#ਪੰਜਾਬ #ਸਿਖਾ_ਸ਼ਆਹੀ #ਰੰਜੀਤ_ਸਿੰਘ #Sikh
مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج کے یورپی سپہ سالار
(European Commanders in Ranjit Singh Army)
جیسے شیخ حمید راجہ جےپال کی فوج کا کمانڈر تھا، محمود غزنوی کی فوج میں 10,000 ہندو شامل تھےبلکہ اس کی فوج کا سپہ سالار بھی سوبند رائےیعنی ایک ہندو تھا بالکل
اسی طرح عہدمہاراجہ رنجیت سنگھ میں بھی درجنوں یورپی جرنیل نوکری کرتے رھے۔
لیکن یورپی جرنیلوں کی "بہادری" کا اندازہ یہاں سے لگائیں کہ جب سکھوں پر مشکل وقت آیاتو یہ بھاری بھرکم تنخواہیں لینےوالے "ملازم" دوڑ گئےیعنی ان جرنیلوں میں سے 1846 تک اکا-دکاجرنیل ہی پنجاب میں باقی بچے۔
انگریز
جرنیل جومختلف یورپی ممالک سےتعلق رکھتےتھے، ان کے نام و عہدےکچھ یوں تھے؛ 1- Alvarine (اٹلی، پیدل فوج، لاھورمیں انتقال) 2- Gordon (گھڑسوار، لاھورمیں انتقال) 3- Ventura (اٹلی، پیدل فوج، پنجاب سے مفرور) 4- Allard (فرانس، گھڑسوار فوج، پشاور میں انتقال) 5- Court (فرانس، توپخانہ، مفرور)
1846 تک رہا) 21- Fitzroy(اینگلو-انڈین، پیدل فوج، مفرور) 22- Barlow(اینگلو-انڈین، پیدل فوج، مفرور) 23- Mouton(فرانس، گھڑسوارفوج، مفرور) 24- Steinbeck(جرمن، پیدل فوج، مہاراجہ گلاب سنگھ کےماتحت) 25- De La Roche(فرانس، پیدل فوج، گھوڑےسےگرکرانتقال) 26- De La Font(1st، فرانس، پیدل فوج،
مفرور) 27- De La Font (2nd, فرانس، پیدل فوج، مفرور) 28- Foulkes (انگلستان ، گھڑسوار ، سکھوں نے مار دیا)
اس دور میں امرتسر لاھور سے زیادہ خوشحال ھوا کرتا تھا۔ اس وقت پنجاب کی مجموعی آبادی 53 لاکھ پچاس ہزار تھی۔ لاھور کی ابادی 72,500 جبکہ امرتسر کی ابادی 60,000
تھی۔ رنجیت سنگھ کا دور سکھوں کا سنہری دور کہلاتا ھے۔ رنجیت سنگھ کی کامیاب حکمرانی کی ذمہ دار بھی اسکی منظم فوج ہی تھی۔
#Egyptology
#Archaeology
جنوبی سقارہ کےمقبرے (مصر)
Southern Tomb of Saqqara (#Egypt)
4400سال قدیم__محفوظ،مخفی اور ان چھوئےمقبرے
مصرشاید نام ہی حیران کر دینےوالےسلسلوں کا ھے۔
انہی حیرانیوں میں کائرو میں واقع سقارہ کےیہ مقبرے،یادگاریں یاکمپلیکس کچھ بھی کہ لیں، راہداریوں کا ایک ایسا
سلسلہ ہیں جو بادشاہ کو زندہ کرتاھے اور اس کے حق حکمرانی کی تجدیدکرتا ھے۔
سقارہ کے یہ مقبرے جو دنیا کے قدیم ترین ہتھروں سےبنائے گئے ہیں، 1928میں انگریز ماہر آثار قدیمہ سیسل ملابی فیرتھ کی دریافت ہیں جنہیں بعد "Southern Tomb" کا نام دیاگیا۔
مقبرہ ایک مستطیل پتھر کی عمارت کی شکل ھے۔
اسکی دیواروں کو داخلی اورخارجی راستوں کی شکل میں پتھر کے ساکٹوں کی ایک سیریز سے سجایا گیا ھے جن پر کوبرا کےسروں کا تاج پہنایاگیا ھے جوکہ زمانہ قدیم کے مصری رواجوں میں بادشاہت، رعونت، تحفظ اور طاقت کی علامت ھے۔
مقبرے کی نچلی سطح ایک ریمپ کی طرف ایک داخلی دروازےپر مشتمل ھے جو تدفین
#Indology
#Caves
#Archaeology
کھنڈ گیری اور اودے گیری گوفا (بھونیشور، اڑیسہ)
Khandagiri and Udayagiri Caves (Bhuneshwer, #Odissa)
دنیا کا آٹھویں عجوبہ
انسانی ہاتھ کے بنے ھوئے مصنوعی یک-منزل و دو منزل غار
اڑیسہ کے دارالحکومت بھونیشور کے پہاڑیوں پر واقع شاندار، تاریخی اور مذہبی غار
جنہیں دوسری صدی میں عظیم جین بادشاہ کھرویلا نے جین راہبوں اور سنیاسیوں کے رہائشی مقامات کے طور پر تعمیر کیا۔
پہلے یہ غار کاتک اور کٹک (Kataka and Cuttack Caves) کہلاتےتھے۔
غاروں کی اونچائی بالترتیب تقریبا 135فٹ اور 118 فٹ ھے۔ غار دیواروں پرشاندار نقش ونگار کیلئے مشہور ہیں۔
مجموعی
طور پر یہ چٹان سے کٹی ھوئی 33 غاریں ہیں جن میں سے ادے گیری میں 18 اور کھنڈگیری میں 15 ہیں۔
اودےگیری کا مطلب ھے "سورج کی پہاڑی" ۔ انتہائی دلکش غار پر مشتمل یہ عجوبہ جس کی تعمیر پہاڑ کی بنیاد سے شروع ھوتی ھے۔
تمام غاروں پر نمبر درج ہیں اور نام بھی جیسے "رانی گمفا یا ملکہ کا غار"
#Indonesia
#Buddhism
#Temple
بوروبدر مندر (جاوا، انڈونیشیاء)
Borobudur Mandir 🛕(Java, #Indonesia)
کیاصرف سرزمین ھند ہی مندروں کاگڑھ ھے؟
کسی پھول کی مانند کھلا، اہرام مصرسےمشابہت رکھتا، دنیامیں بدھ مت کی سب سےعظیم یادگاروں میں سےایک شاہکار انڈونیشیا کابوروبدر مندرجو ان گنت قدرتی
آفات اوربمباری سہنے کےباوجود صرف جاذبیت ہی نہیں پراسراریت بھی سمیٹےھوئے ھے۔
جاوا کے جزیرے پر واقع سیلیندر خاندان (Sailendra Dynasty) کے حکمرانوں نے 800ء کے لگ بھگ بدھ کی یادگار کے طور پر 75-100 سال کےعرصے میں یہ مندرتعمیر کیا۔
اپنی تکمیل کےایک سوسال بعد ہی مندر ناکارہ ھو گیا تھا۔
مندر کے ڈیزائن کاتصور شاعر، مفکر، اور ماہر تعمیرات گنا دھرم (Gunadharma) نے کیا تھا۔
1814 میں جاوا پر برطانوی لیفٹیننٹ گورنر سرتھامس اسٹامفورڈ ریفلز نےجزیرےکے اندرونی حصےمیں واقع ایک ناقابل یقین پناہ گاہ کی رپورٹس سن کر اس جگہ کو دوبارہ دریافت کیا اور اسےری سٹور کیا۔
بوروبدر مندر
#Indology
#architecture
علائی مینار (دہلی بھارت)
Alai Minar (#Delhi, India)
دہلی کےوسط میں کھڑا ایک کھردرا، بھربھرا اورمختصر ڈھانچہ جوصدیوں سےسیاحوں کو اپنی جانب کھینچےھوئےھے، درحقیقت علاءالدین خلجی کی خواہشات کی ایک نامکمل تصویرمگر مکمل تاریخ ھےجسے 1361عیسوی میں تعمیرکیا گیا تھا
80 فٹ بلند علائی مینار جیسا کہ نام سے عیاں ھے کہ اس نامکمل یادگار کو علاءالدین خلجی نے اپنی فتح کی علامت کے طور پر تعمیر کروایا اور اس لیے تعمیر کروایا کہ اس کے مینار "قطب مینار" سے چار گنا بلند ھونے چاہییں تاکہ ساری دنیا اس شاہکار کو اس کی عظمت، بہادری اور ذوق فن تعمیر سے پہچانے
اور دنیا پر اس کی دھاک بیٹھے۔
لیکن پھر یہ یادگار نامکمل کیسے رہ گئی؟
دراصل سلطان کے خیال کے مطابق یادگار کی تعمیر شروع کی گئی۔ بادشاہ کی خواہش تھی کہ منسلک مسجد قوۃ الاسلام کو اس کے اصل سائز سے چار گنا بڑھایا جائے۔ مسجد کے دونوں طرف ایک داخلی گیٹ وے بنایا گیا۔
علائی مینار کا پہلا
#Archaeology
#Tomb
#HistoryBuff
عظیم گیلری مقبرے(قصبہ دارا، ماردین #ترکیہ)
Grand Gallery Tomb(Dara, Mardin)
کیایہ حیران کن نہیں کہ ایک اجتماعی قبرسےسینکڑوں افرادکی ہڈیاں ایک ساتھ ملیں؟
ترکیہ کےشہر ماردین کےقدیم قصبہ دارامیں 1500سال پرانی، 3000رومن جنگجوؤں کو ایک ساتھ دفن کی گئی
ایسی ہی ایک منفردگیلری قبر کی دریافت ھوئی ھے۔
اس اجتماعی قبر کودیگرقدیم مقبروں سےجوچیزممتاز کرتی ھےوہ مکمل انسانی ہڈیوں کےٹکڑوں کی موجودگی ھے۔
ماہرین ہڈی(Anthropologists)کےمطابق ان
دفن کیےگئےانسانوں کی اوسط عمر اس وقت 45سال تھی۔
اج کے شہر دارا کےقدیم قصبےجوکبھی بالائی میسوپوٹیمیا
کی سب سےاہم بستیوں میں سےایک تھا۔
2010میں کی گئی کھدائی کےدوران ایک 1,500 سال پرانی اجتماعی قبر کاپتہ لگایاگیا ھےجس میں یسوع مسیح اور آرتھوڈوکس کوظاہر کرنےوالی علامات ہیں۔
دو منزلہ ساخت میں انسانی ہڈیوں کی اصل کےبارےمیں مختلف نظریات تجویز کیےگئےہیں۔ ایک خیال یہ بھی ھے کہ یہ علاقہ
#Indology
#Abondened
#Cities
#HistoryBuff
شہر دوارکا (گجرات، بھارت)
Dwarka City (State #Gujrat)
Kingdom of Lord Krirshna
12000 سالہ قدیم ایک ایساشہر جو ھندوؤں کا روحانی مرکزھے کیونکہ اسے لارڈ کرشنا کا شہر کہاجاتا ھے۔
ھندو افسانوں اور تاریخ میں بہت اہمیت کےحامل اس شہر نے طویل عرصے
سے مورخین، آثار قدیمہ کے ماہرین اور عقیدت مندوں کے تخیل کو اپنی گرفت میں لیا ھوا ھے جس کی وجہ یہ ھے کہ اسے ھندو دیوتا کرشنا نے بنایا تھا۔
خیال کیا جاتا تھا کہ کرشنا کے انتقال کے بعد بحیرہ عرب میں ڈوب گیا تھا۔ لہذا اب یہ سمجھنا بھی ضروری ھے کہ یہ قدیم شہر کبھی اس خطے میں کھڑا تھا
جہاں دریائے گومتی اور بحیرہ عرب آپس میں ملتے تھے۔
کرشنا دوارکا کا بادشاہ نہیں بلکہ اس کی تخلیق تھا۔ اسی نے اس کا نام "دواراوتی" یا "دوارکا" منتخب کیا۔
ایک مفروضہ یہ بھی ھے کہ اسےخدائی معماروں کی مدد سے تعمیر کیا گیا تھا اور اسے اکثر "گولڈن سٹی" کہاجاتا ھے۔ کرشنا کی موجودگی سے شہر