریاگ، ننداپریاگ، کرناپریاگ اور رودرپریاگ۔ انہیں پنج-پریاگ
بھی کہاجاتا ھے۔
ان میں سب سےاھم "دیوپریاگ" ھےجس کالفظی مطلب ھے "پوتر سنگم" (Sacred Confluence) کیونکہ یہ وہ جگہ ھےجہاں ھندوؤں کے دو قابل احترام اور مذہبی دریا الکنندا (Alkananda) اور بھاگیرتھی (Bhagirthi) مل کرمقدس گنگا (Ganga River)کی شکل میں بہتےہیں۔
ھندؤ صحیفوں کے مطابق یہی وہ
جگہ ھے جہاں یہ دونوں افسانوی دریا مل کر مقدس گنگا میں گرتےہیں۔
دیوپریاگ ہی وہ جگہ ھےجہاں الکنندا ندی کاآخری سنگم ھےاور اسی جگہ پر 10،000ہزار سال قبل رگوناتھ مندر (Raghunath Temple)بھی تعمیرکیاگیاتھا۔
ھندوصحیفوں کےمطابق، بھگوان رام اور ان کےوالد بادشاہ دشرتھ نےیہاں تپسیا (Penance)
#BuddhistHeritage
#Buddhism
#HistoryBuff
یوگینگ گروٹوز/گوفا (ڈٹونگ، چین)
Yungang Grottoes/Caves (Datong, #China)
یوگینگ غار--پانچویں اورچھٹی صدی عیسوی کے بدھ مت کےزبردست اورصفائی اورمہارت سےتراشےان گنت غار اور انہی غاروں سےتراشیدہ بدھ مجسمے جوچٹانی طرزتعمیر کی سب سےکمال مثال ہیں۔
شمالی چین میں واقع شاہراہ ریشم کے ساتھ ساتھ پھیلے یہ252 غاروں میں تراشے 51,000 مجسمے 460 عیسوی میں بنانے شروع کیے گئے اور 60 سال کے طویل عرصے میں بدھ مت کے نقش و نگار کا یہ قدیم عجوبہ مکمل ھوا۔
چٹانی طرزتعمیر کےیہ مجسمے یوبانی، ھندوستانی اور ایرانی اثرات سے بنائےگئےہیں۔
یوگینگ کے
کے خراب موسم کے باوجود آج بھی مجسمے اپنی اصلی حالت برقرار رکھے ھوئے ہیں تو یہ اس بات کا مظہر ھے کہ غاروں بہت مضبوط اور گہرے ہیں۔
کئی غار لکڑی کے ڈھانچوں سے بھی ڈھکے ھوئے ہیں۔ ان غاروں تک بدھ مندر اور جھیل سے گزر کر آنا پڑتا ھے۔
مندروں کے اندر بھی خوبصورت فریسکو، تصویر کشی،