کچھ خیال کرو!
ڈھٹائی سے جھوٹ تو نہیں بولو
تمہیں خبر ہے ناں!
آگہی،احساس کی طاقت،
یہ سب اذیت کا باعث ہے
دل کی موت ہے،
پیار کاسچا ہونا بھی اک سزا سے کم نہیں
طبیعت آئینے کی طرح شفاف ، ذرا سی گرد بھی کہاں برداشت کرتی ہے خود پر
(اُن کے نام جو سفاکی سے جھوٹ بولنے کے ماہر ہیں)
++
++
مگر!
جہاں نام تک چرا لئے جائیں، ڈال دئیے جائیں نئی محبت کی جھولی میں
پچھلی رفاقتوں کو پاوں کی جوتی کے نیچے مسل کر
اور ہاں
شہزادی تو دل کی مسند پر
اک وقت میں اک ہی بیٹھی سجتی ہے!
یہ پھول ،یہ صبح بخیر کے میسج بھیجنے میں
نئے عشق کے تقاضے نبھانے میں ،
تم حق بجانب ہو
مگر!
++
++
ڈھٹائی سےجھوٹ تو نہیں بولو،
دیکھو !
سچائی ہنس رہی ہے
قہقہوں کا شور ۔۔۔۔ میری آنکھوں میں آنسو لے آیا ہے
حد ہے !!
تمہارے جھوٹ کی
یونیورسٹی کی مخلوط کلاس میں اک طالب علم نے اچانک سوال پوچھ لیا
سر آپ کی ہم جنس پرستی کے بارے میں کیا رائے ہے؟
میں بھونچکا گیا کہ ابتدائی اردو کے لیکچر میں یہ کیسا سوال ہے؟
طالب علم لڑکیوں کے سبب ہچکچاہٹ بھی تھی
مختصرا کہا
ہم جنس پرستی ماہرین عمرانیات/نفسیات/سماجیات کے مشترکہ
++
++
تحقیقی موقف کے مطابق نہ تو مرض ہے نہ کچھ اور بس اک نفسیاتی رجحان ہے
ہم جنس پرستی سے ہم خائف ہیں
ہم میں مردانہ اناپرستی ہے
ہم عورت کو مفعول خیال کرتے ہیں اس لیے ہمیں ڈر ہوتا ہے کہ کہیں ہم مفعول نہ ہو جائیں، خدا نہ کرے
نسل کشی جانور کی جبلت ہے
انسان جنسی عمل تولید کے لیے ہی
++
++
انسان جنسی عمل تولید کے لیے ہی نہیں کرتا بلکہ اس کا بڑا حصہ تلذذ کیشی ہوتا ہے
انسان کے علاوہ صرف ڈولفن شغل میں سیکس کرتے ہیں
انسان اور ڈولفن کا کوئی سیکشول پیریڈ نہیں ہے
باقی جانور صرف خاص وقت میں سیکس کرتے ہیں تاکہ جبلتی طور پر نسل آگے بڑھائیں
یہ روسی بانیا ہے
اسے حمام نہیں کہا جا سکتا
یہ نوجوان انتہائی گرم کیے پتھروں پہ پانی ڈال کے بھاپ پیدا کر رہا ہے
اس کمرے کا درجہ حرارت 60 سے 80 سنٹی گریڈ ہوتا ہے
اس میں تولیے باندھ کر بیٹھا جاتا ہے
سارا جسم پسینے سے شرابور ہوتا ہے تو ساتھ کے کمرے #Information #Worldwide
++
++
میں خاصے ٹھنڈے پانی کے حوض میں کود جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات دیہاتوں میں تو بس یہی کمرہ ہوتا ہے جس میں پسینو پسین ہوئے باہر نکل کر قدرتی برف میں لوٹنیاں لگاتے ہیں
پھر حوض کے گرد بیٹھ کر بیئر یا وادکا پیتے ہیں اور کچھ کھاتے ہیں
گرم سرد ہونے کا یہ عمل 3 سے 4 بار دہرایا جاتا ہے
++
++
پھر باقاعدہ شاور لیا جاتا ہے
جسم ہلکا ہو جاتا ہے اور طبیعت ہشاش بشاش
البتہ بلڈ پریشر اور دل کی امراض والوں کو ایسا کرنا منع ہے
Best Method To Remove Toxins From The Body.
سرِ راہ حکیم صاحب مل گئے
حیرت سے پوچھا: جناب آپ اپنا مطب بند کرکے چپکے سے کہیں چلے گئے بتایا تک بھی نہیں؟
حکیم صاحب حیرت سے:
نہیں تو! میرا مطب تو اب بھی وہیں پر ہے
تمہیں ایسا کس نے کہا؟
آپکے مطب کے نیچے چاول کی دکان والے اور اسکے برابر بیٹھے قصاب نے
حکیم صاحب سیدھا دکان پرگئے
++
++
پوچھا: بھائی! ہمارے بیچ میں ایسی کون سی بات ہوگئی ہے کہ تم میرے مریضوں کو مطب کا راستہ بتانے کے بجائے بتاتے ہو کہ میں یہاں سے مطب چھوڑ کر کے کہیں چلا گیا ہوں
ایسا کیوں کررہے ہو؟
دونوں بولے: حکیم صاحب!
آپ بھی تو جو مریض آتا ہے اسے کہتے ہیں کہ چاول نہ کھاؤ! بڑا گوشت نہ کھاؤ!
++
++
ان کو زیادہ کھانے سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں
اگر کام کرنا ہے تو مل کر کرتے ہیں
ورنہ دکان داری بند ہوگی تو سب کی ہوگی
میں انگلش میں برا ہوں مگر میں یہ بالکل کہنے میں نہیں ہچکچاؤںگا
I love You so much
جیو گرافی میں برا سہی
مگر میں تمہیں یہ بتانا چاہوںگا میرے دل کاجتنا بھی رقبہ ہےتم اس پہ محیط ہو
ہسٹری میں لاکھ بھلکڑ سہی
مگر میں وہ دن آج تک نہیں بھولاجب میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا #Fiction
++
++
میں کیمسٹری میں انتہائی نالائق ہوں
مگر میں تمہیں وہ ری ایکشن بتا سکتا ہوں جو تمہاری مسکراہٹ دیکھنے کے بعد مجھ پہ ہوتا ہے
میں فزکس میں بھی نالائق ہوں مگر میں روشنی کی اس انٹینسٹی کو بتا سکتا ہوں جو تمہیں دیکھنے کے بعد میری آنکھوں میں چمکتی ہے
ڈیپریشن کے کسی مریض کو سوچیے تو ذرا
کیا ذہن میں آتا ہے؟
اندھیرا کمرہ
ملگجے کپڑے
بھیگا لہجہ
خاموشی
ملنے جلنے سے مکمل گریز
یہ درست ہے
لیکن ہمیشہ نہیں
آپ خود بھی ایسے لوگوں کے گواہ ہوںگے کہ جن سے ملیں تو کچھ ملاقاتوں میں اندازہ تک نہ ہو کہ اندر کا معاملہ کچھ اور ہے #DeepLearning
++
++
تیز بیٹ پر میوزک سننے والے
موویز کے دلدادہ لوگ دیکھے ہوں گے
وہ جو گھومتے پھرتے ہیں
ملتے ملاتے بھی ہیں
اونچی آواز میں قہقہہ لگا کر ہنستے بھی ہیں
محفل کی جان لوگ جو دل کے نہاں خانوں میں اداسیاں سینچ سینچ رکھتے ہیں
Depression Comes In Many Different Colours And Sizes
++
++
بس مہربان رہیے۔ سبھی پر مہربان رہئے کہ مسکراتے چہروں کو دیکھ کر ہم نہیں جان سکتے کون کس محاذ پر کیا جنگ لڑ رہا ہے
جوں جوں انسان کی عمر بڑھتی جاتی ہے
اسکی جنسی جبلتوں کا مرکز اسکا دماغ بنتا جاتا ہے
جو کام وہ اپنی نوجوانی میں کرنے کاخواہشمند تھا موقع نہ ملنے یا گھبراہٹ کی وجہ سے کر نہیں سکا اب وہ انہیں اپنے دماغ میں کرتا ہے
میں نےاس ناول کو لکھنےکا آغاز 83 سال کی عمر میں کیاتھا #خوشونت_سنگھ
++
++
دو سال کے عرصہ میں مکمل ہوا
چنانچہ اس ناول کا موزوں عنوان یہ ہوسکتا تھا
اک 80 سالہ بوڑھے کے جنسی تصورات
واضح رہے کہ اس ناول کا اک بھی کردار حقیقی نہیں ہے یہ سارے کردار میرے بوڑھے تخیل کی تخلیق ہیں
خوشونت سنگھ نے اس ناول میں اپنی جنسی لحاظ سے "حسرت" کو بیان کیا ہے کہ کس طرح اک بوڑھا شخص "جنسی جذبات" کو "آخیر" تک لے جاتا ہے اور اس کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے
پڑھنے میں اک مزیدار کتاب ہے